میں اس وقت جس جگہ پر موجود ہوں وہ میرا کمرہ ہے، جہاں فی لحال نیم تاریکی ہے۔ کمرے کا احاطہ خاصہ تنگ ہے۔ عقبی دیوار پر موجود ایک ننھے سے روشن دان سے ہلکی
پچھلے پہر جب چاند بھی ڈھل گیا ہوتا ہے اور تاروں کی بارات بھی قریباً جاچکی ہوتی ہے، بجنے والی یہ مترنم سی گھنٹی میرے خوابوں کو چکنا چور کرگئی۔ "کون ؟” میں نے ذرا
وہ ایک ادھوری زندگی گزار رہا تھا۔ بعض لوگ ساری عمر زندہ رہنے کے باوجود مکمل زندگی نہیں گزار پاتے۔ مکمل زندگی بہت کم لوگوں کونصیب ہوتی ہے ۔ اُس کے باپ نورزمان نے دوشادیاں
”تم کیوں آئی ہو؟ دور رہو میرے بیٹے سے….”، آپریشن تھیٹر کے باہر آمنہ فراست کا سہارا لیے کھڑی تھی، سامنے سے ثروت اور عماریہ کو آتا دیکھ کر مشتعل ہوگئی۔ فراست نے آگے بڑھ
مقدم چودھری اور مراد چودھری آگے پیچھے گھر پہنچے تھے۔ ”نگو ، ثمین” چودھری مراد نے رعب دار سی اُونچی آواز میں بیویوں کو پکارا۔دونوں نے شوہر کا ایسا لہجہ اور انداز پہلے کبھی نہیں
ربیع الاول کا مہینہ چل رہا تھا اور روز کہیں نہ کہیں محفلِ میلاد منعقد ہورہی تھی۔ کہیں صرف مرد حضرات کی محفل تو کہیں خواتین کی۔ شہر کی فضا درود و سلام سے معطر