مدیر سے پوچھیں | علی عمران سے ملاقات

مدیر سے پوچھیں
علی عمران سے ملاقات

علی عمران کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں مشہور سٹِ کام سیریلز ‘نادانیاں’، ‘بلبلے’ کے مصنف کے طور پر تو سب انہیں جانتے ہی ہیں لیکن اس کے علاوہ وہ اے آر وائی ڈیجیٹل میں بہ طور کونٹینٹ ہیڈ اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ اس ماہ مدیر سے پوچھیں کے سلسلے میں ہمارا انتخاب ہیں علی عمران۔
٭ کچھ اپنے بارے میں بتائیں؟ ہمارے قارئین جاننا چاہتے ہیں کہ آپ نے لکھنا کب شروع کیا؟
علی عمران: میں نے اپنا کام ریڈیو پاکستان سے زمانۂ طالب علمی میں شروع کیا تھا ، وہاں ایک پروگرام ہوا کرتا تھا ‘بزمِ طلبہ’، اس میں لکھنے اور پڑھنے والے آیا کرتے تھے، میری شروعات وہاں سے ہوئی تھیں، چوں کہ آرٹس کونسل پڑوس میں ہی تھا تو پیدل چل کروہاں جایا کرتا تھا، اس زمانے میں وہاں سٹریٹ تھیٹر ہوا کرتا تھا میں اپنے ریڈیو کے کچھ دوستوں کے ساتھ وہاں گیا۔ بزمِ طلبہ کے تھیٹر کی ایک ٹیم تھی جس نے وہاں پر تھیٹر کیا اور ہم وہ دیکھنے گئے ۔مجھے بڑا متاثر کیا اس پلے نے اور ان ساری چیزوں نے اس کے ساتھ ہی اس چیز نے مجھے اعتماد بھی دیا کہ میں لکھ بھی سکتا ہوں، یہ کوئی اتنی مشکل چیز بھی نہیں ہے۔ پھر میں نے ایک تھیٹر پلے لکھا، جس گروپ کے لئے لکھا تھا انہوں نے اس کو اچھا ڈائریکٹ نہیں کیا، میں نے سوچا کہ یہ خود ڈائریکٹ کرنا چاہیے تو پھر ہم نے ایک چھوٹا سا تھیٹر گروپ بنایا میزان کے نام سے، اس زمانے میں لڑکیاں تھیٹرمیں بہت کم آتی تھیں خاص طور پر سنجیدہ تھیٹر میں، تو ہمارے ایک دوست کہتے تھے یار شادیاں کرو اور اپنی بیویوں سے کام کرواؤ( قہقہہ) بہرحال اس گروپ سے ہم نے ایک پلے کیا، خود لکھا، خود ڈائریکٹ کیا خود ہی ایکٹ بھی کیااور مزے کی بات ہے دیکھا بھی خود ہے (مسکراتے ہوئے)۔ لیکن اس کا اپنا نشہ تھا، کہتے ہیں کہ تھیٹر کا نشہ کوکین کے نشے سے زیادہ خطرناک ہے۔ کوکین کا نشہ ہم نے کبھی کیا نہیں ، تو پھر وہ ایک نشہ لگ گیا اور بڑی برُی لت لگ گئی ( مسکراتے ہوئے) ہم گھنٹوں آرٹس کونسل کے چبوترے پر بیٹھا کرتے تھے۔ ٹیلی ویژن میں بہت بعد میں آیا ہمارے ایک بہت اچھے رائٹر ہیں فصیح باری خان، ان سے میری واقفیت تھی ، ان سے میں نے درخواست کی کہ اگر ٹیلی ویژن کے لئے کوئی کام مل سکے، اس زمانے میں ایک پروڈکشن ہاؤس تھا BMN پروڈکشن میمونہ صدیقی کا ان کے پاس انہوں نے بھیجا، میںنے ان کے لئے ایک ٹیلی فلم لکھی، وہ آج تک بنی نہیں لیکن مجھے اس کے پیسے مل گئے تھے (مسکراتے ہوئے) اور اس کے جب پیسے ملیں تو مجھے لگا کہ یار یہ تو اچھا کام ہے تو میں باقی سب جو کام کررہا تھا اپنی زندگی میں وہ چھوڑ کر اس ہی طرف آگیا۔میں نے سوشیالوجی میں ماسٹرز کیا تھا ، نفسیات کا علم تھا، ادب سے تو خیر شروع سے ہی لگاؤ تھا ، لکھتا بھی تھا، ریڈیو نے وہ خوف دور کیا، اس کے بعدتھیٹر نے بہت سکھایا، اور پھر ٹیلی ویژن ایک بالکل الگ میڈیم تھا۔
٭ ایک مہینے میں اوسطاً کتنے مسودے اور آئیڈیاز آپ کے پاس آجاتے ہیں اور آپ کا سلیکشن کا طریقہ کار کیا ہے؟
علی عمران: جس چینل میں میں بیٹھا ہوں اس کی اپنی requirement ہے اور اس کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہم چیزوں کو سلیکٹ کرتے ہیں ، ایسا نہیں ہے کہ ہم ہر کہانی اس وجہ سے نہیں کرپاتے کہ وہ سکرپٹ اچھا نہیں ہے یا کہانی اچھی نہیں ہے، کئی بار ہم وہ اس وجہ سے نہیں کرپاتے کہ وہ ہمارے چینل کی requirement سے match نہیں کررہی ہوتی۔ بہت اچھے اور خوبصورت سکرپٹس ہوتے ہیں جو ہم کرنا چاہتے ہیں لیکن نہیں کرپاتے ہیں کیوں کہ ہمیں تھوڑا محتاط ہونا پڑتا ہے اور آپ نے مہینے کی بات کی ہے تو وہ تو میں نہیں بتا پاؤں گا لیکن ہمیں روزانہ کی بنیاد پر تقریباً چالیس، پچاس نئے مسودے مل رہے ہوتے ہیں ، اچھی خاصی تعداد ہوتی ہے۔
٭ کیا آپ riskier themes پر کام کرتے ہیں؟یا پھر جو آپ کا چینل پروفائل ہے اس ہی کو مدِنظر رکھتے ہوئے کام کرتے ہیں؟
علی عمران: دونوں چیزیں ہوتی ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ ٹیلی ویژن لوگوں کا مزاج بناتا ہے ۔میں جب سے یہاں ہوں میری کوشش ہوتی ہے کہ چینل کی جو requirement ہے اس کو feed کیا جائے اس کے علاوہ میری کوشش یہ ہوتی ہے کہ ساتھ ساتھ ہم ایسا کونٹینٹ بھی بناتے جائیں جو لوگوں کو دوسرے طریقے سے کہانی سننے اور دیکھنے کا بھی عادی بنائے ۔ ہم نے ایشوز پر کہانیاں بہت کی ہیں، ہم نے controvercial taboos پر بھی کام کیا ہے، صرف روتی دھوتی عورتوں پر کام نہیں کیا ۔

٭ آپ کے خیال میں نئے آئیڈیاز پر کام کرنے کے لیے کون سے رائٹرز زیادہ موزوں ہیں؟ نئے رائٹرز یا سینئر اور منجھے ہوئے؟
علی عمران: دیکھیں دونوں کے اپنے pros and cons ہیں، دونوں کی اپنی اچھائی اور کمی ہوتی ہیں۔ نئے لکھنے والوں کے پاس انرجی بہت زیادہ ہوتی ہے، passion بہت ہوتا ہے ان میں، ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ کچھ ہٹ کر کام کیا جائے۔ جہاں تک پرانے رائٹرز کا تجربہ بہت count کرتا ہے ان کو سکرپٹ کی تکنیک کا پتا ہوتا ہے، ان کے ساتھ کام کرنے میں وہ دقّت نہیں ہوتی جو نئے رائٹرزکے ساتھ کام کرنے پر ہوتی ہے ،اگر آپ ہمارا پورا اردو ادب اٹھا کر پڑھ لیجیے، تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ کہانیاں کم و پیش ایک ہی جیسی ہوتی ہیں، ان کا اسلوب انہیں مختلف بناتا ہے، مجھے مغربی ادب کی کہانیاں بہت اپیل کرتی ہیں وہاں پر انسانی نفسیات پر اور آج کے انسان پر کہانیاں ہوتی ہیں جس پر بدقسمتی سے ہمارے ملک میں کام نہیں ہوپایا ہے ۔ نئے رائٹرز بھی اچھا لکھ رہے ہیں، پرانے رائٹرز بھی اچھا لکھ رہے ہیں، کچھ پرانے رائٹرز ہیں، جو اچھا نہیں لکھ رہے، کچھ نئے رائٹرز ہیں جو اچھا نہیں لکھ رہے۔ یہ کرتے کی وِدّیا ہے جو کرنے سے آتی ہے۔
٭ ابھی جو آپ نے بات کی پاپولرفکشن کی، ہمارے ملک میں دو طبقے بنے ہیں، ایک ادب اور ایک فکشن۔ ادب والے فکشن رائٹر کو کچھ سمجھتے نہیں ہیں، آپ کے خیال میں یہ درست ہے؟
علی عمران: ہر آدمی کا اپنا ایک نظریہ ہے، اپنی ایک سوچ ہے ، لیکن مجھے یہ لگتا ہے کہ ہر قسم کی سوچ کو اظہارکا موقع دینا چاہیے۔ اگر ایک آدمی اپنے ڈھب سے کہانی سنانا چاہتا ہے تو اس کو سنانے کا موقع ضرور دیں،یہ فرق ہمیشہ سے رہا ہے، میں اس چیز کا حامی ہوں کہ ہر طرح کا کام سامنے آنا چاہیے۔
٭ نئے لکھنے والوں میں کچھ ایسے نام جن کا کام آپ کو زیادہ بہتر لگا ہو؟
علی عمران: بہت سارے ہیں، نئے رائٹرز میں مجھے لگتا ہے کہ بہت پوٹینشل ہے، اور ہمارے پاس زیادہ تر نئے رائٹرز کام کررہے ہیں ۔ ہر رائٹر میں کچھ نہ کچھ خصوصیت ہوتی ہے ، کچھ کا سکرین پلے بہت اچھا ہوتا ہے، کچھ کے مکالمے اچھے ہوتے ہیں، کچھ کو کہانی کہنا بہت اچھی آتی ہے ۔ہر رائٹر میں کوئی نہ کوئی خاص بات ہوتی ہے، میں تو بڑا پراُمید ہوں، مجھے بڑی خوش آئند بات لگتی ہے، میری بس ایک درخواست ہوتی ہے کہ جو لکھ رہے ہیں اس کو ایمان داری سے لکھیں، جو لکھا ہے اس کو پڑھیں ضرور اور اس کو بار بار چھلنی سے گزاریں۔
٭ آپ نے ابھی کہا کہ زمانۂ طالب علمی سے آپ کا لکھنے پڑھنے کا شوق رہا ہے، تو کون سا ایسا ادیب ہے جس کی تحریریں آپ کو بہت اچھی لگتی ہیں؟
علی عمران: لکھنے کا تو بہت بعد میں ہی شوق ہوا، پہلے پڑھنے کا شوق تھا اور بہت شوق تھا۔ ہماری یونیورسٹی کے زمانے میں یہ ہوتا تھا کہ آپ خواتین کو متاثر کرنے کے لئے اشعار سنایا کرتے تھے ، ہمارے زمانے کی لڑکیاں بھی اشعار سے بڑا متاثر ہوتی تھیں، ہم نے مختلف شعراء کے اشعار سنانا شروع کردیے ، بعد میں ہم پکڑے گئے کہ یہ کسی اور کے شعر تھے، اس احساسِ شرمندگی نے مجبور کیا کہ اب کچھ لکھا بھی جائے(قہقہہ) جہاں تک ایک ادیب کی بات ہے تو ایک کا نام لینا مشکل ہے۔بہت سارے ہیں ، اگر برِصغیر کی بات کی جائے تو سعادت حسن منٹو، احمد ندیم قاسمی صاحب، گلزار صاحب، ممتاز مفتی صاحب ، عبداللہ حسین اور اگر آپ بین الاقوامی ادب کی بات کریں تو چیخوف ہیں۔
٭ کون سا writing genre کا آپ کو بہت پسند ہے؟
علی عمران: مجھے نفسیاتی کہانیاں ہمیشہ سے پسند آئی ہیں اور ٹیلی ویژن کے اعتبار سے اگر پوچھا جائے تو مجھے رومانی کہانیاں پسند آتی ہیں۔
٭ کون سا writing genre جو آپ کو انتہائی غیر دلچسپ لگتا ہو؟
علی عمران: آپ اگر یقین کریں گے تو میں بتادیتا ہوں مزاح (قہقہہ) میں سچی بات بتاؤں تو مجھے کامیڈی لکھنے میں بھی زیادہ مزہ نہیں آتا۔ میں بہت بے دلی سے لکھ کر اپنے ڈائریکٹر کو دے دیتا ہوں کہ بھائی جو سمجھ آئے اس کو شوٹ کردینا، اور وہ بہت اچھا نکل آتا ہے ، تو وہ مجھے کہتے ہیں کہ آپ بے دلی سے ہی لکھا کریں، دل سے لکھیں گے تو رزلٹ اچھا نہیں آئے گا (قہقہہ)
٭ آپ کو نہیں لگتا کہ بلبلے بہت زیادہ طویل ہوگیا ہے اس کو اب بند ہوجانا چاہیے؟
علی عمران: دیکھیں اگر آپ میری پسند ناپسند پر جائیں گے تو اس وقت ٹیلی ویژن پر چلنے والے آدھے سے زیادہ ڈرامے بند ہوجائیں گے ( مسکراتے ہوئے) میں نے کہا نا کہ چینل کی بھی کچھ مجبوریاں ہوتی ہیں اور ایسا ہرگز نہیں ہے کہ چینل ڈھیٹ بن کر بیٹھا ہوا ہے ، مجھے آج بھی بہت لوگ ملتے ہیں جو بلبلے دیکھتے ہیں اور باقاعدگی سے دیکھتے ہیں۔ میرا ماننا یہ ضرور ہے کہ اس کی مقبولیت کم ہوئی ہے۔ یقینی طور پر ایک چیز اگر اتنی طویل ہوگی تو ایک وقت آئے گا کہ لوگ اس کو گھر کا سامان سمجھنے لگتے ہیں۔
٭ آپ نے کامیڈی کے علاوہ سنجیدہ بھی لکھا ہے؟
علی عمران: میں نے شروعات سنجیدہ کام سے ہی کی۔ اب بدقسمتی ہے کہ لوگوں کو اس کے حوالے سے زیادہ پتا نہیں (قہقہہ) میں تو مزاح لکھتا ہی نہیں تھا ، نہ ہی لکھنا چاہتا تھا۔ میں نے کامیڈی کبھی نہیں لکھی، تھیٹر میں ڈارک کامیڈی تھوڑی بہت لکھی اور شاید وہی چیز میرے کام آگئی۔ ایک سیریل آتا تھا میں اور تم جو اظفرکرتے تھے،اس کے رائٹر کے ساتھ کچھ مسئلہ ہوگیا تو اظفر میرے پاس آگئے اور کہنے لگے کہ علی بھائی آپ نے یہ لکھنا ہے ، میں نے کہا یار مجھے تو کامیڈی نہیں لکھنا آتا، تو انہوں نے کہا یار اتنا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، میرے ساتھ بیٹھ جاؤ یوں کرو، یہ کرو، اور ایسے کرلیتے ہیں، اور واقعی اظفر نے بڑا آسان کردیا۔
٭ آپ کے اب تک کے کیے گئے پراجیکٹ میں کون سا پراجیکٹ ہے جو آپ کو بہت پسند ہے؟
علی عمران: میں نے شروع میں ایک شارٹ پلے کیا تھا، خاموشی کے نام سے جس میں فیصل قریشی اور ثانیہ سعید تھے اور عمران پٹیل اس کے ڈائریکٹر تھے، وہ پلے مجھے بہت پسند تھا۔ دوسرا میرا ایک سیریل تھا خراشیں، سیفی حسن نے ڈائریکٹ کیا تھا وہ بھی مجھے بہت پسند ہے۔ پھر فہد مصطفیٰ نے ایک سیریز شروع کی تھی ‘اور پھر’ کے نام سے اس کے میں نے پلے لکھے تھے۔ کامیڈی میں مجھے جو پسند ہے وہ نادانیاں ہیں، اور بلبلے۔۔اب تو نہیں لیکن شروع میں بہت پسند تھا(مسکراتے ہوئے)
٭ مقابلے کے باقی ایڈیٹرز میں کون سے ایسے ہیں جن کا کام آپ کو بہتر لگتا ہے؟

Loading

Read Previous

سیاہ اور سفید کے درمیان

Read Next

مدیر سے پوچھیں | پرویز بلگرامی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!