سرائیکی لوک کہانی | جیونی اور چور

سرائیکی لوک کہانی
جیونی اور چور
اختر عباس

اختر عباس ملک کے ممتاز تربیت کار ، ماسٹر ٹرینر اور ایچ آرکنسلٹنٹ ہیں ۔ ماہنامہ ہمقدم، اردو ڈائجسٹ، قومی ڈائجسٹ اور بچوں کے رسالے ماہنامہ پھول کے مدیر رہے اور ایڈیٹر بھیا کے نام سے شہرت پائی۔ ان کی 35کتابوں کی سات لاکھ سے زائد کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں ۔ اس کے علاوہ 70ہزار طلبہ و طالبات کے لیے منی بک سیریز کی پانچ کتابیں جنہیں HAI نے گورنمنٹ آف آزاد جموں کشمیر کے لیے ساڑھے تین لاکھ کی تعداد میں شائع کیا۔ پاکستان میںبچوں کے ادب کا سب سے بڑا ایوارڈ یوبی ایل لٹریری ایکسی لینس بھی حاصل کر چکے ہیں۔ ”الف نگر ” کے لوک کہانی نمبر کے لیے انہوں نے خصوصی طور پر ”سرائیکی وسیب لوک کہانی” لکھی ہے۔

سچ تو یہی ہے کہ لوک داستانوں کا کوئی سال ، مہینہ اور دن نہیں ہوتا، میں نے یہ داستان جنوبی پنجاب کے شہر نور پور نورنگا میں سنی۔ اس کا آغاز مبارک پور سے ہوا اور اختتام آج تک نہ ہوسکا۔ بتایا جاتا ہے کہ مبارک پور نامی قصبہ ریاست بہاولپور کے تیسرے نواب محمد مبارک خان عباسی نے 1757ء میں آباد کیا۔
یوں کہہ لیجیے کہ یہ لوک داستان 1757 ء اور 1762 کے درمیانی برسوں میں وجود میں آئی ، البتہ میں نے 1976ء میں اس وقت سنی جب ساتویں جماعت کا طالب علم تھا۔
مبارک پور جانے والی سڑک پر مُجی کی دودھ ملائی والی دکان تھی۔ تب وہاں دہی کا رواج نہیں تھا ۔ ہم وہاں سے روزانہ ملائی خریدنے جاتے اور گرم تنوری روٹی کے ساتھ کھایا کرتے تھے ۔ ہمارے اسکول کا کارِخاص فیض محمد تھا ۔جوخود کو دادپوترا کہلواتا تھا ۔ وہ اس علاقے کا رہائشی تھا اور اسی نے یہ داستان پہلی بار مزے لے لے کر سنائی دوسری اور تیسری بار کے راوی الگ الگہیں۔
مبارک پور کی بستی میں مبارک نام کا ایک معمولی سا کسان رہتا تھا۔ چند ایکڑ زمین اس کی کل کائنات تھی جس میں وہ کاشت کاری کرتا۔ا یک بھینس اور دو تین بکریاں مبارک کے گھر کی رونق تھیں۔ بارہ چودہ سال کی ایک بیٹی تھی… جیونی!
سبھی اسے امّاں جیونی کہہ کر بلاتے (اس علاقے میں بچی کو اماں کہتے ہیں، بوڑھی عورت کو نہیں) اس کی اصل والدہ کون تھی، زندہ بھی تھی یا مرچکی تھی۔اس کا کسی کو علم نہیں، جیونی کا ایک ماموں تھا رحیم بخش داد پوترا، وہ کسان تھا یا دکان دار یہ بھی واضح نہیں مگر اتنا علم ہے کہ وہ جیونی کا سگا ماموں نہ تھا۔ جیونی کے گھر وہ باقاعدگی سے آتا اور عام طور پر دن چڑھے اس وقت آتا جب جیونی کھانے کی تیاری کر رہی ہوتی۔ ہانڈی چولھے پر رکھ کر وہ آٹا گوندھ رہی ہوتی۔ مبارک بخش بھی دوپہر کو عین اسی وقت گھر آتا جب جیونی کھانا پکا کر گرم گرم روٹیاں چنگیر میں رکھ چکی ہوتی۔ کبھی وہ پہلی روٹی پکنے تک اور کبھی دوسری روٹی کے توے سے اترنے تک گھر پہنچتا۔
قصبہ بے شک تاریخی تھا مگر رقبے میں چھوٹا اور وسائل اور آمدنی کے حساب سے تو کافی چھوٹا تھا۔ اس لیے مکینوں کی زندگی بہت آسان نہ تھی۔ سبھی سرائیکی بولتے۔ اس میٹھے لہجے کی زبان کی مٹھاس سے زندگی کی تلخیوں اور تلخ یادوں کو سینے سے لگائے جی رہے تھے کہ جب اچانک بستی میں وارداتیں ہونے لگیں۔ آغاز چھوٹی چھوٹی چوریوں سے ہوا۔ لوگ یہی سمجھتے کہ وہ اپنی گم شدہ چیز کہیں رکھ کر بھول گئے ہوں گے۔ پھر جب بڑی بڑی وارداتیں ہونے لگیں تو اس مسئلے نے سنگین شکل اختیار کرلی۔ وہاں پولیس اور فوج کا روایتی انتظام تھا اور نہ ہی کوئی اہم سرکاری افسر داد رسی کے لیے تعینات تھا۔
بستی مبارک پور کے سیانے ہر دوسرے تیسرے دن شام کو جمع ہوتے اور چوری کی وارداتوں کی تازہ خبریں اور پرانے تبصرے سنتے۔ باہم مشورے سے یہی طے ہوا کہ اوّل تو گھروں کے دروازے لگائے جائیں اور انہیں اندر سے بند کیا جائے، دوم یہ کہ دیواریں بنوا لی جائیں مگر چور بھی گھر کا بھیدی اور بستی کا باسی تھا، وہ ان سبھی دائو پیچ کو سنتا اور ان کا توڑ نکال لیتا۔ ایسے ہی کئی ہفتے مہینے گزر گئے چور پکڑا گیا نہ چوری روکی جاسکی۔
اچھی خاصی پرسکون بستی میں بے سکونی اور بے چینی کسی وبا کی طرح پھیل گئی اور اس سے بچنے کی راہ نہیں مل رہی تھی۔ اس دوران سیانوں نے بڑی مہارت سے طے کیا کہ جس روز چور پکڑا گیا، سب مل کر اس کی ٹھکائی کریں اور اس کا بازو اور ٹانگ اُلٹے رخ سے کاٹ دی جائے گی، یعنی دایاں بازو اوربائیں ٹانگ کاٹنی ہوگی اور بایاں بازو تو دائیں ٹانگ ہوگی۔ اتنی بڑی سزا اور سخت فیصلے بھی چور کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ بن سکے۔
پھر ایک دن وہ معاملہ ہوگیا جس نے اس بستی کے رہنے والوں کے ساتھ جیونی اور مبارک بخش کو بھی لوک داستان کا حصہ بنادیا ۔ مبارک بخش اپنے معمول کے مطابق دوپہر کے وقت گھر جا رہا تھا۔ جب اس نے دور سے اپنا دروازہ کھلا پایا۔ اس کادل دھک سے رہ گیا ۔اچھے زمانے تھے بچوں کی عزت اور اغوا کا خطرہ پریشانی کا باعث نہ بنتا تھا ۔ البتہ سامان کی چوری تکلیف پہنچاتی ، بڑی مشکل سے دمڑی دمڑی جوڑ کر گھر کی چیزیں جمع ہوتیں تھیں۔ مبارک بخش جونہی گھر داخل ہوا ایک ادھیڑ عمر آدمی کو سرجھکائے بیٹھے پایا۔ اس نے وہیں سے للکارا۔
”ہاں بھئی کیہڑا ہیں۔” (ہاں بھئی کون ہو؟)

اُس نے دھیما سا جواب دیا جو مبارک کے پلّے نہ پڑا ۔ وہ اس کے قریب ہوا، اپنا سوال دہرایا ۔ ساتھ میں مزید جملے کا اضافہ کیا۔
”کینویں بیٹھیں ایں؟” (کیسے بیٹھے ہو؟) اس نے سر نہیں اٹھایا اور بولا: ”ہک گل نے اٹھن دے قابل ای کائی نئیں چھڈے۔” (ایک بات نے اٹھنے کے قابل ہی نہیں چھوڑا)
”کیا مطلب ہے تیڈا بھرا ، سدھی گل چا کر۔” (او بھائی میرے پہیلیاں نہ بھجوائو سیدھی بات کرو) اس آدمی نے ٹھنڈی آہ بھری ، منہ اوپر اٹھایا اور بولا:
”آیا تو میں چوری کرنے تھا، مگر تمہاری بیٹی کے ایک جملے نے مجھے کہیں کا نہیں چھوڑا۔”
مبارک بخش نے دائیں بائیں دیکھا، کوئی دیکھ تو نہیں رہا پھر اس آدمی کا بازو پکڑ ااور اندر لے گیا ۔ دروازہ زور سے بند کیا۔ اسی اثنامیں اندر سے آواز آئی:
”ماما سائیں! کتھاں رہ گئے وے ،اندر آونجو۔” (ماموں آپ کہاں رہ گئے، اندر آجائیں) چور نے مبارک کو بتایا کہ چند منٹ پہلے جب میں چوری کی نیت سے گھوم رہا تھا، توتمہارے گھر کا دروازہ کھلا دیکھا، اندر داخل ہونے لگا تو اس کے پٹ سے ٹکر ا گیا۔ اسی لمحے اندر سے آواز آئی:”ماما !سائیں آجاؤ، روٹی پک رہی اے۔”
مجھے یوں لگا جسے کسی نے جلتا ہوا انگارہ مرے کانوں میں رکھ دیا ہو ۔ وہ ایک چور کو ماما سائیں کہہ رہی تھی اور کیا کوئی ماموں اپنی بیٹی کے گھر چوری کرتا ہے؟”
لوک داستان سنانے والے یہ بتانے سے آج بھی قاصر ہیں کہ چور کا کیابنا؟
ہاں یہ بتاتے ہیں کہ اسے جیونی اور اس کے ابّا نے معاف کردیا۔ چور انہی کی برادری کا تھا۔ جیونی کی صرف ایک بات اس کے :باپ کی سمجھ میں آگئی کہ
”بابا سائیں !کون آدھا ہے ایہو چور اے، کیں نئی ڈیٹھا؟ ”(کون کہے گا یہ چور ہے ، کسی نے نہیں دیکھا)
”بات دل کو لگتی ہے کہ جب ماموں گھر آئے تو پھر چور نہ ہوا نا!”جیونی کے باپ نے سوچا۔
مبارک پور بستی کا نام شاید جیونی کے ابا مبارک کے نام پر ہی رکھا گیا ہو۔ وہ چور تو کبھی پکڑا نہ جاسکا، ہاں البتہ اس کے بعد چوری کی کوئی واردات نہ ہوئی۔ کہتے ہیں جیونی کے گھر دوپہر کے کھانے کے وقت اکثر ایک مہمان اور بھی آجایا کرتا تھا۔ لوک داستان والے اس کا نام بتانے سے آج تک قاصر ہیں، میں بھلا کیسے بتا سکتا ہوں۔
٭…٭…٭

Loading

Read Previous

ہینگنی اور ولیدنی | تھل کی لوک کہانی

Read Next

کپڑے کا سوداگر | سیالکوٹ کی لوک کہانی(سنی سنائی)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!