انگوٹھا چھاپ —- عائشہ تنویر

پرانے دور کی بات ہے ملک میں تعلیم کی شرح بہت کم تھی، جو کہ نئے دور میں بھی مستقل مزاجی سے وہیں موجود ہے۔ لیکن اس دور میں اکثر لوگوں کو اپنا نام بھی لکھنا نہ آتا اور دستخط کی جگہ وہ شناختی کارڈ، چیک وغیرہ پر انگوٹھے کا نشان لگاتے۔ یوں جب کسی کو ان پڑھ کہنا ہوتا تو آ رام سے ”انگوٹھا چھاپ” کہنا دیا جاتا۔
خود ہم نے بچپن میں جتنی بار لکھنے میں غلطی کی، بہن سے یہ ہی سنا:
“تم بس انگوٹھا چھاپ ہی رہنا۔”
یہ طعنہ ہمارے دل پر ایسا لگتا کہ بہت محنت کر کے ہم کچھ پڑھے لکھے ہو ہی گئے۔
یعنی اپنا نام بہ آسانی پڑھ لیتے اور لکھ لیتے۔ اس سے زیادہ کی ہمیں ضرورت یوں نہ تھی کہ مملکتِ خداداد میں ہر وہ شخص جو کچھ لکھ پڑھ سکتا ہے۔ خواندہ کہلاتا ہے۔
شاید حکومت کو بھی ہماری طرح “کم شرح خواندگی” کے طعنے اچھے نہیں لگتے تھے جو شرح خواندگی بڑھانے کا یہ تیز رفتار طریقہ دریافت کیا۔





بہرحال دستخط جو انگریزی کو پیارا ہو کر “سائن” کہلانے لگا ہے، آج کے دور کی اہم ضرورت ہے۔ اس لئے چھوٹے چھوٹے بچے بھی اپنا نام لکھنا سیکھتے ہی انوکھے اور منفرد قسم کے سائن اپنے لئے ڈھونڈنے اور ان کی مشق کرنے لگ جاتے ہیں۔ اکثر کیسز میں تو نام لکھنا سیکھنا بھی ضروری نہیں ہوتا کہ جدید فیشن کے سائن کے لئے ضروری ہے کہ دو چار قوسیں، آڑی ترچھی لکیریں یوں ڈالی جائیں کی آپ کا نام صیغۂ راز رہ جائے۔ اپنے سائن منتخب کرنے اور انہیں پختہ کرنے کے لئے جتنی محنت نئی نسل کرتی ہے اگر اس سے آدھی بھی اپنی تعلیم کے لئے کر لے تو والدین کے سارے گلے شکوے دور ہو جائیں۔ بہرطور نئی نسل ہماری “استاد” ہے سو اس کے بارے میں کچھ کہنا مناسب نہیں۔
قصہ یہ ہوا کہ ہم گو کہ اتنے نئے بھی نہیں، لیکن جدید فیشن اپنانے کے شوق میں بے حد محنت سے اپنا نام سیکھنے کے بعد جب ہم شناختی کارڈ بنوانے گئے تو “نادرا” والوں نے پھر بھی ہم سے انگوٹھے کا نشان ہی لیا۔
ہم نے بہتیرا واویلا مچایا کہ ہم چاند، ستاروں سے مزین عمدہ قسم کے دستخط کی مشق اس لئے نہیں کرتے رہے کہ آخر میں انگوٹھا چھاپ کہلائیں۔
لیکن ہمارا احتجاج انہوں نے یہ کہہ کر رد کر دیا کہ چاہے آپ اپنے دستخط میں پوری کہکشاں ٹانک لیں اور ڈگریوں کے نام پر اردو اور انگریزی کے تمام حروف تہجی لے آئیں۔ آپ کو انگوٹھے کا نشان بلکہ ہاتھ کی تمام انگلیوں کا نشان دینا ہی ہو گا۔
کچھ نادرا والے جب سے سرکار کے ملازم ہوئے ہیں، عوام سے ان کا لہجہ بدل گیا ہے۔ اب بھی صاحب گفتگو کا درشت لہجہ سن کر دل تو چاہا کہ انگلیوں کے نشان ان کے چہرے پر چھاپ جائیں، لیکن چوں کہ ہمیں اپنے پاکستانی شہری ہونے کا ثبوت درکار تھا، سو صبر و برداشت کا مظاہرہ کرتے ان کی تمام ہدایات پر عمل کرتے رہے۔
انگوٹھے کی ضرورت ہم جان تو گئے تھے لیکن اس کی حقیقی قدر کا علم ہمیں ایک عدد موبائل فون کی ملکیت حاصل کرنے کے بعد ہوا۔
ایک ہاتھ میں پین پکڑے بہت دھیان سے استاد کو دیکھتے، دوسرے ہاتھ کو نیچے کئے انگوٹھے سے تیزی سے کتنے ہی پیغام ہم نے بھیجے اور وصول کئے۔ کانوں میں ہینڈز فری ٹھونسے انگوٹھے سے موبائل ریڈیو کے چینل بدلتے، آواز کم کرتے اور بڑھاتے ہم گویا لیکچرز پر سر دھنتے تھے۔ ہمارے انگوٹھے کی حرکات سے بے خبر اساتذہ ہمارے چہرے کے تاثرات دیکھتے اور پوری کلاس کو ہمارے تعلیمی ذوق وشوق کی مثالیں دیتے کہ جب بور ترین موضوعات پر پوری کلاس سو رہی ہوتی ہم ہنوز چاک و چوبند ہوتے۔
پھر سوشل میڈیا کا زمانہ گیا۔





اب بلا وجہ سارا دن اپنے اکاؤنٹ کو دیکھنا، انگوٹھے سے اوپر نیچے اسکرول کرتے رہنا ہمارا فرض بن گیا۔ ٹوئیٹر، انسٹاگرام، فیس بک، پن ٹرسٹ، لنکڈِ ان غرض یہ کہ کون سی سائیٹ تھی جو ہمارے چست و متحرک انگوٹھے تلے نہ آتی۔
کسی کا تبصرہ اچھا لگتا تو انگوٹھا کھڑا کر کے تعریف کرتے۔ زیادہ اچھا لگتا تو انگلی اور انگوٹھے سے بہترین کا اشارہ دیتے۔
کبھی انگوٹھے پر پھول لگاتے تو کبھی پٹی باندھ لیتے۔ کبھی انگوٹھا نیچا کر کے ٹھینگا دکھاتے۔
جو نام لوگ دن رات کی محنت کے بعد زمانے میں کماتے، وہ ہم نے دنوں میں کما لیا۔
ہم ہر جگہ سے دھڑادھڑ ایکٹو ممبر کے انعام وصول کرتے، کبھی فیس بک مقابلے جیتتے اور فخر سے سب کو دکھاتے، تو ہماری بہن جو صرف پڑھائی پر اپنا وقت ضائع کرنے کی عادی تھی، شرمندہ ہوکر رہ جاتی۔
اور تو اور ہم جو اپنی کم علمی کے باعث ہر جگہ شرمندہ ہوتے، اب ”لیٹسٹ ٹرینڈ، وائرل پوسٹ” کی بدولت ہر جگہ اپنی معلومات عامہ کا رعب جھاڑتے۔ لوگوں کے اچھے اچھے جملے اپنی گفتگو میں یوں شامل کرتے کہ خاندان بھر میں ہمارے انداز بیاں کے چرچے ہونے لگے۔
کبھی غلطی سے ہمارے ذہن میں یہ خیال بھی آجاتا کہ اگر انگوٹھا نہ ہوتا، تو ہم اس سوچ سے ہی لرز اٹھتے۔ انگوٹھا اتنا کثیرالاستعمال ہے کہ اگر ہمارے بڑے جان لیتے تو اپنے انگوٹھا چھاپ ہونے پر کبھی شرمندہ نہ ہوتے۔
سوشل میڈیا پر اتنا وقت لگانے کا نتیجہ وہی نکلا جو نکلنا چاہیے تھا۔ پھر اپنے برے رزلٹ پر ڈانٹ پھٹکار کا کوئی اثر نہ لیتے ہوئے ہم نے اپنی ساری کتابیں بہن کے سامنے دھریں اور فخر سے اعلان کیا۔
” ہاں! میں انگوٹھا چھاپ ہوں”

٭…٭…٭




Loading

Read Previous

میں کون ہوں —- مائرہ قیصر

Read Next

عدل — بشریٰ خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!