راندۂ درگاہ — قرۃ العین مقصود

سنا ہے پچھلے وقتوں میں
بیٹی اک ندامت تھی
زندہ دفنا دی جاتی تھی
آنکھ کھلنے پر فضا میں بدبو کا اثر غالب تھا مگر حسیات مکمل طور پر کام نہیں کر رہی تھیں، اس لیے اس کی نوعیت جاننے میں ذرا وقت لگا۔دماغی خلیوں نے ناک سے آتے پیغام کو ڈی کوڈ کر کے بتایا کہ یہ خون اور گوشت کے بہ یک وقت جلنے کی بدبو ہے اور محسوس ہونے والی شدت بتاتی تھی کہ کہیں قریب ہی جل رہا ہے۔ اس نے سر گھما کر اطراف میں نظر دوڑائی، وہاں کئی لوگ نظر آ رہے تھے۔ منظر ایسا تھا کہ کسی بھی ذی ہوش انسان کی خوف اور دہشت کے مار ے چیخیں یقینی تھیںمگر وہ یوں ہی بغیر کسی تاثر کے دیکھتی رہی۔ اس کمرے میں موجود لوگوں میں غالباً زیادہ تعداد عورتوں کی ہے۔ اس نے اس اجنبی مقام کے بارے میں پہلی رائے قائم کی۔ ان سب لوگوں کے قریب سے دھواں اٹھتا محسوس نہیں ہو رہا تھا، باوجود اس کے کہ گوشت کے جلنے کی بدبو انہی لوگوں کے جسموں سے اُٹھ رہی تھی۔ یوں لگتا تھا کہ آگ کے شعلے کا وہ حصہ جو نظر نہیں آتا، ہولے ہولے ان کے جسموں کو راکھ میں تبدیل کیے جا رہا ہو۔ اس حیرت کدے میں مجسموں کے چہرے کسی تکلیف کے مظہر نہیں تھے سوائے اس کے، جو آگہی کا در وا ہونے والوں کے چہروں پر جلی حروف میں لکھی ہوتی ہے۔ ان سب کے چہرے سے بھی کسی جسمانی تکلیف کا اظہار نہیں ہو رہا تھا ۔
فضا میں جلتے ہوئے خون اور گوشت کی بدبو، گرمی،حبس اور وحشت جیسے وقت کے ساتھ ساتھ بڑھ رہی تھی۔ یوں جیسے ہر طرف کوئی عذاب اتر رہا ہو۔ آس پا س کوئی آگ جلتی ہو جس کے دل تک جانے کا خدشہ، سانس لینا محال کیے ہو اور یہ آگ ہوا میں اس گیس کے اضافے کا موجب بن رہی ہو جو جسم میں داخل ہو کر پھیپھڑے ہی نہیں، دل بھی جلا دے۔ اس ماحول میں اس لڑکی کے دل کا خالی پن ایسا تھا جس کا شہزادہ وقت سے پہلے ہی بھیڑیے میں تبدیل ہو گیا ہو اور یہ خلا ا س سنڈریلا کے دل کی وحشتیں بھر رہی ہو جس کی بگھی کچھ ہی منٹوں میں کدوئوں میں تبدیل ہو جانی ہو اور دل، خود کو شہزادی کے لبادے کے بغیر دیکھنے پر آمادہ ہی نہ ہو۔
ایک عجیب بات یہ بھی تھی کہ اسے اس ماحول سے خوف یا گھبراہٹ محسوس نہیں ہو رہی تھی ۔ اتنی ہی عجیب بات زندہ انسانوں کے گوشت کے جلنے کو محسوس کرنا بھی تھا ۔ یہاں انسان،ماحول،انسانوں کے ساتھ پیش آنے والے،اس کا یہاں موجود ہونا ،ماحول میں موجود عناصر کا اس پر اثر انداز نہ ہونا سب ہی عجیب تھا مگر شاید وہ اس وقت کسی حیرت کدے کا ہی حصہ تھی۔ وہاں نین نقش سے ترک دکھنے والی لڑکیاں بھی موجود تھیںاور ایسے لوگ بھی جن کے نقش ان کے افریقی ہونے پر فاخر تھے اور وہ بھی جن کا لہجہ ان کے جورڈن سے ہونے کی چغلی کھاتا تھا۔ اور تو اور اسے وہاں فلسطینیوں کے ساتھ ساتھ اسرائیلی نسل کی عورت بھی نظر آرہی تھی۔ ان سب حالات میں بھی اسے ان ترقی یافتہ قوموں کی عورتوں کو دیکھ کر حیرت ہوئی تھی۔ اسی حیرت کے اظہار پر سامنے بیٹھی ترک لڑکی کی مسکراہٹ دیکھ کر اسے لگا کہ جیسے وہ خود بھی نہیں جانتی کہ وہ اس قوم کی مہذب اور سلجھی ہوئی لڑکی ہو کر یہاں کیوں ہے ؟یقتور نے خالی خالی نظروں سے سامنے دیکھا، جو بات وہ خود نہیں جانتی وہ دوسرے نگر کی باسی لڑکی کو کیا بتاتی؟ کہ وہ کس گناہ کی سزا کاٹنے کو یہاں موجود ہے۔
٭…٭…٭




”اب جانے یہ لوگ کون سا چاند چڑھا رہے ہیں اس وقت۔” اس نے کوفت سے سوچا۔ جیا کے گھر سے آتی آوازوں میں اضافہ ہی ہوا جا رہا تھا۔
”پتا نہیں کون سا عذاب اتر رہا ہے جو اتنا شور ہے ۔” اب کے وہ کوفت کہ مارے بڑبڑائی۔ اتنی مشکل اور انتظار کے بعد تو اماں سوئی تھیں، اگر آوازوں کی وجہ سے اٹھ جاتیں تو؟یہ بات ناصر ہوتا تو فوراً اس کے چہرے سے پڑھ لیتاجس کی کال وہ اس وقت اس شور کی وجہ سے نہیں اٹھا پا رہی تھی اور بڑھتے انتظار کے ساتھ اس کا موڈ بھی خراب ہوتا جا رہا تھا۔ مزید کچھ دیر گزرنے پر بھی جب اسے لگا کہ ساتھ والے گھر سے شور اُٹھنا ختم نہیں ہوا تو اُس نے دبے پائوں اٹھ کر دروازے کی درز سے با ہر جھانکا۔ وہاں کچھ بھی غیر معمولی نہیں تھا مگر کچھ دیر پہلے جو ایک شخص کے چیخنے کی آواز آرہی تھی، اب لگتا تھا پورا گھر مل کر چیخ رہا ہے حالاں کہ پورے محلے میں یہ ایک ہی گھر تھا جس کی عورتوں کی آوازیں محلے نے با جماعت نہیں سنی تھیں۔ مردوں نے البتہ کبھی بھی محلے کو یہ ظرف نہیں بخشا تھا ،لیکن آج کچھ غیر معمولی تھا۔ غالباً چاچی کی آواز سننے کے بعد تو اسے بھی فکر ہونے لگی تھی۔ لگتا ہے کوئی جھگڑا ہو گیا ہے، اس نے ڈوبتے دل کو تسلی دی۔ مگر اندر سے اٹھتے واہموں کا خاتمہ نہ ہوا۔ ایک دم سے اسے لگا جیسے جیا کے بھائی خاور کی آواز کے ساتھ اب جیا کی آواز بھی شامل ہو رہی ہے۔ دونوں اب دو بہ دو لڑ رہے تھے ۔ اگر اس وقت رات کے دس نہ بجے ہوتے تو اب تک وہ ان کے گھر جا چکی ہوتی۔ وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ یہ کوئی محبت کرنے والے بہن بھائیوں کی نوک جھونک نہیں تھی۔ ایسا تعلق جیا کا اپنے بھائیو ں کے ساتھ کبھی نہیں رہا تھا۔ اس کے بھائی فلموں کے ولن جیسے تھے اور بس ان کا یہ ہی تعارف ان کی شخصیت کی عکاسی کرتا تھا۔ ”تڑاک، تڑاک، تڑاک…”کی مسلسل آوازیں شاہد تھیں کہ اس کا بھائی اس پر ہاتھ اٹھا رہا تھا۔ یہ تو تب بھی نہیں ہوا تھا جب جیا نے سارے خاندان کی مخالفت مول لے کر یونیورسٹی میں ایڈمیشن لیا تھا اور تب بھی نہیں جب محلے کے لوگوں کی باتیں گھروں کی منڈیروں سے نکلتی ان کے گھر کی دہلیز تک پہنچی تھیں۔ اب دل کے دھڑکنے کی آواز باہر بھونکتے کتوں کے شور سے بھی زیادہ لگنے لگی تھی۔ ابھی کل ہی تو جیا نے چمکتے چہرے کے ساتھ بتایا تھا کہ ذیشان کے والدین رشتہ لے کرآ رہے ہیں۔ اس کے ذہن نے کڑیوں سے کڑیاں ملانی شروع کیں اور بالکل ٹھیک نتیجے پر پہنچی۔ اگر یہ بات تھی بھی تواس پر ایسا ہنگامہ تو خیر سمجھ میں آتا تھا کہ یہاں کے مردوں کی ذہنیت اس کے لیے نئی نہیں تھی، مگر جیا کا ردِعمل اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ اس نے ہمیشہ کی طرح حکمت سے مسئلہ سلجھانے کے بہ جائے بات بڑھائی تھی۔ کہیں کچھ تو تھا جو بہت غلط تھا۔ یکا یک اسے لگا جیسے گلی کہ گٹر سے اٹھتی بو بڑھ گئی ہو۔ کالی رات کے جس شر سے پناہ مانگے جانے کا کہا گیا ہے، وہ بڑھ گیا ہو۔
اب لگتا تھا کہ دکھ اور وحشت کے اس منظر میں سڑاند بھی شامل ہو گئی ہے۔ اس کمرے میں اس وقت فرشی لکڑی کے تختوں کی چڑچڑاہٹ کے علاوہ آواز صرف دلوں کے دھڑکنے کی تھی جو کافی اونچی سنائی پڑتی تھی۔ باپو یہاں کہیں آس پاس نہیں ہیں،کافی دیر انتظار کے بعد اب وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ وہ یہاں اسے کیوں چھوڑ گئے ہیں۔ وہاں عجیب تو خیر سب ہی تھا مگر گوریوں اور کالوں کا مو جو د ہونا سب سے زیادہ حیران کن تھا۔ اس نے صرف ماتا جی سے سنا تھا گوریوں کے بارے میں۔ وہ اپنا آپ اس اجنبی نگر میں موجودگی کو بھولے بیٹھے ان کو دیکھ کر حیران تھا یا خوش، یہ ابھی سوچنا باقی تھا۔ وہاں کچھ کالے بھی تھے جنہیں دیکھ کر پہلا خیال ماتا جی کی سنائی گئی کہانی کے ولن بمبا کا آتا تھا اور دوسرا بھی، جس کا حلیہ تو وہ کہانی میں نہیں بتاتی تھیں مگر اسے پتا تھا وہ کالا اور بڑا تھا۔اسی لیے تو وہ اندھیرے میں بچوں کو نظر نہیں آتا تھا اور انھیں اٹھا کر اپنے دیس لے جاتا تھا،مگر اسے یہاں کون لایا تھا۔ اب اس کا ذہن غالباً کام کرنا شروع کر رہا تھا کہ ماتا اور پاپو ابھی تک اسے لینے کیوں نہیں آئے تھے؟
ماتا باپو سے اب گھر کا منظر ذہن میں گھومنے لگا تھا۔ اب اسے یاد آرہا تھا کہ وہ باپو جو اسے کبھی گھر سے نہیں نکلنے دیتے تھے، نے گھر سے نکال دیا تھا یا شاید یہ کہنا چاہیے کہ وہ اس گھر سے نکل آیاتھا یا کہ دیدی نکال لائی تھیں۔دماغ دھیرے دھیرے جاگ رہا تھا۔ پزل ٹکڑے مل کر مکمل تصویر کی شکل میں ڈھل رہے تھے۔ ارگرد ساراخاندان اکٹھا تھا۔ خاندان کے لوگ یعنی مردوں کے لیے عو رتیں خاندان کا حصہ نہیں بلکہ استعمال کی چیزیں تھیں، جیسے اوربہت سی چیزیں۔ اس نے سر جھٹکا۔ اس وقت اسے دیدی کی باتیں کیوں یاد آ رہی تھیں۔ جیسے وہ آج کھڑا تھا، دیدی ہر دوسرے دن اسی صورتِ حال میں کھڑی ہوتی تھی۔ یہ اور بات ہے کہ اسے کبھی فرق پڑتے ہوئے اس نے نہیں دیکھا تھا۔ دیدی کو خاندان میں پسند نہیں کیا جاتا تھا۔ اس کی بنیادی وجہ دیدی کی اپنی حرکتیں تھیں۔ وہ باغی تھی اور جن چیزوں کو ٹھیک سمجھتی تھی، اس میں کسی کی بھی مخالفت کی پروا نہیں کرتی تھی۔ اسی لیے آئے دن اسے ڈانٹ ڈپٹ کا سامنا کرنا پڑتا تھا مگر کرتی وہ اپنی من مانی ہی تھی۔اور نتیجہ پھر وہی تھا۔ اب اسے سوچنے پر یاد آ رہا تھا کہ دیدی کو اس نے پچھلے کئی دنوں سے نہیں دیکھا۔ رات کو اس نے گھر میں ہر جگہ دیکھا تھا۔ باپو سے پوچھا مگر انہوں نے بتانے کیبجائے دیدی کو گالیاں دینا شر وع کر دیں اوروہ نہ سمجھ پانے کہ با و جود ڈر کے واپس مڑ گیا۔اگلے دن ا سے وہاں سب کے درمیان بلایا گیا۔ وہ وہاں دیدی کو سبق سکھانے کی باتیں کر رہے تھے۔
”دیدی نے پھر سے کچھ کر دیا؟” اس نے جھکے سر کے ساتھ سوچا۔
”تاجی آپ کو ہی شوق تھاچھوری کو بڑے اسکول پڑھن بھیجن کا۔ اب بھگتنا سب کو پڑے ہے۔” وہ بڑا اسکول نہیں، یونیورسٹی ہے ۔اس منظرکی وجہ سے پیدا ہونے والی بے سکونی غصے میں ڈھلی۔ یہ رام کی آواز تھی، بوا جی کا بیٹا کبھی بھی اپنے موبائل پہ گیم نہیں کھیلنے دیتا تھا۔ اس لیے ان کے سارے گروپ میں کوئی بھی اسے پسند نہیں کرتا تھا۔
”یہ خاندان کہ نام پر کالک جو ملی ہے نا اس نے، اس کو سنبھالنا آپ کے ہی ذمے ہووت ہے۔” تاجو کب سے چپ کھڑے تھے۔ اب اسے ان پر ترس آنے لگاحالاں کہ ایسی صورتِ حال میں اس کی ہم دردیاں دیدی کے ساتھ ہوا کر تی تھیں، صرف ہم دردیاں ہی۔ وہ سب کے سامنے دیدی کی طرح تو کبھی بھی نہیں بول سکتا تھا۔حالاں کہ جب اسے ڈانٹ پڑا کرتی تو دیدی بغیر کسی خوف کے اس کی حمایت کیا کرتی تھی۔ اسی لیے اسے اچھی بھی لگتی تھی۔ اس کی زندگی کی سب سے بڑی فینٹسی۔ یہ آزادی اور بہادری جو دیدی کہ پاس تھی۔ وہ اس کے تایا کی بیٹی تھی ، اس کی اپنی دیدی تھی نہ وہ دیدی کا بھائی تھا۔ تو وہ ہی اسے راکھی باندھا کرتی تھی اور اسے ما تا بابو سے چھپ کر چاکلیٹ کھانی ہوتی تو بھی دیدی کہ پاس ہی جایا کرتا تھا۔
”سماج میں ہمارا مان سمان ہووت ہے۔ ذات برادری کے علاوہ رکھا ہی کیا ہے؟ اس پاپ کی معافی نہ ہوئے ہے۔یہ موسا جی تھے۔وہ جب بھی گھر آتے، ان کے نکلتے وہ دیدی کو ویڈیو کال کرنے بھاگتا تھا۔ ان کی باتوں سے جو کوفت ہواکرتی تھی، اسے ختم کرنے کے لیے۔
”جس کی عزت کو بٹّا لگے وہ ہی ختم کرے اس بدذات کو۔” اس آواز کے خلاف اٹھتا تنفر اب غصے میں ڈھلنے لگا تھا۔باپو بولتے کیوں نہیں؟ ایسا بھی کیا کر دیا دیدی نے۔ وہ جس عمرمیں تھا، اس میں اگر ہمارے پسندیدہ شخص میں ساری دنیا بھی مل کر کوئی خامی بتائے تو غلطی یقینا ساری دنیا کی ہی ہوتی ہے۔ جس پیڈسٹل پر ہم نے اس شخص کو بٹھا رکھا ہوتا ہے، وہاں کوئی خامی پہنچ ہی نہیں سکتی اور اگر آپ اپنی ساری توانائیاں صرف کر کے بھی اس کو بچا نہ سکیں تو احساس ندامت جینے نہیں دیتا۔ خودسا ختہ عدالت میں فیصلے سناتی آواز کی گونج میں موت کی آہٹیں سنی جا سکتی تھیں۔




Loading

Read Previous

ٹی وی لاؤنج — ثاقب رحیم خان

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۱

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!