آزادی کی نعمت عظمیٰ رحمان ہاشمی آزادی کا جشن مناتے رہنا ہے گیت سدا خوشیوں کے گاتے رہنا ہے لاکھوں جانیں دے کر جس کو پایا تھا اس گلشن کو خوب سجاتے رہنا ہے اس
بلّی اور پرندہ عبدالمجید سالک سنا ہے کسی گھر میں تھی ایک بلّی وہ چوہوں کو کھا کھا کے تنگ آگئی تھی اسے صبح شام ایک کھانا نہ بھاتا بھلا صبر اک چیز پر کیوں
”آپ مجھے دے دیں کتاب… میں ریٹرن کروادوں گی جب اسٹاف میں سے کوئی آئے گا۔” شیر دل نے چونک کر اسے دیکھا۔ وہ بڑے شستہ انداز میں اسے آفر رکررہی تھی، ایک غیر متوقع
نیند میں وہ ہڑبڑا کر کسی کی چیخوں اور رونے کی آواز سے اٹھا تھا۔ چند سیکنڈز میں اس نے وہ آواز پہچانی تھی۔ وہ چڑیا کی آواز تھی۔ ایبک نیم خوابیدگی کے عالم میں
اسے بہت اچھی طرح دروازے بند کرنا یاد تھا کیونکہ وہ رات کو کسی ٹور سے بہت لیٹ واپس آیا تھا۔ اس کی آمد پر شہر بانو نے اندرونی دروازہ کھولا تھا۔ شیر دل اگر