تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۷

وہ دونوں آواری میں بیٹھے ہوئے تھے، رخشی سلور گرے سلک کی ساڑھی باندھے ہوئے تھی، اس کے کھلے بال جسم کی حرکت کے ساتھ اس کے سیلو لیس بلاؤز سے نظر آنے والے بازوؤں پر گرتے تو وہ کبھی ہاتھ کبھی سر اور گردن کے جھٹکے سے انہیں پیچھے پھینک دیتی۔
منصور علی اس پر سے نظریں نہیں ہٹا پارہے تھے۔ وہ دونوں سارا دن آفس میں ساتھ ہوتے تھے۔ منصور علی سارا دن اسے دیکھتے رہتے، اس سے باتیں کرتے رہتے، اس کے باوجود وہ جب بھی رات کو اس کے ساتھ ڈنر کے لیے کہیں جاتے، رخشی انہیں اسی طرح مسمرائز کر دیا کرتی تھی۔
منصور علی کے لیے ہر بار اسے بنا سنورا دیکھ کر یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا تھا کہ وہ کل زیادہ اچھی لگ رہی تھی یا آج… وہ ہر بار پہلے سے زیادہ پُرکشش اور حسین لگتی تھی اور منصور علی خود کو ہر بار پہلے سے زیادہ مجبور او ربے بس پاتے تھے۔ انہیں یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتا تھا کہ رخشی دنیا کی سب سے حسین لڑکی ہے۔
”آپ کہہ رہے تھے کہ آپ کو مجھ سے کوئی خاص بات کرنی ہے۔” رخشی نے اپنے بالوں کو ہاتھ سے پیچھے کرتے ہوئے منصور علی کو یاد دلایا۔
وہ دونوں ابھی کچھ دیر پہلے ہی وہاں آکر بیٹھے تھے اور منصور علی نے دوپہر میں ڈنر کا پروگرام طے کرتے ہوئے کہا تھا۔
”آج مجھے تم سے ایک خاص بات کرنی ہے۔”
رخشی تب ان کے آفس میں بیٹھی تھی۔ اس نے منصور علی کے چہرے کو غور سے دیکھا اور مسکرا دی۔
”ایسی بھی کیا خاص بات ہے؟”
”ہے کوئی خاص بات… میں چاہتا ہوں، تم آج بہت اچھی طرح تیار ہو، میرے ساتھ ڈنر پر باہر جانے کے لیے۔”
رخشی ان کی بات پر کھکھلا کر ہنس پڑی۔” میں آپ کے ساتھ جانے کے لیے ہر بار ہی خاص طور پر تیار ہوتی ہوں۔ میرے لیے آپ کے ساتھ ڈنر پر جانا کوئی عام واقعہ نہیں ہوتا۔”




”میں چاہتا ہوں آج تم ساڑھی پہنو… تم پر ساڑھی بہت اچھی لگتی ہے۔” منصور علی نے ایک اور فرمائش کی۔
”مجھے بھی ساڑھی بہت اچھی لگتی ہے۔ مگر وہ خاص بات کیا ہے آپ یہاں نہیں بتا سکتے۔ مجھے تو بہت تجسس ہو رہا ہے۔” رخشی نے بڑے انداز سے کہا۔
”نہیں، وہ خاص بات میں یہاں نہیں بتا سکتا۔ یہ جگہ ایسی باتوں کے لیے مناسب نہیں ہے۔” منصور نے بھی اسی انداز میں کہا۔
”تو ٹھیک ہے پھر ڈنر کا انتظار کرنا پڑے گا۔”
اور اب وہ منصور علی کو وہ گفتگو یاد دلا رہی تھی۔
”دراصل میں تم سے بات کرنے کے لیے مناسب الفاظ تلاش کر رہا ہوں، میں بہت دنوں سے تم سے ایک بات کہنا چاہتا تھا مگر ہر بار میری ہمت جواب دے جاتی تھی۔ آج بہر حال میں نے یہ طے کر لیا کہ جو بھی ہو مجھے آج تم سے یہ بات کہہ دینا ہے۔” منصور علی بڑی سنجیدگی کے ساتھ گفتگو کر رہے تھے، جب کہ رخشی بے نیازی سے مشروب پینے میں مصروف تھی۔
”رخشی میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔”
منصور علی کا خیال تھا کہ رخشی یک دم حیران ہو جائے گی۔ نروس ہو گی، کہے گی میں ایسی بات کی توقع ہی نہیں کر رہی تھی۔ بے یقینی سے انہیں دیکھے گی… لیکن ان کی کوئی توقع پوری نہیں ہوئی۔ رخشی کے چہرے پر حیرت آئی نہ بے یقینی… شاک نظر آیا نہ اس کا رنگ بدلا… نہ اس کے ہونٹ کپکپائے۔
اس نے ان کی بات ان کے چہرے پر نظریں جما کر سنی اور پھر ٹیبل سے مشروب کا گلاس دوبارہ اٹھاتے ہوئے بڑے اطمینان سے کہا۔ ”کیوں…؟”
منصور علی اس سوال کی توقع نہیں کر رہے تھے اور شاید اس ردِّ عمل کی بھی۔
”کیوں…؟ کے بارے میں تو میں کچھ نہیں بتا سکتا۔ صرف یہ جانتا ہوں کہ مجھے تم سے محبت ہے اور میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔” منصور علی نے کہا۔ رخشی نے مشروب کا ایک اور گھونٹ لیا اور پھر کچھ سوچتے ہوئے گلاس کو نیچے رکھ دیا۔
”میں جانتی ہوں آپ کومجھ سے محبت ہے اور یقینا آپ کو بھی پتا ہو گا کہ مجھے بھی آپ سے محبت ہے۔ مگر شادی…” وہ رک گئی۔
”تم نے بات ادھوری کیوں چھوڑ دی؟”
منصور علی کچھ بے چین ہوئے۔
”میں نے آپ کے ساتھ شادی کے بارے میں کبھی نہیں سوچا۔” رخشی نے بے حد سنجیدگی سے کہا۔
”کیوں؟” منصور علی کو جسے شاک لگا۔
”کیونکہ میں نہیں چاہتی کہ میری وجہ سے آپ کو کسی تکلیف کا سامنا کرنا پڑے۔”
”کیسی تکلیف؟”
”آپ کے گھر والے؟” رخشی نے ایک بار پھر بات ادھوری چھوڑ دی۔
”رخشی! میرے گھر والے میرا مسئلہ ہیں۔ تمہیں ان سے کسی قسم کا خدشہ نہیں ہونا چاہیے۔” منصور علی نے فوراً کہا۔
”مجھے ان سے اپنے بارے میں کوئی خدشہ نہیں ہے، میں آپ کے بارے میں پریشان ہوں میں نہیں چاہتی آپ کسی پریشانی کا شکار ہوں۔”
”تم فکرمند مت ہو، میں اس صورتِ حال کو ہینڈل کر لوں گا۔ میں اس سارے معاملے پر غور کر چکا ہوں اور پھر فوری طور پر تو اس شادی کے بارے میں میرے اور تمہارے علاوہ کسی اور کو پتا نہیں چلے گا۔ تم اسی طرح آفس آتی رہو گی۔” منصور علی نے کہا۔
”میں خفیہ شادی پر یقین نہیں رکھتی۔” رخشی نے بہت سنجیدگی سے کہا۔ ”نہ ہی میرے گھر والے مجھے ایسی کوئی شادی کرنے دیں گے۔” منصور علی کی جان جیسے حلق میں اٹک گئی۔ رخشی نے اپنی بات جاری رکھی۔
”پھر شادی سے کیا فرق پڑتا ہے۔ مجھے آپ سے محبت ہے اور میں آپ کے ساتھ شادی کے بغیر بھی بہت اچھی زندگی گزار رہی ہوں۔ پھر ضروری تو نہیں کہ اس تعلق کو کسی رشتے کا نام دیا جائے۔ میں جانتی ہوں کہ آپ سے محبت کرکے میں نے ایک غلطی کی ہے اور شاید اس سے بھی بڑی غلطی یہ زندگی، جو آپ کے ساتھ گزاری ہے مگر میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہے۔” رخشی کے چہرے پر اب اداسی نظر آرہی تھی۔ منصور علی کی بے چینی میں اضافہ ہونے لگا۔
”میں بہت پہلے ہی یہ بات اچھی طرح جانتی تھی کہ آپ مجھ سے شادی نہیں کر سکیں گے۔ اعلانیہ شادی… اور میں نے اس حقیقت کے ساتھ بھی کمپرومائز کر لیا تھا۔ ہم دونوں اس طرح بھی اچھی زندگی گزار سکتے ہیں، کم از کم اس وقت تک، جب تک میرے گھر والے میری شادی کہیں اور نہیں کر دیتے۔” منصور علی بے یقینی سے اسے دیکھنے لگے۔
‘تم… تم… کسی دوسرے سے شادی کس طرح کر لو گی۔ میرے ساتھ اس طرح کی زندگی گزارتے رہنے کے بعد۔” منصور علی کہے بغیر نہیں رہ سکے۔
”آپ بھی تو ایک کامیاب شادی شدہ زندگی گزار رہے ہیں اس سب کے باوجود…” منصور علی جواباً کچھ نہیں بول سکے، کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد انہوں نے کہا۔
”میری شادی شدہ زندگی کامیاب نہیں ہے۔ تم اچھی طرح جانتی ہو…”
”کامیاب ہو یا نہ ہو، شادی شدہ زندگی تو ہے نا… آپ کا ایک گھر ہے… بچے ہیں… مستقبل ہے… آپ ہر طرح سے محفوظ ہیں، حالانکہ آپ ایک مرد ہیں۔ میں تو پھر ایک لڑکی ہوں۔ جسے ہر قدم پر تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے۔ میری بھی خواہش ہے کہ میرا ایک گھر ہو… بچے ہوں… شوہر ہو… میرا مستقبل محفوظ ہو…”
”مگر تم مجھ سے محبت کرتی ہو۔”
”اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ہو سکتا ہے میں شادی کے بعد بھی آپ ہی سے محبت کرتی رہوں، مگر میں صرف محبت کے نام پر تو زندگی نہیں گزار سکتی۔” رخشی نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
منصور علی کے کانوں میں جیسے گھنٹیاں بجنے لگیں۔ وہ وہی باتیں کر رہی تھی جن کا ذکر ہارون کمال نے کیا تھا۔ وہ ایک بار پھر ہارون کمال کی ذہانت اور دور اندیشی کے قائل ہو گئے۔ ہارون کمال نے رخشی کے بارے میں جو کہا تھا ٹھیک کہا تھا۔
”میں اسی لیے تو تم سے شادی کرناچاہتا ہوں۔ تمہیں وہی تحفظ دینے کے لیے۔” منصور علی نے اپنا گلا صاف کرتے ہوئے کہا۔
”خفیہ شادی… جسے آپ کسی وقت بھی ختم کر سکتے ہیں۔”
”میں کیوں ختم کروں گا اس شادی کو… میں تم سے محبت کرتا ہوں رخشی!”
”آپ ٹھیک کہتے ہیں میں جانتی ہوں آپ کومجھ سے محبت ہے لیکن اس کے باوجود میں خفیہ شادی کرنا نہیں چاہتی، اس سب کو اسی طرح چلنے دیں۔” رخشی نے قطعیت سے کہا۔
”رخشی! میں وقتی طور پر خفیہ شادی کر رہا ہوں، وقت آنے پر میں اس کے بارے میں سب کو بتاد دوں گا۔” منصور علی نے پینترا بدلا۔
”آپ نے اپنی بیوی اور فیملی کے ردِّ عمل کے بارے میں سوچا ہے؟ اگر انہوںنے آپ کو مجھے طلاق دینے پر مجبور کیا تو…؟” رخشی اب بھی سنجیدہ تھی۔
”ایسا نہیں ہوگا… ایسا کبھی بھی نہیں ہو گا۔ میں تمہیں کسی بھی صورت میں طلاق نہیں دوںگا۔” منصور علی نے حتمی لہجے میں کہا۔
”آپ ان کے ردِّ عمل کا سامنا کس طرح کریں گے۔ ان کے پریشر کو کیسے ہینڈل کریں گے۔ خاص طور پر امبر کو… آپ اس سے بہت محبت کرتے ہیں اور وہ میری اور آپ کی شادی کو کبھی برداشت نہیں کرے گی۔”
”میں اس سے بہت محبت کرتا ہو مگر میں اس کو اپنے اور تمہارے درمیان آنے نہیں دوں گا۔ میں تم سے زیادہ اس سے محبت تو نہیں کرتا۔” رخشی کے چہرے پر بے اختیار ایک مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
”آپ نے آج تک اس کی کسی بات کو نہیں ٹالا… اس کی کوئی بات رد نہیں کی۔ اس بات کو کیسے رد کر سکیں گے۔” اس نے اپنی مسکراہٹ کو چھپاتے ہوئے کہا۔
”پہلے کی بات اور تھی۔ تب میری زندگی میں تم نہیں آئی تھیں۔ اب کی بات اور ہے۔ اگر میں نے کبھی اس کی کوئی بات رد نہیں کی تو اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ میں اس کی کوئی بات رد کروں گا بھی نہیں۔” منصور علی نے کہا۔
رخشی کچھ دیر خاموش بیٹھی رہی، منصور علی نے اچانک ایک انگوٹھی نکال کر میز پر رخشی کے سامنے رکھ دی۔ رخشی کی نظریں اس انگوٹھی پر جم گئیں۔ اس کی آنکھوں میں پسندیدگی تھی، کچھ دیر تک انگوٹھی کو دیکھتے رہنے کے بعد اس نے انگوٹھی اٹھانے کی بجائے اپنا ہاتھ منصور علی کی طرف بڑھا دیا۔ منصور علی کے چہرے پر چمک آگئی۔ رخشی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے منصور علی نے دوسرے ہاتھ سے انگوٹھی رخشی کی انگلی میں پہنا دی۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۶

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۸

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!