”میری اماں کہاں ہیں بابا؟” میں نے سکتے کے عالم میں پوچھا۔ بابا میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے گھر سے باہر لے گئے۔ میری ماں مٹی اوڑھے سکون سے سو رہی تھی۔ ”آٹھ ماہ ہو
وہ شیشے کے سامنے کھڑی اپنے گھنگھریالے بالوں میں بے مقصدکنگھا پھیرتے ہوئے بنا پلک جھپکے خود کو شیشے کی آنکھ سے دیکھ رہی تھی۔ وہ شاید اب بھی ان فلٹرز کے انتظار میں تھی
”تم ملنا چاہو گی اس کے گھر والوں سے؟” ”نہیں۔” علیزہ گڑبڑا گئی۔ ”میں کیوں ملنا چاہوں گی۔” ”اچھے لوگ ہیں۔” ”ہاں جنید سے مل کر اس کا اندازہ ہوتا ہے، مگر مجھے جنید کو
”تم کتے کی وہ دم ہو جو ہمیشہ ٹیڑھی رہتی ہے… یہاں تمہارے پاس میں کوئی منت سماجت کرنے نہیں آیا… تمہارے جیسے معمولی جونیئر افسر کی اوقات کیا ہے میرے سامنے… تمہارا دل چاہے
”میں صبح تمہیں ایک بھجوا دوں گا۔” ”نہیں’ میں خرید لوں گی۔” ”میں نے کہانا بھجوا دوں گا۔ رزلٹ کب تک آرہا ہے… یا آچکا ہے؟” ”ابھی نہیں آیا’ چند ہفتوں تک آجائے گا۔” ”پتا
”ہیلو ایاز ! کیسے ہو تم؟” نانو نے آواز پہچانتے ہی کہا تھا۔ ایاز حیدر ان کا سب سے بڑا بیٹا تھا۔ ”میں بالکل ٹھیک ہوں ممی، آپ کیسی ہیں؟” ”میں بھی ٹھیک ہوں… تم
”دونوں کی طرف۔” اس کی آواز مدھم تھی عمر مسکرایا۔ ”تم بھی اس کلاس کا حصہ ہو، بیورو کریٹ نہ سہی ایلیٹ تو ہو۔” ”ہاں حصہ ہوں مگر اچھی چیز کو اچھا کہوں گی۔ برا