کیوئیں جاناں میں کون — مصباح علی سیّد

اٹخ پٹخ، جھاڑ پونچھ، چیزیں یہاں سے اٹھا وہاں رکھ، وہاں کی اٹھائی سٹور میں اور سٹور کا فالتو سامان ردی والے کو، مہینوں سے رکھیں اوپر والوں کی چیزیں واپس جارہی تھیں اورعرصے دراز بعد اوپر سے نیچے والوں کا سامان واپس آرہا تھا۔ افراتفری کا ایسا عالم تھا جیسے کوئی نیا نیا مالک مکان آئے یا پھر چھوڑ کر جارہا ہو۔ چیزیں فرش پر بکھری اور بچے دیواروں پر ٹنگے، کیلیں مختلف چیزیں لگانے کے لیے ٹھونک رہے تھے۔ عرصے بعد شام کا بھولا گھر آرہا تھا بدنظر سے بچاؤ کے تعویز اور نقش خاص طور پر پیر جی سے لگاتے تھے اور ایسی جگہ لٹکانے تھے جہاں سے وہ گزرے۔
’’خالا…‘‘
فارحہ اپنی قدرتی صور پھونکتی آواز میں ہانک لگاتی آئی اور کیل ٹھونکتے احمد کی ہتھوڑی کیل کے بجائے اس کے ناخن پر، صد شکر تکلیف سے توازن نہ بگڑا ورنہ وہ خالہ سمیت زمین پر ہوتا اس نے گردن گھما کر اُسے گھورا مگر وہ اطمینان سے استفسار کررہی تھی۔
’’امی پوچھ رہی ہیں، ہادی ماموں کو لینے کون کون جائے گا؟‘‘
’’وہ تو بارہا منع کررہا ہے، خود ہی آجاؤں گا۔ مگر میں سوچ رہی ہوں‘‘
انہوں نے کان پر دوپٹہ اڑستے گویا مطلع کیا تھا ’’احمد اور علی دونوں کو بھیج دوں۔‘‘
’’خالا میں بھی چلی جاؤں… علی بھائی اور …‘‘ وہ قدرے جھجک کر بولی ’’احمد کے ساتھ…، اس کی شرماتی نگاہ احمد کی پیٹھ پر گئی اپنے نام پر اُس نے بھی مڑ کر دیکھا تھا اس کی آواز گرم پانیوں میں تیرنے لگی تھی۔
’’ارے… تم کیا کرو گی…؟‘‘
خالہ نے گھورا اور ایک کیل احمد کو پکڑاتے متوجہ کیا تھا ’’برابر دو کیلیں لگا، سبز تعویز لٹکانا ہے، پیر جی نے کہا تھا، سبزے کے چھاؤں ہاری کو ہرا بھرا کردے گی۔‘‘
’’اے اچھا چلی جانا…‘‘ قدرے محبت سے دیکھا جیسے ہی مڑنے لگی خالہ نے ہانک لگائی۔
’’اس سوکھے بدن پر اپنا کالا جوڑا نہ لٹکا لینا، کالا رنگ سوگ کی علامت…‘‘
اس کی فرما رواہلتی گردن پر احمد کا دل مسوس کررہ گیا۔
’’ہائے! کیا غضب ڈھاتی ہے، اس سوٹ میں، سیدھی دل میں لگتی ہے… ٹھاہ‘‘
اس کا سارا غصہ کیل اور دیوار پر نکلا تھا…
’’ہادی ماموں، ہادی بھیا‘‘ ہر جانب اک ہی ورد تھا۔ ہادی، ہادی، ہادی… جیسے ہی وہ گھر میں داخل ہوا بڑی آپانے سات دانے سرخ ڈوڈی مرچ کے اس پر سے وار کے آگ میں پھینکے۔ گھر کی پالتو بلی کو بہ طورِ خاص آج باندھ کر رکھا گیا تھا منحوس رستہ ہی نہ کاٹ دے۔ خوب ڈیل ڈول والی چھوٹی آپا بھی اِدھر اُدھر ڈولتی بڑھیں لمبی سی سبز بوتل سے چوکھٹ کے دونوں اطراف تیل ڈالا بھائی کی بلائیں لیں۔
’’امی یہ کیا…! فارحہ کی آواز اُبھری ’’تیل ڈال دیا تاکہ ماموں آتے ہی چوکھٹ رسید ہوجائیں۔‘‘
امی سے پہلے خالہ کا چھانپڑ پشت پر لگا ’’کم بخت، منحوس ماری، بدفعال کیوں نکال رہی ہے، میرا لاڈلا بھائی کیوں گرنے لگا…‘‘
فرطِ جذبات سے آگے بڑھیں پہلے ہادی کو گلے لگایا پھر پچڑ پچڑ پیشانی سے گال پر بوسے دے ڈالے۔
ساتوں بھانجے بھانجیاں صوفے پر بیٹھے ہادی کے گرد حلقہ بنائے ہوئے تھے۔ کوئی گری پھانکتا، کوئی موبائل پر میسج ٹائپ کرتا، کوئی میسج پڑھتی اور کوئی ماموں کے ساتھ سیلفی بناتا۔ گزرے دنوں کی یادیں تازہ کررہے تھے۔ بڑی اور چھوٹی آپا دونوں بہنیں ہونے کے ساتھ دیورانی جیٹھانی بھی تھیں۔ منٹ منٹ بعد اس کے واری صدقے جائیں۔ بس نہیں چل رہا تھا کہ ہر چیز سے نظر اتار لیں۔ حالاں کہ چیزوں سے نظر اتارنے کہ بہ جائے خود کو اس پروار دیتیں یا کم از کم دل ہی بڑا کرلیتیں تو شاید آج ہادی کی زندگی میں سکون ہی ہوتا اور اس کی اجڑی صورت دیکھ کر غمزدہ نہ ہوتیں۔ غم بھی عجیب تھا سات سمندر پار سے برسوں بعد بھائی کی صورت دیکھنے کو ملی تھی۔ بڑا بھائی اللہ نے دیا نہیں چھوٹے کو ہی بھیا کہہ کر دل کی تسکین کرتی رہیں۔ دل کی تسکین بھی عجیب چیز ہے وہاں سے ہوتی ہے جہاں خواہشات ساتھ چھوڑ جائیں اور خواہشات کب مٹھی میں آتیں ہیں۔ اتنی جلدی ہاتھ سے ریت نہیں پھسلتی جتنی جلدی خواہشات پھسل کر سامنے منہ چڑھاتیں ہیں۔ چھوٹی اور بڑی دونوں کی شدید آرزو تھی ہادی کی خندہ پیشانی پر سنہری تاروں والا سہرا لہرائے پر خدا کی پناہ مجال کیا جو کوئی ڈھنگ کی لڑکی اس کے دل میں ٹھہری ہو، نظر سے گزری ہو، یا کسی معقول پر انگشت اشارہ ہی کیا ہو کتنا پوچھا مگر روزہ نہ کُھلا اور عمر پچیس سے بھاگتی پچاس کو چھونے لگی۔
’’ماموں آپ نے ہمارے ساتھ اچھا نہیں کیا۔‘‘
احمد نے موبائل آف کرتے ہوئے ہمیشہ کی طرح درمیان سے جملہ نکالا ’’ہمیں اکلوتی ممانی سے محروم رکھ کر‘‘
ہادی پوری بات سن کر دھیما سا مسکرا دیئے۔
سدرہ نے بھی موبائل آف کرتے ہوئے احمد کی ہاں میں ہاں ملائی۔
’’تو اور کیا… قسمت سے ایک ہی آنی تھی، وہ بھی نہ آئی…‘‘
’’اے کم بخت… آہستہ بولا کر…‘‘
بڑی آپا نے انگلی کی پورکان کے سوراخ پر رکھی اور اسے نخوت سے گھورا ’’جس دن منحوس پیدا ہوئی تھی اس دن منڈیر پر اتنا کوا بولا کہ دم دینے کو ہوگیا اور اپنی ساری نخوت بھری آواز اس مصیبت کو ہدیہ کرگیا، جواب ہمارے کانوں کے پیچھے پڑی ہے‘‘
بڑی آپا اس کی آواز سے انتہائی عاجز تھیں۔ مسلسل اُسے گھورتے کہتی رہیں ’’لو بھلا آوازنہ ہوگئی ایف 16- ہوکیا، کان کے پردے پھاڑ ایک سے گھس دوسرے سے نکل…‘‘
احمد ماں کے تبصرے پر دل مسوس کررہ جاتا اُسے تو اتنی سریلی لگتی تھی کیا کوئل کی کوک ہو، دل کے ہر خانے میں ڈیرہ ڈالتی سی اُس تاسفانہ ماں کو دیکھا۔
’’جانے امی کو اس کی آواز سے کیا مسئلہ ہے، بھلا میرے دل سے پوچھے کوئی…‘‘
احمد کی بڑابڑاہٹ سدرہ نے سن لی اور پلکیں پٹپٹاتے رخساروں پر گلال پھیلتا ہادی ماموں نے اُس کے چہرے پر محسوس کیا تھا پھر مونچھوں تلے ہونٹ مبہم سے پھیل گئے۔
’’ابھی کون سا بوڑھا ہوگیا ہے، لوگ ساٹھ ساٹھ کے شادی کرتے ہیں۔‘‘
چھوٹی آپا ابھی تک پرانے موضوع میں الجھی تھیں۔ ’’اتنے برس پردیس لگایا، کرلیتا کوئی گوری پسند۔‘‘
دل کو چیرتی تیز لہر سے بے قرار ہوکر اُس نے چھوٹی آپا کو دیکھا تھا وہ سوئے بیلو کے تکیے تلے لوہے کی چُھری چُھپانے میں مصروف تھیں۔ غالباً اُس کی شباب کی عمر آرہی تھی۔ رات کو بار بار کروٹیں بدلتا آنکھ کُھلتی، بے چین رہتا اور آپا کا کہنا تھا اوپری چیزیں ڈراتیں ہیں، لوہے کی کوئی تیز دھار اگر پاس ہو تو چیزیں بھاگ جاتیں ہیں، ہونہ آپا اور اُن کا تضاد۔
’’آپا، وہاں کی گوریاں مذہب اغیار سے ہوتیں ہیں۔‘‘




Loading

Read Previous

پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۸

Read Next

پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۹

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!