فوبیا — فاطمہ عبدالخالق

ایف ایم پر ایس کے کا پروگرام شروع ہونے میں ابھی پانچ منٹ باقی تھے جب وہ سارے کام ادھورے چھوڑ کر کانوں میں ہینڈ فری گھسائے اپنے کمرے میں آگئی۔ یہ تین سال سے اس کا معمول تھا اور حیران کن بات یہ کہ تین سال قبل ایس کے کا بھی وہ پہلا شو تھا۔ شائستہ رانا نے بھی اچانک ہی ریڈیو آن کیا اور پھر ایس کے کی آواز کے سحر میں جو ڈوبی تو تین سال گزر جانے کے باوجود اسی سحر میں غوطہ زن، اپنے بچائو کے لیے ہاتھ پائوں مار رہی تھی۔ اس نے بہت کوشش کی، لیکن ایس کے کا کوئی فیس بک پیج تھا اور نہ ہی کوئی تصویر ۔ وہ آج تک ایس کے کا مکمل نام تک معلوم نہیں کرپائی تھی۔ شاید وہ بہت محتاط قسم کا آر جے تھا جسے شہرت کی کوئی پروا نہیں تھی، جسے صرف شوق تھا ریڈیو پہ آنے کا۔ صرف شائستہ رانا ہی نہیں، نہ جانے اور کتنی لڑکیاں تھیں جو اس کے شو کی دیوانی ہوں گی جو اس کے خوب صورت لب و لہجے پر مرتی ہوں گی، لیکن کیا کسی کی محبت شائستہ رانا جیسی بھی ہو سکتی تھی جو تین سال سے من میں اک شبیہ سجائے صحرائے عشق میں صدائیں لگا رہی تھی۔ دل کے نہاں خانوں میں چھپی محبت کو ظاہر کرنے سے ڈرنے والی شائستہ رانا کا پور پور محبت کے زہر سے نیلاہٹ تھا۔ اس کی بنجر آنکھیں جنہیں وہ کاجل سے چھپانے کی ناکام کوشش کرتی تھی، چیخ چیخ کر اس کے عشق کا حال بیان کرتیں۔اس کے روگ کا علاج اس کے پاس نہیں تھا۔ وہ چاہتی بھی تو کچھ نہیں کر سکتی تھی۔کیوں کہ وہ ایک فرماں بردار بیٹی تھی اور ایسی بیٹیاں مر تو جاتی ہیں، لیکن محبت کر بھی لیں تو بھی اپنے وجود کو اس سے انجان ہی ظاہر کرتی ہیں۔




شائستہ رانا نے بھی یہی کیا تھا۔ اس نے محبت نامی بلا کا گلا گھونٹتے ہوئے والدین کی رضا کے سامنے سر جھکا دیا تھا۔ بہت سی چیخیں تھیں جو من میں دب گئیں۔ بہت سے الفاظ تھے جو سر اُٹھاتے ہوئے دم توڑ گئے، لیکن شائستہ رانا کی ذات کے پرخچے نہیں اُڑے۔ اس نے اپنے اندر مچلتی اضطراب کی لہریں بھی پرشور ہی چھوڑ دیں۔ اپنے کان بند کر لیے اور یوں ایک دن خاصی دھوم دھام سے اس کی شادی تایازاد شرجیل سے ہو گئی۔ سوگوار اور ماتم کرتا من بہل ہی نہیں رہا تھا۔ اگر ایک من پسند کھلونا چھین کر مہنگے سے مہنگے اور خوب صورت سے خوب صورت کھلونے بھی قدموں میں ڈھیر کر دیے جائیں تو اچاٹ دل کو کوئی نہیں بہلا سکتا۔ یہی حال شائستہ رانا کا تھا۔
وہ بھی چاہنے کے باوجود اپنا وجود شرجیل کے ساتھ نہیں جوڑ پائی تھی۔ شرجیل کواس کا یہ رویہ بارہا محسوس ہوا اور اس نے شکایت بھی کی، لیکن ازالہ ممکن نہ ہو سکا۔ شائستہ رانا اپنے خول سے باہر نکلنا ہی نہیں چاہتی تھی تو پھر شرجیل کیا کر سکتا تھا۔ شرجیل کو محسوس ہوتا کہ شاید وہ کسی پتھر کے ساتھ سر پھوڑ رہا ہے کیوں کہ زندگی خوشیوں کی بہ جائے اُداسیاں، غم اور پریشانیاں خرید لائی تھی۔ وہ بھی خودساختہ اداسیاں جنہیں انسان کوئی نام نہ دے پائے اور چاہتے ہوئے بھی تو ان سے پیچھا نہ چھڑا پائے۔ شائستہ رانا اور شرجیل کے درمیان بھی رفتہ رفتہ خلیج بڑھتی گئی اور فریقین نے اسے ختم کرنے کے بجائے اپنے اپنے خول میں بند رہنا ہی مناسب سمجھا، لیکن خول بھی کب تک بند رہ سکتا ہے؟ ایک نہ ایک دن تو اسے چٹخنا ہی ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک دن شرجیل بھی پھٹ پڑا اور چپکے سے اسے میکے چھوڑ گیا کیوں کہ شائستہ رانا کی خودساختہ بیماری کا اس کے پاس کوئی علاج نہیں تھا۔
شائستہ کا مرض تھا کہ روز بہ روز بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ دراصل اسے محبت نہیں تھی۔اسے عشق بھی نہیں تھا بس فوبیا تھا۔ اسے بس ایک شخص کی طلب تھی اور وہ اس کے بارے میں جانناچاہتی تھی، لیکن وہ ان سب بے چینیوں اور پلتے ہوئے اضطراب اور تجسس کو محبت کا نام دیے نہ جانے کیوں خود کو جلا رہی تھی۔ شاید وہ بھی اسّی فیصد لڑکیوں کی طرح لاعلم تھی کہ محبت ایک الگ قصہ ہے اور محبت کا فوبیا الگ داستان ہے۔ شائستہ کا اضطراب گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا جارہا تھا۔ ایک طرف اسے اپنے شوہر شرجیل کی یاد ستا رہی تھی تو دوسری جانب وہ ایس کے کے شو کی بے صبری سے منتظر تھی جو کہ آج نہ جانے کہاں گم تھا؟ اتنے سالوں کے معمول میں پہلے تو ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ اس کا شو ہو اور وہ نہ آئے یا لیٹ آئے؟ ایک جانب اضطراب تھا جو بڑھتا جا رہا تھا تو دوسری طرف بجتا فون اس کی دھڑکنیں بڑھا رہا تھا۔ اسکرین پر شرجیل کا نمبر روشن تھا۔ نہ جانے وہ کیوں فون کر رہا تھا؟ گزشتہ دو سالوں میں آمنے سامنے ہی ان کی بہت کم بات چیت ہوئی کجا فون پر بات؟ آج نہ جانے کیا؟ کیوں تھا؟ اس نے کال کاٹ کر فون سوئچ آف کر دیا۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ اس کے ایس کے کے خیالات میں کوئی خلل پیدا کرے؟ وہ شرجیل سے بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔ وہ آر جے ایس کے کو سوچنا چاہتی تھی، لیکن نہ جانے کیوں من شرجیل کی جانب دوڑ رہا تھا۔ آر جے کہیں پسِ منظر میں جا رہا تھا۔ لاشعوری طور پر ہی اس کی سوچ کی طنابیں شرجیل کی یادوں کے گھوڑے دوڑا رہی تھیں۔ شاید اس کا فوبیا خاتمے کی جانب رواں دواں تھا یا کوئی انہونی؟ لیکن یہ تو طے تھا کہ اس کا من شرجیل کو پکار رہا تھا۔ وہ منزل کو سوچنا چاہتی تھی، لیکن شرجیل سامنے آ رہا تھا۔
گزرے سالوں میں صرف ایک دن اس نے آر جے کو سوچنا چھوڑ کر کسی اور کے بارے میں سوچنا شروع کیا تھا اور اس پر سوچ کے نئے در وا ہوئے تھے کہ وہ غلط منزل پر تھی۔ اس نے غلط سوچا تھا اور اسی سوچ نے اسے غلط راستے پر گامزن کیا تھا، لیکن آج اسے اپنی غلطی کا احساس ہورہا تھا۔ اس نے آج اپنی ذات کا راز پا لیا تھا۔ وہ جان گئی تھی کہ یہ فوبیا کشش اور طلب کا دوسرا نام ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ محبت تو درحقیقت وہ ہے جو اسے اپنے شوہر شرجیل سے ہے جس سے الگ رہ کر وہ نا چاہتے ہوئے بھی لاشعوری طور پر اسے ہی سوچ رہی تھی۔ اسے خوشی ہوئی۔ وہ جان گئی تھی کہ وہ کھونے سے قبل ہی نواز دی گئی تھی۔
اس نے خوشی خوشی اپنا ہاتھ موبائل فون کی جانب بڑھایا اور مسکراتے ہوئے اسے آن کیا۔ وہ کانپتے ہاتھوں سے شرجیل کو میسج ٹائپ کرنے لگی۔ میسج بھیجتے لبوں پر شرمیلی سی مسکان سجائے وہ خیالوں کی خوب صورت وادی میںکھوئی ہوئی تھی جب اچانک موبائل گنگنانے لگا۔ اسکرین پر شرجیل کا نمبر جگمگا رہا تھا۔ اس نے بے ساختہ کال اٹینڈ کرتے ہوئے فون کان سے لگایا اور اس آواز کے تحیر میں کھو گئی۔ یہ آواز وہ کیسے بھول سکتی تھی؟ یہ اس کا فوبیا ہی تو تھا۔ شرجیل عرف آر جے ایس کے، اس کا اپنا شوہر جس کی قربت میں رہ کر وہ اس کو سوچتی رہی۔ آہ! اس نے اپنی زندگی کے دو سنہری سال ایک بے نام فوبیا کے سپرد کر دیے تھے، لیکن وہ تو انسان تھی، اشرف المخلوقات تھی۔ اسے اختیار تھا کہ جسے چاہے اپنائے اور جسے چاہے رد کردے؟ پھر اس کے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟ اس نے اتنی سی بات جاننے میں سال کیوں گزار دیے؟ وہ چپ تھی۔ اس کے ہونٹ جامداور ذہن خالی ہو چکا تھا۔ کچھ دیر پہلے کی خوشی بھاپ بن کر اُڑ چکی تھی۔ اس کے احساسات اس کا ساتھ چھوڑ چکے تھے جب کہ دوسری جانب شرجیل اسے اپنی چاہت کے دل فریب قصے سنا رہا تھا۔ وہ اپنی اسی سحرزدہ آواز میں کہہ رہا تھا کہ وہ اس سے محبت کرتا ہے اور چاہ کر بھی اس کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ وہ تیار ہو جائے وہ اسے لینے آ رہا ہے۔ شرجیل تو شاید کچھ اور بھی کہہ رہا تھا، لیکن شائستہ کب کچھ اور سن رہی تھی۔ وہ تو ہوائوں میں اُڑ رہی تھی۔
انسان کتنا عجیب ہے نا۔ خود شبیہ بنا کر اسے پوجنے لگتا ہے۔ اس کی آواز پر لبیک کہنے لگتا ہے اور پھر یہی شبیہ اپنا راز فاش کرتی ہے تو انسان ریزہ ریزہ وجود کو گھسیٹتے ہوئے تھکنے لگتا ہے۔ کاش! انسان جان لے کہ محبت آوازوں، حسین چہروں یا جسموں سے نہیں بلکہ محبت ایک آفاقی جذبہ ہے جو دل سے نکلتا ہے اور دلوں میں اترتا ہے۔ شائستہ رانا اپنا ریزہ ریزہ وجود لیے صحرا میں بھٹک رہی تھی۔ جب شرجیل آ کر اس کے قدموں میں بیٹھا، تو اسے اس کی آنکھوں میں اپنی منزل نظر آئی۔ اس نے وجود کی کرچیاں سمیٹتے ہوئے محبت کا استقبال کیا تھا کیوں کہ محرم رشتوں میں سانس لینے والے محبت کے پودوں کو اللہ مرجھانے نہیں دیتا۔
*****




Loading

Read Previous

صبر بے ثمر — سحرش مصطفیٰ

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!