میں نے اس سے سکون اور سہارا مانگا تھا۔ میں نے اس سے آسانی اور محبت مانگی تھی۔ میں نے اس سے اپنے گناہوں کی معافی مانگی تھی۔ اس رات پتا نہیں کیوں مجھے یہ
”ہاں۔” ”پھر اب تم کہاں رہتی ہو؟” ”ایک ہاسٹل میں۔” اس کی سمجھ میں نہیں آیا، وہ اب اس سے اورکیاپوچھے، چند لمحے وہ خاموش رہا تھا۔ ”پھرتم یہاں کیوں آئی ہو؟” ”یہاں کچھ لوگوں
”مگر تم نے فون پر اس کا ذکر کیوں نہیں کیا؟” صوبیہ نے شکوہ کیا۔ ”مجھے یاد نہیں رہا۔” میں نے بے خیالی میں کہا۔ ان تینوں نے عجیب نظروں سے مجھے دیکھا۔ ”تمھیں یہ
آسماں کو چھوتے برف پوش پہاڑی سلسلے کے بیچ زندگی مصلو ب تھی، کچھ ایسے کہ سانس تک گروی معلوم ہوتی تھی ۔صدیوں سے کھڑے بلندو بالا پہاڑی سلسلے بے شمار قبروں کے امین تھے۔