وہ دونوں آواری میں بیٹھے ہوئے تھے۔ سفینہ سلور گرے سلک کی ساڑھی باندھے ہوئے تھی۔ اس کے کھلے بال جسم کی حرکت کے ساتھ اس کے سیلولیس بلاؤز سے نظر والے بازوؤں پر گرتے
”تمہیں آخر ضرورت کیا تھی اس طرح ہمارے گھر آنے کی؟”ثمر اگلے دن کالج میں نایاب کو دیکھتے ہی اس پر برس پڑا تھا۔ ”میں تمہیں بتا چکا تھا کہ ہمارے گھروں میں لڑکیاں دوست
”مجھے اس طرح کی دنیا اور اس طرح کے لوگوں کے ساتھ رہنے کی عادت کبھی نہیں ہو سکتی۔ میں لاکھ کوشش کروں تب بھی نہیں۔” صبغہ نے بے اختیار گہرا سانس لیا۔ ”تو پھر
”بیٹھیں…” اس نے صوفے کی طرف اشارہ کیا۔ دونوں عورتوں نے بلاتامل اس کی دعوت قبول کی اور آگے بڑھ کر صوفے پر بیٹھ گئیں۔ وہ عورت خود ان دونوں سے قدرے فاصلے پر چارپائی
”ہو سکتا ہے۔” ثمر نے سیٹ میں ہونے والی تبدیلیوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔ ”آپ کو تو یقینا نہیں لگتی ہو گی۔ آپ تو ہر چیز اتنے آرام سے کر رہے تھے۔ مجھے مسئلہ ہو