صدیاں — سائرہ اقبال

صدیاں بیتی تھیں یا لمحے کیا معلوم ؟ لمحوں کی خبر تو وہ رکھتے ہیں جن کے پاس کھونے کو بھی بہت ہو ، پانے کو بھی بہت ۔ آپا کے پاس کیا تھا ؟ ظاہری طور پہ توکچھ نہیں ۔ جب سے آنکھ کھولی ہے، آپا کو یہیں پایا ہے اِسی کھڑکی میں۔ بس جمعرات کو بچوں میں ٹافیاں تقسیم کرتے دیکھا اور پھر اِسی کھڑکی میں کھڑے۔ کبھی جی کیا تو پاس پڑی کُرسی پر بیٹھ گئیں ۔ اکثر اکیڈمی سے آ کر بی آپا کے پاس بیٹھنے کی کوشش، کبھی اماں بیٹھنے نہ دیتیں تو کبھی آپا ہی زیادہ بات نہ کرتیں۔ ایک دم حسبِ عادت آپا کے پاس گئی انہیں کھڑکی سے ہٹا کر پلنگ کی طرف لے گئی اور کہنے لگی:
”آپا۔۔! کیا ہر وقت وہاں کھڑی رہتی ہیں؟ یہاں بیٹھئے ۔ ”
”آپا اپنے مخصوص انداز میں کہتیں، ‘پرے ہٹو۔ تُم کیا جانو ان احساسات کو؟”
”آپا آپ کیوں مُجھے ابھی تک بچہ ہی سمجھتی ہیں؟ جب میں یہاں آئی تھی نا تب تھی چار برس کی۔ اب تو پُورے اٹھارہ برس کی ہوں بلکہ دیکھنے میں آپ جتنی ہی لگتی ہوں۔”
”میرے جیسی نہ بن جانا۔” آپا نے جلے کٹے لہجے میں کہا۔
”ضوفی ۔۔ ضوفی ۔۔’ ‘ اماں نے آواز دی۔
”لو جی آ گئی اماں کی آواز ۔” ضوفشاں نے کہا۔





”آبیٹا! پہنچتے ہی گُھس گئی بدروح کے پاس۔ روٹیاں ڈال لے، نعمان ، نوید اور وارث آنے والے ہوں گے۔ بس دس بارہ ہی ڈالنی ہیں۔”
حاجرہ اور سمیرا کو بھی بھوک لگ گئی ہو گی اور بہو بیگم کی بھی دو ڈال دیجئیو۔” اماں نے آواز لگائی۔
‘آئی اماں۔ ‘ ضوفشاں نے کہا۔
ضوفشاں کمرے سے باہر نکلی۔’ ‘بس دو منٹ میں ڈال دوں گی۔”
”ہاں میری شیر بیٹی۔” اماں نے کہا۔
”اماں بچوں کے لئے بھی ڈالنی ہیں روٹیاں؟” ضوفشاں نے باورچی خانے سے آواز لگائی۔
‘نہیں روٹیاں بنا کر ان کے لئے چاول اُبال لینا۔”
”حاجرہ کی بیٹی ٹھیک نہیں۔ پھر وہ کھائے گی تو نوید کے بچے بھی مانگیں گے ۔ بھئی میں تو برابری کرتی سب کے ساتھ تو سب بچوں کے لئے چاول ہی اُبال دو۔” اماں نے کچھ خود کلامی کی تو کچھ ضوفشاں کو اعلان کیا۔
”اچھا اماں۔’ ‘ ضوفشاں نے جواب دیا۔
نوید کھانا کھانے لگا تو بولا: ”بھئی سلاد آج پھر کسی نے نہیں کاٹا ۔ سلاد کے بغیر کہاں کھانا اندر جاتا ہے۔”
”چاول اُبالنے لگ گئی تھی بھائی۔ ابھی کاٹ دیتی ہوں۔” ضوفشاں نے کہا۔
”جیب میں ٹکا ایک نہیں اور نخرے دیکھو۔’ ‘ حاجرہ بڑبڑائی۔
”دو دو میرے میاں کو طعنے ، بے روزگار ہے ناں ۔ تبھی اپنی پسند کا اظہار بھی نہیں کر سکتا۔” صائمہ بھابھی نے نوالہ منہ میں ڈالتے ہوئے کہا۔
”سلاد کاٹ دو ضوفی ۔” اماں نے آواز دی۔
”ابھی لائی اماں۔” ضوفی نے جواباً کہا۔
”تو بھابھی اُٹھ کے کاٹ لے نا۔ یہاں کیوں ہر کوئی مُفت کی روٹیاں توڑنے میں لگا ہے۔” حاجرہ نے اپنی بیٹی کے منہ میں چاول ڈالتے ہوئے کہا۔
”اماں سلاد نہیں ہے۔” ضوفی نے باورچی خانے سے آواز دی۔
”یہی زبان ہے جس نے تُمہیں گھر بٹھایا ہے۔’ ‘ بھابھی نے نوالہ توڑتے ہوئے کہا۔
”جو بھی ہے ، جیسی بھی ہوں ، مُفت کا نہیں کھا رہی ۔ محنت کرتی ہوں اور خود کماتی ہوں ۔ کسی پہ بوجھ نہیں ہوں۔ تُم تو گھر بسا کے چار بچوں میاں سمیت سب پہ بوجھ ہو۔” حاجرہ نے نوالہ منہ میں ڈالتے ہوئے کہا۔
”ضوفشاں آئو تُم بھی کھائو ۔’ ‘ سمیرا نے آواز دیتے ہوئے کہا ۔
”میں بس آپا کو کھانا دے آئوں پھر کھاتی ہوں۔”
”اماں! نحوست کب تک کھڑکی کے سرہانے کھڑی رہے گی؟ مفت کی عادت پڑ گئی ہے ۔ اچھی بھلی نوکری کو لات مار دی۔” نوید نے کہا۔
”ہاں ہاں! کمائو بھائی جو نظر آ رہا تھا ۔ نیت کے کھوٹے لوگ۔” صائمہ بھابھی نے کہا ۔
جب بھی وہ نیت کے کھوٹے لوگ کہتی، نائلہ ان کی طرف حیرانی سے دیکھتی پھر بھابھی چِڑ کے کہتیں:
”اے ہے ۔۔ تو کیا گھور رہی ہے مجھے ۔ کام کر جو کر رہی ہے ۔ ”
اماں خاموشی سے سُنتی رہتیں۔ایک دِن حاجرہ نے طیش میں آ کر کہہ ہی دیا:
”اس وقت تو بڑا نئی نویلی دُلہن کے آنچل میں منہ چھپائے اماں اور بہنوں کو چھوڑ گئے تھے ۔ یہ وہی ہے جس کے آسرے پر چھوڑ گئے تھے۔”
بھابھی طیش میں آتی اور چلاتی:
”ہائے ہائے بد زبان ، اسی زبان نے تو گھر بٹھایا ہے تجھے۔۔ورنہ۔ آج تیرا بھی گھر بس رہا ہوتا۔”
”تُم نہ ان کے منہ لگو صائمہ ، یہ ہے ہی بد لحاظ ، بد تمیز ، نہ چھوٹے کی تمیز نہ بڑے کی ۔” نوید کہتا۔
اماں بین کرنے لگتیں۔
”میری تو قسمت ہی خراب ہے ۔گھر والا اچھا نکلا نہ اولاد ۔ جوانی میں ہی مجھے بیوہ کر کے اس کنواری رانی کے ساتھ نکل گیا۔”
سمیرا باتوں میں ہمیشہ ہی ایک نیا چٹکلا چھوڑتی۔
”اماں سُنا ہے ابا اس رانی کے ساتھ فیصل آباد میں ہیں آج کل۔ ابا کی کوئی اولاد نہیں رانی سے۔ یہ بھی سُننے میں آیا ہے کہ وہ کہتی ہے میری سوتن نے کالا جادو کرایا ہے۔”
”پچھلی بار تو نے بتایا تھا کہ ابا کی بیٹی جوان ہے اور بیٹا، یہ اپنے ٹنکو جیسا ہے ۔ آج کہہ رہی ہے رانی بانجھ ہے ۔” حاجرہ کہتی ۔
”یہ لو۔۔ کھاتی ماں کا ہے ، اوڑھتی پہنتی ماں کا ہے۔ اتنی فکر ہے ابا کی تو جائو، ساتھ ہی چلے جائو۔” اماں چلاتی رہ جاتیں۔
ضوفشاں کھانے کے برتن اُٹھاتی ، کچن سمیٹتی ۔ نوید ، وارث اور نعمان پھر سے آوارہ گردی کے لئے نکل جاتے ۔ بس ایک یہی کام تھا جو وہ دِل لگا کر اور پابندی سے کیا کرتے تھے ۔ ضوفی اپنے کام سے فارغ ہو کر آپا کے کمرے میں چلی جاتی مگر آپا بتیاں بُجھا کر سو جایا کرتی تھی ، وہ جانتی تھی کہ وہ سوتی نہیں ہے ۔ وہ تو بس آنکھیں موندتی ہے ، دِن میں وہی آنکھیں ڈھیروں خیال و خواب سجائے باہر جھانکتی تھیں مگر پھر بھی وہ آنکھیں خالی ہی ہوتی تھیں ۔ اور رات میں سارے خواب سارے خیال ایک گٹھری میں باندھ کر اپنے سرہانے رکھ لیتیں ۔ پھر وہ آنکھیں اتنی بھری ہوئی ہوتیں کہ خالی کرنے کو جگہ نہ ملتی تھی ۔آپا کاغذ قلم اُٹھائے ، دِل ہلکا کرنے لگتی۔
”زندگی کے پہلے دس برس چِک چِک بَک بَک میں گُزر گئے ۔ پندرہ برس کی ہوئی تو فکرِ معاش
لاحق ہو گیا بہت موذی بیماری ہے ۔ لاحق ہو جائے تو دم کے ساتھ ہی نکلتی ہے۔ اچھوت ہے،
کوئی آسرا دینے آتا ہے نہ بوجھ ہلکا کرنے ۔ نوکری ملی تو بھی جذبے والی ۔ بڑے ہسپتال میں
نرس لگ گئی ۔ اٹھارہ سے بیس برس تو خوب گزرے اور پھر ۔۔۔۔ ‘ ‘
ایک دِن چھُپ کر ، ابھی یہی تک پڑھا تھا کہ آپا آگئیں ۔ میں صفائی کرنے لگی ۔اس دِن کے بعد وہ ڈائری نظر نہ آئی ۔ رات کو اماں کو چائے دینے گئی تو سوچا آپا کے بارے میں پوچھوں ۔ ابھی کچھ پوچھنا چاہا ہی تھا کہ اماں نے تنخواہ کا حساب مانگ لیا ۔
”اماں اِس بار کالج کی فیس دینی پڑ گئی۔” اماں بگڑ اُٹھیں، ظاہری بات ہے گھر کا خرچ کم پڑ گیا تھا ۔ اماں نے حاجرہ سے پیسے مانگے تو حاجرہ کہنے لگی:
”میں یہاں کسی کے لئے نہیں کماتی۔ اپنے اور اپنے بچے کے لئے کماتی ہوں۔”
”ہاں ہاں مُجھے بے روزگاری کے طعنے دیا کرو۔ یہی نوید تھا جو سب کی جان ہوا کرتا تھا اور اب کوئی پوچھتا بھی نہیں۔ ہیں ہی سب پیسے کے پُجاری ۔” نوید بھائی تو جیسے بگڑ پڑے۔
”ہاں بہن کس کی ہے آخر حسد تو کرے گی ۔ بھلا میرامیاں کیوں کسی کا بُرا چاہے گا۔” پھر بھابھی کی دھماکے دار آواز آتی۔
بھابھی کا بھائی چہل قدمی کے بہانے باہر چلا جاتا ۔ وارث چھت پر کھڑا لڑکیاں تاکتا رہتا۔ نعمان ویسے تو گُونگا بہرا تھا مگر آنکھوں کے اشارے خوب جانتا تھا ۔ ہر گزرتی لڑکی کو دیکھ کر بالوں میں کنگھی کرتا اور مُسکراتا ۔ لڑکیاں کہتی گزرتیں:
”دیکھو جھلا ڈورا بھی ہے اور گونگا بھی پھر بھی حرکتوں سے باز نہیں آتا۔” وہ خوش ہوتا کہ لڑکیاں دیکھ رہی ہیں۔




Loading

Read Previous

نیلی آنکھوں والی — عائشہ احمد

Read Next

تھکن — سمیرا غزل

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!