”میں وہ پروفیشن چھوڑ چکی ہوں۔” ”لیکن میں چاہتا ہوں کہ اب تم میرے لیے وہی کرو جو تم پہلے اپنے لیے کرتی تھیں۔ اگر تمہاری وجہ سے مجھے کچھ فائدہ پہنچ جائے تو اس
”نہیں! پہلے تم پرامس کرو۔” اس نے اصرار کیا۔ ”ٹھیک ہے میں پرامس کرتی ہوں میں ناراض نہیں ہوں گی۔” ”ویری گڈ!” عمر نے کلائی پر باندھی ہوئی گھڑی پر نظر دوڑاتے ہوئے کہا۔ ”وہ
برسات اسماعیل میرٹھی وہ دیکھو اُٹھی کالی کالی گھٹا ہے چاروں طرف چھانے والی گھٹا گھٹا کے جو آنے کی آہٹ ہُوئی ہوا میں بھی اِک سنسناہٹ ہُوئی گھٹا آن مِینہہ جو برسا گئی تو
”کیوں؟” ”یہ اچھی بات نہیں ہے، اس طرح آپ لوگوں کے ساتھ جانا۔” ”سو واٹ!” اس نے خاصی لاپروائی سے کہا۔ ”خیر ٹھیک ہے۔ تم نہیں جانا چاہتی تومیں مجبور نہیں کروں گا۔یہ بتاؤ تمہارے
”علیزہ ! میں یہاں سے ناراض ہو کر نہیں گیا۔ اپنی خوشی سے گیا ہوں اور اکثر آتا جاتا رہوں گا۔” اس نے نرمی سے کہا۔ ”پلیز آپ واپس آجائیں……جب تک آپ واپس نہیں آئیں
”تھینک یو!” کچھ دیر کے بعد اس نے کہاتھا۔ ”ویلکم!” اس نے اسی پر سکون انداز میں کہا تھا۔ ائیر پورٹ پر گاڑی پارک کرنے کے بعد اس نے علیزہ کا بیگ اٹھا لیاتھا۔ علیزہ
علیزہ اس کے سوال سے زیادہ مسکراہٹ سے گڑ بڑائی تھی۔ ”ایسے سوال کی کیا تک بنتی ہے؟” اس نے عمر جہانگیر کے چہرے سے نظر ہٹاتے ہوئے کچھ جھینپ کر کہا تھا۔ ”مجھے کیا