”آپ اماں سے بات کر لیں، اُمید ہے انہیں کوئی اعتراض نہ ہو گا کیوں کہ اب آپ کماتے ہیں۔” میں نے چائے کپوں میں اُنڈیلتے ہوئے کہا۔ وہ کہنے لگا: ”نہیں میں نے نوکری
کیا ہوا۔۔۔۔؟ میرا جواب نہ پاکر وہ بولی۔ “کچھ نہیں۔۔۔۔! ان سے کہیں مجھے منظور ہے۔ میں نے فون بند کیا اور جلدی سے گھر کی طرف روانہ ہوا ۔میں ماما کو جلد سے جلد
زندگی اپنے معمول پر رواں دواں تھی، اس کا لیپ ٹاپ ٹھیک کام کر رہا تھا۔ وہ کبھی تو پریشان ہوتی مگر پھر مطمئن ہو جاتی۔ مہروش کا بھائی اس کے لئے ایسر کا لیپ
وہ لرزتے ہاتھ ہر دم ساجد کے لئے دعا گو رہتے تھے۔ وہ آنکھیںہر لمحہ ساجد کی خیر و عافیت کی دعائیں مانگتے مانگتے بھیگ جایا کرتی تھیں۔ وہ عورت آج بھی اپنے ہاتھوں سے
تنگ دستی انسان کو ننگے پاؤں سفر کرواتی ہے، جب تک کہ آبلوں میں سوراخ ہو کروہ پھٹ نہ جائیں۔ زخم بھر جانے کے بعد ایک نیا سفرکسی نئے آبلے کا منتظر ہوتا ہے اور
سرخ اشارے پر گاڑی روک کر سعدیہ نے ساتھ بیٹھے احمد کو دیکھا۔ وہ گاڑی میں بیٹھتے ہی اسے اپنے سارے دن کی روداد سنانا شروع کردیتا تھا اور طوطے کی طرح نان سٹاپ بولے