”کوئی پریشانی نہیں ہے۔” ”تو پھر…” سالار نے فرقان کی بات کاٹ دی۔ ”تم جانتے ہو مجھے میگرین ہے۔ کبھی کبھار اس طرح ہوجاتا ہے مجھے۔” ”میں ڈاکٹر ہوں سالار!” فرقان نے سنجیدگی سے کہا۔”
“آپ نے کچھ زیادہ نہیں کرنا۔ بس اپنی زندگی کو وہیں سے شروع کرنا ہے کہ جہاں وہ امروز سے آخری ملاقات کے بعد تھم گئی تھی۔ اگر میں کہوں کہ امروز واپس آسکتا ہے
”آئی سویئر پاپا! مجھے واقعی کچھ پتا نہیں ہے۔ وہ اسے لاہور چھوڑ کر آیا تھا۔” ”یہ جھوٹ تم کسی اور سے بولنا، مجھے صرف سچ بتاؤ۔” قاسم فاروقی نے ایک بار پھر اسی تند
”ایسا ہوچکا ہے۔” ”کیا ثبوت ہے… نکاح نامہ ہے تمہارے پاس؟” وسیم نے اکھڑ لہجے میں کہا۔ ”یہاں نہیں ہے، لاہور میں ہے، میرے سامان میں۔” ”بابا! میں کل لاہور سے اس کا سامان لے
تین گھنٹے قطار میں کھڑا رہنے کے بعد میری باری آنے والی تھی مگر بڑی اماں کب سے آگے کھڑی شناختی کارڈ کا فارم وصول کرنے والی خاتون سے بحث میں مصروف تھیں ۔بڑی اماں
’’باجی چائے۔‘‘ سونیا ٹرے لئے کھڑی رہی۔ ’’لے جاؤ۔ نہیں پینی۔‘‘ ’’آپ نے ناشتہ نہیں کیا۔دوپہر کو کھانا بھی نہیں کھایا۔ شام کو لان میں بیٹھی رو رہی تھیں۔ سب ٹھیک تو ہے باجی۔‘‘ سکول
کچھ دنوں سے وہ جلال اور زینب کے رویے میں عجیب سی تبدیلی دیکھ رہی تھی۔ وہ دونوں اس سے بہت اکھڑے اکھڑے رہنے لگے تھے۔ ایک عجیب سا تناؤ تھا، جو وہ اپنے اور