مگر عیلی کو اتنے ٹھاٹ باٹ سے جاتے دیکھ آج بھی ایک آنکھ نے احساسِ کمتری میں نچڑے اشک بہائے تھے۔ وہ معصوم آنکھ رِمی کی تھی جسے دیکھ اس کے ابا پریشان ہوئے تھے۔
چھم چھم بادل برس رہا ہے۔ ٹین کی چھتوں پر ساز بُنتا، کہیں درختوں سے چھیڑ چھاڑ کرتا، پھولوں کے رنگ نکھارتا، دورکہیں پربتوں پر چنگھاڑتا، آج تو چھاجوں چھاج مینہ برس رہا ہے۔مینہ جو
”ہائے کوئی اس لڑکی کو رُلا ہی دیتا ورنہ اس کے اندر تو ورم بن جائے گا۔” یہ وہ نصیحتیں اور مشورے تھے جو ہر بڑی بوڑھی نسیم کے پاس بیٹھتے، اٹھتے اور گزرتے اسے
آم پھلوں کا بادشاہ ہے اسی لیے سب کا راج دلارا ہے۔ امیر، غریب سب کی آنکھوں کا تارا ہے۔ اسی لئے سخن کے بادشاہ مرزا غالب نے پھلوں کے بادشاہ کے بارے میں کہا
امی امی! مجھے علی نے مارا، زویا روتی ہوئی مسز کمال کے پاس آئی۔” نہیں امی! زویا جھوٹ بول رہی، امی میں نے نہیں مارا۔” علی جھوٹ موٹ کا منہ بناتے ہوئے بولا۔ مسز کمال