امربیل — قسط نمبر ۱۰

اس سے ہونے والی اس لمبی چوڑی گفتگو کے چوتھے دن عمر امریکہ چلا گیا۔ علیزہ نے اس بار پہلی دفعہ اس کے جانے کو سنجیدگی سے لیا تھا۔
وہ اس کی باتوں پر عمل کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ وہ اپنی زندگی کو نارمل کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ نانا اور نانو نے اس سے پچھلے کچھ ہفتوں میں ہونے والے واقعات کے بارے میں کوئی بات نہیں کی ان کے لئے شاید اتنا ہی کافی تھا کہ وہ دوبارہ کالج جانے لگی ہے، اس کی خود ساختہ قید تنہائی ختم ہوگئی تھی اور شہلا ایک بار پھر سے اس کی زندگی کا حصہ بن گئی تھی۔ اس کے ٹیسٹ پہلے کی طرح اچھے ہونے لگے تھے۔ مگر اس کی پہلی والی سنجیدگی اور کم گوئی ابھی بھی برقرار تھی۔
عمر نے واپس جانے کے ایک ہفتے بعد انہیں فون کیا تھا۔ نانو سے بات کرنے کے بعد اس نے علیزہ سے بھی بات کی۔ علیزہ کو وہ پہلے سے زیادہ پر جوش اور خوش لگا تھا۔
”یار! میں تمہیں بہت مس کر رہا ہوں۔” اس نے ہمیشہ والی بے تکلفی کے ساتھ علیزہ کی آواز سنتے ہی کہا۔
علیزہ اس کی بات پر بچوں کی طرح خوش ہوئی۔ ”میں بھی آپ کو بہت مس کر رہی ہوں۔” اس نے جواباً کہا۔
”یہ تو بڑی حیران کن بات ہے کہ علیزہ سکندر جیسی ہستی ہمیں مس کر رہی ہیں واپس آجاؤں؟” اس کی آواز میں شوخی تھی۔




”آجائیں۔” علیزہ اس کے انداز سے محظوظ ہوئی۔
”آجاؤں گا مگر ابھی نہیں۔ ابھی میں اسپین جا رہا ہوں۔”
”کیوں؟”
”بس ویسے ہی سیرو غیرہ کے لئے، کچھ دوستوں کے ساتھ جا رہا ہوں۔” اس نے اطلاع دی۔
”واپس کب آئیں گے؟”
”پاکستان یا امریکہ؟” عمر نے پوچھا۔
”پاکستان۔” ”چند ماہ تک۔”
”آپ نے کہا تھا۔ میں سیشنز کروانا شروع کردوں تو آپ جلدی آجائیں گے۔” علیزہ نے اسے یاد دلایا۔
”ہاں مجھے یاد ہے، تم باقاعدگی سے سیشنز کے لئے جا رہی ہو؟”
”ہاں پھر آپ کب آئیں گے؟” علیزہ نے ایک بار پھر بے تابی سے پوچھا۔
”پتا نہیں۔ دراصل مجھے کچھ کام بھی ہے لیکن پھر بھی میں وعدہ کرتا ہوں، جلدی آجاؤں گا۔” عمر نے اسے مطمئن کرنے کی کوشش کی۔ وہ مطمئن ہوئی یا نہیں مگر اس نے عمر سے مزید اصرار نہیں کیا۔ اسے یقین تھا وہ جلدی واپس آجائے گا۔
***
اسے میگزین جوائن کئے تین ماہ ہو گئے تھے، اور یہ تین ماہ اس کے لئے بہت اچھے ثابت نہیں ہوئے تھے۔ وہ جرنلزم کے بارے میں جو خواب لے کر اس میگزین میں گئی تھی۔ وہ پہلے ہفتے ہی ختم ہو گئے جب اسے کچھ غیر ملکی میگزین یہ کہہ کر دیئے گئے کہ اسے ان میں سے شوبزنس کی خبریں منتخب کرنی ہیں۔ وہ کچھ ہکا بکا ہو کر سارا دن وہ میگزینز دیکھتی رہی۔ شہلا اس دن آفس نہیں آئی۔ علیزہ نے گھر واپس جاتے ہی اسے فون کیا۔
”کیا ہوا بھئی؟ اتنی پریشان کیوں لگ رہی ہو؟” شہلا نے اس کی آواز سے فوراً اندازہ لگایا کہ وہ کسی وجہ سے پریشان ہے۔ علیزہ نے اسے ساری تفصیل بتا دی۔
”تو پھر؟ ”شہلا نے اس کی ساری باتیں سننے کے بعد بڑے اطمینان سے پوچھا۔
”تو پھر کیا مطلب ہے تمہارا؟”
”میرا مطلب ہے کہ تم کیوں پریشان ہو اس سب سے؟”
”میں پریشان کیوں ہوں؟” میں اس لئے پریشان ہوں کیونکہ یہ وہ کام تو نہیں ہے جس کے لئے میں وہاں گئی ہوں۔” علیزہ اس کی بات پر حیران ہوتے ہوئے بولی۔
”آپ کس لئے گئی ہیں وہاں؟”
”کوئی تخلیقی اور چیلنجنگ کام کرنے، غیر ملکی میگزینز سے خبریں چننے نہیں گئی۔ ہم کیا کریں گے وہاں باہر کی خبریں غیر ملکی ماڈلز کے فیشن شوٹس کی کاپی کرتے ہیں بس فرق یہ ہوتا ہے کہ ماڈل اپنی ہوتی ہے اور فوٹو گرافر بھی۔ میک اپ اور ہیر اسٹائل تک ان ہی جیسا ہوتا ہے یہ کیا چیز ہے جو ہم اپنے لوگوں کو دے رہے ہیں، تفریح۔” وہ واقعی اکتائی ہوئی تھی۔
”ابھی تو جانا شروع کیا ہے وہاں۔ اتنی جلدی کوئی نتیجہ اخذ نہیں کرنا چاہئے۔ ابھی تو ہمیں جرنلزم کی الف ب کا بھی پتا نہیں ہے۔ تھوڑا عرصہ وہاں کام کریں گے تو کچھ پتا چلے گا۔ کچھ تجربہ ہو گا تو ہم لوگ ٹرینڈز بدل بھی سکتے ہیں۔” شہلا نے اسے مطمئن کرنے کی کوشش کی۔
”ہم ٹرینڈ بدل سکتے ہیں؟ کیا ٹرینڈ بدل سکتے ہیں؟ غیر ملکی میگزینز میں سے چوری کی جانے والی خبریں اور آرٹیکلز روک سکتے ہیں۔ یا اپنے فوٹو گرافر کو اوریجنل شوٹ کے لئے مجبورکر سکتے ہیں۔” وہ اب بھی اتنی ہی مایوس تھی۔
”تم جاب چھوڑنا چاہتی ہو؟” شہلا نے مزید کچھ کہے بغیر اس سے براہ راست پوچھا۔
”پتا نہیں میں کنفیوزڈ ہوں۔”
”کنفیوز کیوں ہو، اگر یہ سب تمہیں پسند نہیں ہے تو جاب چھوڑ دو کچھ اور کر لو۔” شہلا نے اسے کھٹ سے مشورہ دیا۔
”اور کیا کروں؟”




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۸

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۹

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!