”آپ اندر جا سکتے ہیں۔” سیکرٹری نے اسامہ کو منصور علی کے دفتر میں جانے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ وہ اٹھ کر دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ منصور علی نے چند گھنٹے پہلے فون
”ہاں، یہ مجھے پوچھنے کی ضرورت ہے۔ بہت ساری باتیں خود سے پتا نہیں چلتیں۔ جب کسی دوسرے سے پتا نہ چلے کچھ بھی کنفرم نہیں ہوتا۔” ”ہم دونوں میاں بیوی ہیں۔” وہ ایک بار
ہر گزرتے دن کے ساتھ رخشی کے لیے یہ ستائش بڑھتی جارہی تھی۔ اس دن وہ طلحہ کے ساتھ ایک ہوٹل میں کھانا کھانے کے لیے گئی ہوئی تھی اور وہاں بھی کالج کے ڈرامہ
”آج رات کو تمہارا نکاح ہے ارمغان کے ساتھ، تھوڑی دیر تک بیوٹیشن آجائے گی تمہیں تیار کرنے کے لیے۔” امی نے روکھے سے انداز میں مجھے اطلاع دی تو میں حیرت سے انہیں دیکھ
”کافی پیتی ہیں آپ؟” باقر شیرازی بڑے پرسکون انداز میں کہہ رہا تھا۔ ”کون سی کافی پیتی ہیں؟… کولڈ کافی؟… انسٹنٹ؟” شائستہ نے یک دم آنکھیں کھول دیں۔ ساتھ بیٹھے ہوئے شخص سے اسے پہلی