”مجھے اس طرح کی دنیا اور اس طرح کے لوگوں کے ساتھ رہنے کی عادت کبھی نہیں ہو سکتی۔ میں لاکھ کوشش کروں تب بھی نہیں۔” صبغہ نے بے اختیار گہرا سانس لیا۔ ”تو پھر
”بیٹھیں…” اس نے صوفے کی طرف اشارہ کیا۔ دونوں عورتوں نے بلاتامل اس کی دعوت قبول کی اور آگے بڑھ کر صوفے پر بیٹھ گئیں۔ وہ عورت خود ان دونوں سے قدرے فاصلے پر چارپائی
”ہو سکتا ہے۔” ثمر نے سیٹ میں ہونے والی تبدیلیوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔ ”آپ کو تو یقینا نہیں لگتی ہو گی۔ آپ تو ہر چیز اتنے آرام سے کر رہے تھے۔ مجھے مسئلہ ہو
”آپ اندر جا سکتے ہیں۔” سیکرٹری نے اسامہ کو منصور علی کے دفتر میں جانے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ وہ اٹھ کر دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ منصور علی نے چند گھنٹے پہلے فون
”ہاں، یہ مجھے پوچھنے کی ضرورت ہے۔ بہت ساری باتیں خود سے پتا نہیں چلتیں۔ جب کسی دوسرے سے پتا نہ چلے کچھ بھی کنفرم نہیں ہوتا۔” ”ہم دونوں میاں بیوی ہیں۔” وہ ایک بار
ہر گزرتے دن کے ساتھ رخشی کے لیے یہ ستائش بڑھتی جارہی تھی۔ اس دن وہ طلحہ کے ساتھ ایک ہوٹل میں کھانا کھانے کے لیے گئی ہوئی تھی اور وہاں بھی کالج کے ڈرامہ