دو مسافر —- احمد سعدی (مترجم:شوکت عثمان)

گرمی کی دوپہر ڈھلنے لگی تھی اور ارہر کے کھیت میں پڑتے ہوئے سائے آہستہ آہستہ لمبے ہوتے جا رہے تھے۔ اسی ڈھلتی دوپہر میں کشٹیا ضلع بورڈ کی سڑک پر ایک مسافر کہیں جا رہا تھا۔ اس نے گیروے رنگ کا تہ بند اور صدری پہن رکھی تھی۔ لمبوترے چہرے پر گھنی سفید ڈاڑھی اور ہاتھ میں اک تارا تھا۔ وہ بہت تھکا ہوا لگ رہا تھا، اس کی نگاہیں راستے پر نہیںبلکہ دور کہیں کھوئی ہوئی تھیں۔ گرمی کی تیز دھوپ میں ہر چیز جھلس کر رہ گئی تھی۔ اس جھلسے ہوئے رنگ کا حسن بیراگی کے دل کے رنگ سے مشابہ تھا شاید اسی لیے وہ اسے دیکھتا ہوا راستہ طے کر رہا تھا۔ گاہ بہ گاہ ان جانے میں اس کی انگلی اک تارے کی تار سے ٹکرا جاتی اور اس کی ٹنگ ٹنگ کی آواز دھوپ سے تپتی فضا میں ہلکی سی چیخ سن کر گونج اٹھتی مگر یہ گویا اس کی لاعلمی میں ہورہا تھا کیوں کہ مسافر کا دل تو اس وقت اک تارے کی موسیقی سے کہیں دور بھٹک رہا تھا، کسی دوسری دنیا کی سیر کررہا تھا۔ راستے میں سایہ دار درخت بھی تھے لیکن وہ ان درختوں کے سائے میں رکے بغیر چلا جا رہا تھا۔ وہاں سے تقریباً تین میل کی دوری پر ایک گاؤں تھا شاید وہی اُس کی منزل تھی۔
پہلے مسافر کے پیچھے پیچھے ایک اور مسافر بھی اسی راستے پر چل رہا تھا۔ اس کے قدم تیز تیز اٹھ رہے تھے۔ لگتا تھا، وہ آگے جاتے مسافر کے قریب پہنچنا چاہتا ہے۔ پہلے مسافر کو آواز دے کر روکا جا سکتا تھا، مگر دوسرا مسافر شاید آواز دینا نہیں چاہتا تھا۔ دوسرے مسافر کا چہرہ روکھا سوکھا سا تھا اور اس کی مونچھ اور اس کے دونوں بازوؤں کے بال سیاہ تھے۔ چہرہ چوڑا اور آنکھیں گول تھیں۔ اسے دیکھنے سے ایسا لگتا تھا جیسے وہ حکم دینے کا عادی رہا ہو، حکم کی تعمیل کا نہیں۔ راستے کی تکان دور کرنے کے لیے ہم سفر سے زیادہ بہتر کوئی چیز نہیں ہوتی شاید اسی لیے وہ تیز تیز قدم اٹھا رہا تھا۔ تیز چلنے کی وجہ سے اس کے چہرے پر تھکن کے آثار ابھر آئے تھے پھر بھی اس کی رفتار میں کمی نہیں آئی، وہ تیز تیز چلتا رہا۔ ذرا قریب پہنچ کر دوسرے مسافر نے پہلے کو آواز دی:
’’بھائی صاحب!‘‘

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
پہلے نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ دوسرے مسافر کو دیکھ کر اس کے ہونٹوں پر استقبالیہ مسکراہٹ پھیل گئی:
’’کیا آپ نے مجھے آواز دی ہے؟‘‘
’’جی ہاں۔‘‘
دوسرے مسافر نے جواب دیا۔
’’السلام علیکم۔‘‘
’’وعلیکم السلام۔‘‘
پہلے مسافر نے جواب دیا۔
’’آپ کہاں جا رہے ہیں؟‘‘
دوسرے مسافر نے پوچھا۔
’’وہ جو سامنے آبادی نظر آرہی ہے، وہیں جانا ہے مجھے۔‘‘
’’یہ تو بہت اچھی بات ہے۔‘‘
دوسرے مسافر نے کہا۔
’’میں بھی وہی جا رہا ہوں۔‘‘
’’چلیے پھر ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔‘‘
پہلے مسافر نے خوشی کا اظہار کیا۔
راہ میں ہم سفر مل جائے تو راستے کی طوالت کا خوف دل سے نکل جاتا ہے شاید یہی وجہ تھی کہ وہ دونوں دھیرے دھیرے قدم اٹھانے لگے۔ دونوں ساتھ ساتھ چل رہے تھے، مگر ڈاڑھی والے مسافر کی نگاہیں دور خلا میں کچھ ڈھونڈ رہی تھیں۔ مونچھوں والے مسافر کی نگاہیں بار بار اپنے ہم سفر کی طرف اٹھ رہی تھیں۔ گرمی کے دنوں میں دورافق پر بہت تیز روشنی دکھائی دیتی ہے۔ افق کا یہ حال ہمیشہ نظر نہیں آتا۔ دوسرا مسافر بار بار اپنے ہم سفر کی طرف دیکھ کر اندازہ لگانے کی کوشش کر رہا تھا کہ اس کی نگاہوں کی جستجو کیا ہے اور وہ دور افق پر نظر جمائے کیا دیکھ رہا ہے۔ دوسرے مسافر نے کئی بار دور افق کی طرف دیکھا، پھر پہلے مسافر کی نگاہوں کے تعاقب میں اپنی نظریں پھیر لیں۔
پہلا مسافر خاموشی سے آہستہ آہستہ قدم بڑھا رہا تھا۔
دوسرے مسافر کو اس کی خاموشی اچھی نہیں لگی۔ آپس میں باتیں ہی نہ ہوں تو ہم سفری کیسی؟ اس نے خاموشی توڑنے کے لیے بلند آواز میں پہلے مسافر سے پوچھا:
’’بھائی صاحب! آپ گانا گاتے ہیں کیا؟‘‘
پہلا مسافر محویت سے چونک اٹھا: ’’آپ نے مجھ سے کچھ کہا بھائی صاحب؟‘‘
’’جی ہاں۔‘‘
دوسرے مسافر نے جواب دیا۔
پہلا مسافر دوسرے مسافر سے مخاطب ہو کر بولا: ’’کہیے؟‘‘
’’آپ گانا گاتے ہیں کیا؟‘‘
اس نے دوبارہ پوچھا۔
’’جی ہاں۔ گانا گاتا ہوں۔‘‘
’’تو پھر کوئی گانا سنائیے نا؟‘‘
دوسرا مسافر بولا۔
’’اگر آپ کو زحمت نہ ہو۔‘‘
’’زحمت کی کیا بات ہے؟‘‘
پہلے مسافر نے کہا۔
’’سننا چاہتے ہیں تو سنیے۔‘‘
گیروے لباس والے نے اک تارا سنبھال لیا اور گانے لگا۔
میں نے دل کے دریا میں ایک عجیب تماشا دیکھا۔
جسم کے اندر ایک گھر ہے۔
اس گھر میں چور گھس آیا ہے۔
چھے آدمیوں نے مل کر نقب لگائی ہے۔
جسم کے اندر ایک باغ ہے۔
اس میں مختلف اقسام کے پھول کھلے ہیں۔
پھولوں کی خوشبو سے ساری خلقت دیوانی ہو گئی ہے۔
لیکن لالن کا دل دیوانہ نہیں ہوا۔
نغمے اور موسیقی کے آب شار سے سنسنان میدان نے ہونٹوں میں پانی بھر کر اپنی پیاس بجھالی۔ دھوپ کی حدت پرے ہٹ گئی اور سروں کے اندر ساری دنیا ملفوف ہو گئی۔ گانا کب ختم ہوا، محسوس ہی نہیں ہوا۔
دوسرے مسافر نے اس سکوت میں اپنی آواز کا پتھر پھینکا۔
’’واہ واہ، آپ تو بہت اچھا گاتے ہیں۔‘‘
’’جی!‘‘
پہلے مسافر نے مختصر جواب دیا۔
’’آپ کا نغمہ بھی خوب تھا۔‘‘
دوسرے نے تعریفی انداز میں کہا۔
’’جی! بس یہی کچھ مجھے آتا ہے۔‘‘
’’نہیں، نہیں۔ سچ مچ آپ کی آواز میں بلاکالوچ اور درد ہے۔‘‘
دوسرا مسافر بولا۔ ’’میں نے ایسا نغمہ پہلے کبھی نہیں سنا!‘‘
’’کبھی نہیں سنا؟‘‘
پہلے مسافر نے حیرت سے پوچھا۔
’’جی نہیں۔‘‘ دوسرے مسافر نے جواب دیا۔
’’بہت خوب۔‘‘ پہلا مسافر مسکرایا۔
دونوں کے درمیان مزید گفتگو نہیں ہوئی۔ وہ دونوں پھر تیزقدم بڑھانے لگے تاکہ جلد از جلد منزل پر پہنچ سکیں۔
میدانی علاقہ ختم ہو گیا اور دونوں آبادی کے قریب پہنچ گئے۔ چاروں طرف درختوں کی قطاریں تھیں اور درختوں کے درمیان مکانات کھڑے تھے۔ پختہ عمارتیں اور ٹین کے گھر دکھائی دے رہے تھے۔ کچھ لوگ گھروں سے نکل کر اپنے اپنے کام پر جا رہے تھے۔ یہ دونوں آگے بڑھتے گئے مگر کسی نے ان دونوں کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھا۔
’’چلو، اتنی دیر بعد کچھ آدمی تو نظر آئے۔‘‘
پہلا مسافر بڑبڑایا۔
دونوں ایک دوراہے پر جا کر رک گئے۔ راستے کے دونوں طرف دور تک زمین خالی تھی۔ اس کے بعد متمول لوگوں کے مکانات اور تالاب تھے۔ ایک جگہ ایک ساتھ کئی عمارتیں تھیں اور پھلوں سے لدے ہوئے درختوں کا ایک بڑا سا باغ تھا۔
اس طرف نگاہ پڑتے ہی دوسرے مسافر نے اپنے بیراگی ہم سفر کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچتے ہوئے کہا:
’’جلدی ادھر آئیے، وہ دیکھیے، وہ میرا گھر دکھائی دے رہا ہے، وہ میرا باغ ہے اور اس کے چاروں طرف جتنی زمینیں پھیلی ہوئی ہیں، وہ سب میری کاشت کی زمینیں ہیں۔ اس طرف آئیے۔ وہ جو ناریل کے پیڑوں کی لمبی قطار دکھائی دے رہی ہے نا، آپ ان پیڑوں کے ایک ناریل کا پانی پی لیں تو سات دن تک پیاس بجھ جائے۔‘‘
پہلے مسافر کو کوئی جواب دینے کا موقع نہیں ملا۔ اس کا ہاتھ دوسرے مسافر کی مٹھی میں تھا اور وہ اسے کھینچتے ہوئے اپنے ساتھ لے جا رہا تھا۔ دونوں ایک پختہ کنارے والے تالاب کے پاس جا کر رک گئے۔ تالاب کنارے ناریل کے سینکڑوں پیڑ تھے۔
دوسرے مسافر نے کہا:
’’آپ اس پیڑ کے سائے میں بیٹھ جائیے۔ میں ناریل توڑنے کا انتظام کرتا ہوں۔ یہ سب کچھ میرا ہے۔
یہ تالاب، یہ باغ باغیچہ، یہ پختہ عمارت اور وہ جو حد نظر تک پھیلی ہوئی کاشت کی زمینیں ہیں، وہ سب میری ہیں اور یہ گاؤں بھی میری ہی زمین پر آباد ہے اور وہ جو…‘‘
دوسرے مسافر کی بات ختم ہونے سے پہلے ہی بڑی بڑی مونچھوں والا ایک فربہ اندام شخص آکر ان دونوں کے درمیان کھڑا ہو گیا۔ وہ تالاب کنارے دو موٹے موٹے پیڑوں کے پیچھے کھڑا دوسرے مسافر کی باتیں سن رہا تھا۔ اس نے ان دونوں کو سر سے پاؤں تک گھور کر دیکھا پھر دوسرے مسافر کو مخاطب کرتے ہوئے بولا:
’’آپ کیا کہہ رہے تھے؟‘‘
’’میں کہہ رہا تھا کہ یہ باغ، یہ تالاب، یہ عمارت سبھی کچھ میرا ہے۔‘‘
دوسرے مسافر نے جواب دیا۔
’’آپ کا اسم شریف؟‘‘
اس آدمی نے پوچھا۔
’’سبحان جواردار۔‘‘

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

ڈھال — نازیہ خان

Read Next

جنریٹر — یاسر شاہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!