تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۵ (آخری قسط)

”یہ قتل منصور علی نے کیا ہے۔ ”ہارون کمال نے جیسے کمرے میں بم پھوڑا تھا۔ وہ ابھی کچھ دیر پہلے ہی اپنے وکیل سے بات کر کے فارغ ہوا تھا اور اس گفتگو کے دوران ہی برق رفتاری سے اس نے اپنے بچاؤ کا پلان تیار کر لیا تھا واحد چیز جس کا اسے خوف تھا وہ اسد کا روِعمل تھا۔ مگر وہ اسد کے رد عمل کی خاطر اپنی جان داؤ پر نہیں لگا سکتا تھا وکیل سے گفتگو سے دوران ہی وہ یہ اچھی طرح جان چکا تھا کہ وہ بری طرح پھنس چکا ہے۔ اس کے خلاف بہت سارے ثبوے اکٹھے ہو چکے تھے اور اگرتحقیق شروع ہو جاتی تو پھندا اس کے گلے میں پوری طرح فٹ آتا اس لیے اس نے امبر سے اپنے تعلقات کو ظاہر کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
فون کا ریسیور نیچے رکھتے ہی اس نے اے ایس پی سے کہا۔
”یہ قتل منصور علی نے کیا ہے اوروہ مجھے اس میں ملوث کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔”
اسد کے ساتھ ساتھ اے ایس پی بھی اس کی بات پر چونکا۔
”آپ کا مطلب ہے، امبر کو اس کے اپنے باپ نے قتل کیا ہے مگر سوال پیداہوتا ہے کہ کس لیے؟کوئی باپ صرف اپنے بزنس پارٹنر کو پھنسانے کے لیے تو اپنی بیٹی کا قتل نہیں کر سکتا ۔”اے ایس پی نے اس کی بات کو جیسے پوری طرح رد کرتے ہوئے کہا۔
”میں اور امبر ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔ ”ہارون کمال نے کمرے میں اسد کی موجودگی کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے جی کڑا کر کے کہا”اور کچھ عرصہ تک ہم دونوں شادی کرلیتے ۔ منصور کو تب تک اس ساری صورت حال کا پتہ نہیں تھا۔”
”اسد پتھر کے مجسمے کی طرح ہارون کمال کودیکھ رہا تھا۔
”امبر منصور کے ساتھ نہیں رہتی تھی۔ وہ منصور کی سابقہ بیوی کے ساتھ رہتی تھی۔ پھر ایک دن وہ مجھ سے شادی کرنے کے لیے گھر چھوڑ کر میرے پاس آگئی ۔میں نے وقتی طور پر اسے اپنے فلیٹ میں رکھا مگر اسی رات اچانک منصوربھی وہاں آگیا۔ امبر کو وہاں میرے ساتھ دیکھ کر وہ آگ بگولہ ہو گیا۔ میںکچھ پریشانی اور شرمندگی کے عالم میں وہاں سے چلا گیا۔جب میں واپس آیا تو منصور اور امبر دونوں وہاں نہیں تھے۔ میں سمجھا کہ شاید منصور امبر کولے گیا ہے ۔ مگر اس کے اگلے دن منصورنے ہر جگہ یہ کہنا شروع کر دیا کہ اس کی بیٹی میرے ساتھ شادی کر چکی ہے۔ ”




اس سے پہلے کہ ہارون کچھ اور کہتا، اسد ایک جھٹکے سے اٹھا اور کمرے سے نکل گیا۔ اے ایس پی نے اسد کے بگڑے ہوئے تیوروں اور اس کے اٹھ کر جانے کے انداز کو غور سے دیکھا ۔ ہارون نے ایک بار پھر بات شروع کر دی۔”
”میں نے منصور کی ان ہی باتوں کی وجہ سے بزنس ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس نے امبر کو قتل کر دیا ہے۔ میں نے اس رات واقعی ایک بیگ خریدا تھا۔ کیونکہ میں اور امبر اگلے ایک دو دنوں میں دبئی چلے جاتے ۔ امبر کو بیگ کی ضرورت تھی۔ مگر میں یہ نہیں جانتا تھا کہ منصور علی اتنا گھناؤنا قدم اٹھالے گا۔”
ہارون کمال کی کہانی بالکل پرفیکٹ تھی، اس میں کہیں جھول نہیں تھا۔ اے ایس پی بری طرح الجھا کہانی میں ایک نیا موڑ آگیا تھا۔ وہ ہارون کمال کو قاتل سمجھ کر وہاں آیا تھا مگر ۔
”اور یہ فلیٹ کہاں ہے؟”اے ایس پی نے اپنے ہاتھ میں پکڑے کاغذات پر کچھ نوٹ کرتے ہوئے کہا۔ ہارون نے ایڈریس لکھوادیا۔
”یہ آخری بار تھی جب آپ نے امبر کو دیکھا؟”اس نے پوچھا۔
”ہاں۔”
”تاریخ بتاسکتے ہیں ؟”ہارون نے تاریخ بتائی۔ اے ایس پی نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
”ہاں’پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق اس لڑکی کی ڈیتھ ان ہی دنوں میں ہوئی ہے۔میں اب منصورعلی سے ملوں گا مگراس سے پہلے اس فلیٹ کو دیکھوں گا۔ میں فی الحال آپ کو گرفتار نہیں کر رہا۔آپ بیرون ملک جانے کی کوشش مت کیجئے گا۔میں منصور علی سے ملنے کے بعد آپ کو بتاؤں گا کہ آپ پر شبہ برقرار ہے یا پھر ہم منصور علی کو گرفتار کررہے ہیں۔”
اے ایس پی نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔
”میں کہیں نہیں جاؤں گا۔ آپ کو یہ سب کچھ صاف صاف بتادیا ہے تہ آئندہ بھی کچھ نہیں چھپاؤں گا۔ امبر کی موت کا مجھے بھی بہت افسوس ہے۔”
اس سے پہلے کہ ہارون کچھ اور کہتا، اے ایس پی نے اس کی بات کاٹ دی۔
”میں اسی وقت اس فلیٹ پر جانا چاہتا ہوں ۔”
”مگر اس وقت تو میرا وکیل یہاں پہنچنے والا ہو گا۔”
”آپ وکیل سے ملیں ، مجھے کسی اور کے ساتھ وہاں بھجوا دیں یا پھر آپ مجھے صرف ایڈریس بتا دیں ۔”اے ایس پی نے کہا۔
”میں آپ کو اپنے پی اے کے ساتھ وہاں بھجوادیتا ہوں ۔”ہارون نے فون اٹھا کر اپنے پی اے کو اندر بلایا اور پھر اسے ہدایات دیتے ہوئے اے ایس پی کے ساتھ رخصت کیا۔
اے ایس پی کے جاتے ہی وکیل وہاں پہنچ گیا تھا۔ اگلا ایک گھنٹہ ہارون نے وکیل کے ساتھ گزارا اور اسی میٹنگ کے دوران اس نے شائستہ کی کال اٹینڈ کی تھی۔ اور شائستہ کے منہ سے نایاب کی کورٹ میرج کا سن کر اس کے پاؤں کے نیچے سے محاورتاً نہیںحقیقتاََ زمین نکل گئی تھی۔ وہ ابھی پہلے شاک سے باہر نہیں نکلا تھا کہ ایک اور مصیبت اس کے سر پر آن پڑی تھی۔
وکیل کے ساتھ میٹنگ ادھوری چھوڑ کر وہ گھر کی طرف روانہ ہوا۔ مگر پورا رستہ وہ بے حد اپ سیٹ رہا تھا۔
گھر میں داخل ہوتے ہی اس کی نظر نایاب کی گاڑی پر پڑی تھی۔ اس کا مطلب تھا نایاب بھی اس وقت گھر پر ہی تھی ہارون نے سوچنے کی کوشش کی کہ وہ آخر کس کے ساتھ کورٹ میرج جیسا بڑا قدم اٹھا سکتی ہے۔ اس کی اتنی دوستی کسی لڑکے کے ساتھ نہیں تھی سوائے…ثمر کے اور بہر حال وہ اتنی بے و قوف نہیں تھی کہ ان سارے حالات میں ثمر کے ساتھ اپنے ماں باپ کو بتائے بغیر کورٹ میرج کر لیتی اور پھر اچانک ہارون کو احساس ہواکہ اگر اسے کسی کے ساتھ چھپ کر شادی کرنے کی ضرورت پیش آسکتی ہے تو وہ ثمر ہی ہو سکتا ہے کیونکہ وہی ایک شخص تھا جس کے ساتھ کبھی بھی کسی بھی حالات میں ہارون اور شائستہ شادی کے لیے تیار نہ ہوتے ۔ ہارون کا بلڈ پریشر کچھ اور ہائی ہو چکا تھا۔ اس کا بس چلتا تو ثمر کو مار ڈالتا ۔ مگر اس وقت تو اسے اپنی بیٹی سے بات کرنا تھی۔
لاؤنج میں داخل ہوتے ہی اس کے سارے اند زوں اور بد ترین خدشات کی تصدیق ہو گئی تھی۔ نایاب اور ثمر ایک صوفہ پر بیٹھے ہوئے تھے اور شائستہ ایک دوسرے صوفے پر بیٹھی بے حد غصہ کے عالم میں ان سے کچھ کہہ رہی تھی۔
نایاب نے ہارون کو لاؤنج میں داخل ہوتے دیکھ لیا تھا اور یقیناََ اس کے تاثرات سے اسے اندازہ بھی ہوگیا تھا۔ کہ اس کا باپ بے حد خراب موڈ میں ہے۔
شائستہ ہارون کو دیکھتے ہی اٹھ کر کھڑی ہو گئی ، یہی کام نایاب اور ثمر نے کیا تھا۔ ثمر یک دم ہی بے حد نروس ہو گیا تھا۔
شائستہ کو ہارون کو کچھ بتانے کی ضرورت نہیں پڑی ۔
”اس لڑکے سے شادی کی ہے تم نے ؟” ہارون نے لاؤنج میں داخل ہوتے ہی دھاڑتے ہوئے نایاب کو مخاطب کیا ۔ ثمر کے برعکس وہ نروس نہیں تھا اگر تھی بھی تو وہ ظاہر نہیں کر رہی تھی۔
”ہاں !اس نے بڑے اعتماد سے ہارون کو جواب دیا۔ ہارون نے اس اعتماد کا جواب انگلش میں ثمر کو کچھ گالیوں سے دیا۔
”پلیز پاپا ! مائنڈ یو ر لینگویج ۔”نایاب نے بے حد ناراضی سے کہا۔ ”آپ کو پتا ہونا چاہیے کہ آپ میرے شوہر سے بات کر رہے ہیں ۔”
”تمہارا شوہر مائی فٹ ! میں اس دو ٹکے کے لڑکے کواپنا داماد بنا لوں جس سے بہترمیرے ملازم ہیں جس کا نہ کوئی آگے ہے نہ پیچھے ۔ پتہ نہیں یہ کس کی ناجائز اولاد ہے جسے تم پکڑ کر ہارون کمال کا دامادبنانے چلی ہو۔ ”ہارون کمال نے یہ کہتے ہوئے شائستہ کو نہیں دیکھا جس کی آنکھیں اس وقت ہارون کو دیکھتے ہوئے آگ برسا رہی تھیں ۔ ثمر کا چہرہ ہارون کے جملوں پر سرخ ہو گیا تھا۔ اگر چہ اسے ا سی قسم کے استقبال کی امید تھی۔ اس کے باوجود اسے لگا کہ اس نے یہاں آکر بہت بڑی غلطی کی ہے۔
”مجھے ثمر کے خاندان سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔میرے لیے صرف وہ اہم ہے۔ ”نایاب نے ہارون کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”اس لڑکے نے تمہیں ٹریپ کیا ہے۔ تمہیں سیڑھی بنا کر ہارون کمال کی دولت حاصل کرنا چاہتا ہے۔”ہارون نے ثمر کی طرف انگلی اٹھاکر نایاب سے کہا۔
”مجھے آپ کی دولت سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ میں گھر داماد بننے نہیں آیا ہوں ۔ میں نایاب کو یہا ں سے اپنے ساتھ اپنے گھر لے جاؤں گا۔ ”
ثمر نے پہلی دفعہ ساری گفتگو میں مداخلت کی …اور اس کا پہلا جملہ ہی ہارون کے صبر کا پیمانہ لبریز کرنے کے لیے کافی تھا۔ وہ غصے میں لپکتے ہوئے ثمرکی طرف گیا اور اسے گر یبان سے پکڑ لیا۔ اس سے پہلے کہ ثمر کچھ کرتا، ہارون نے اس کے چہرے پر تھپڑ مار دیا۔ اور پھر دوسرا تھپڑ، نایاب چیختی ہوئی آگے بڑھی اور اس نے ہارون کو روکنے کی کوشش کی مگر ہارون غصہ میں آگ بگولہ ہو رہا تھا۔ ؟ثمر کی ناک سے خون نکلنے لگا تھا۔ وہ اب اپنے چہرے کو ڈھانپ رہا تھا مگر ہارون پوری قوت سے اپنے بوٹوں کے ساتھ اس کی ٹانگوں پر ٹھوکریںمار رہا تھا۔
شائستہ بے حس وحرکت لاؤنج میں کھڑی تھی ۔ وہ یہ سب کچھ نہیں چاہتی تھی مگر اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ یہ سب کچھ کیسے بند کرے ۔ نایاب ہارون اور ثمر کے بیچ میں آنے کی کوشش کر رہی تھی اور اس میں ناکام ہونے پر وہ بری طرح رونے لگی ۔ ثمر اپنے آپ کو بچانے میں ناکام ہو رہا تھا۔ اسے ہارون کمال کا لحاظ نہ ہوتا تو شاید وہ بھی جواباََ ہارون کمال پر اب تک ہاتھ اٹھا چکا ہوتا۔
شہیر نے یہ سارا منظر لاؤنج کی ریلنگ کے کنارے کھڑے ہو کر دیکھا تھا۔ وہ چند لمحے پہلے ہی نیچے ہونے والا شور سن کر اپنے کمرے سے باہر نکلا تھا اور باہر نکلتے ہی نیچے لاؤنج میں ثمر کو ہارون کے ہاتھوں پٹتے دیکھ کر وہ ایک لمحہ کے لیے شاکڈ رہ گیا تھا۔ اس نے پہلی نظرمیں ثمر کو پہچانا نہیں مگر اگلے ہی لمحے وہ پاگلوں کی طرح بھاگتے ہوئے دیوانہ وار سیڑھیاں اترتے نیچے پہنچا’اور پوری قوت سے ہارون کو پیچھے دھکیلتے ہوئے ثمر کے سامنے آگیا۔ ہارون نے سرخ آنکھوںکے ساتھ اسے دیکھا۔
”سامنے سے ہٹو ۔”اس نے بلند آواز میں چیختے ہوئے شہیر سے کہا۔
”میں نہیں ہٹو ں گا ۔ آپ میرے بھائی کو اس طرح نہیں مار سکتے۔ ”
”شہیر !تم یہاں سے جاؤ، یہ تمہارا مسئلہ نہیں ہے۔ ”شائستہ نے ہارون کی بات کو نظر انداز کر….کے چند قدم آگے آتے ہوئے شہیر سے کہا۔
”نہیں میں یہاں سے نہیں جاؤں گا۔ آپ لوگوں کی ہمت کیسے ہوئی کہ آپ لوگ ثمر کو اس طرح ماریں۔”
شہیر اب اشتعال میں تھا۔
”ثمر کو جرأت کیسے ہوئی کہ یہ نایاب کیساتھ شادی کر لے۔”شائستہ نے ترکی بہ ترکی کہا۔
شہیر کو جھٹکا لگا”نایاب سے شادی ؟”اس نے پلٹ کر ثمر کو دیکھا۔
”I can explain۔”ثمر نے مدھم آواز میں اپنی ناک سے نکلتا خون صاف کرتے ہوئے کہا۔ شہیر کا دل چاہا تھا، وہ ایک ہاتھ خود بھی اسے جڑ دے ۔ وہ واقعی اُلو کا پٹھا تھا۔
”اس سے کہو، یہ ابھی اور اسی وقت نایاب کو تحریری طور پر طلاق دے ۔ ”شائستہ نے کہا۔ ”اور دوبارہ کبھی نایاب سے ملنے کی کوشش نہ کرے ۔”
”میں کبھی مر کے بھی ثمر سے طلاق نہیں لوں گی۔سن لیا آپ لوگوں نے۔”نایاب بے اختیار ہو کر چلائی۔




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۴

Read Next

ٹی وی لاؤنج — ثاقب رحیم خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!