بوڑھے آدمی کا خواب — محمد جمیل اختر
بوڑھے صادق حسین کی زندگی میں خوش گوار تبدیلی آئی تھی۔ اِس سے پہلے کہ میں آپ کو اِس تبدیلی کے بارے میں کچھ بتائوں، اِس سے پہلے صادق حسین کی سابقہ زندگی کے بارے
بوڑھے صادق حسین کی زندگی میں خوش گوار تبدیلی آئی تھی۔ اِس سے پہلے کہ میں آپ کو اِس تبدیلی کے بارے میں کچھ بتائوں، اِس سے پہلے صادق حسین کی سابقہ زندگی کے بارے
رات کے دو بج رہے تھے۔ ہر طرف سناٹا چھایاہوا تھا۔ عارف سڑک کے کنارے پیدل چل رہا تھا، پوری دنیا سے بے خبر اور تنہا ۔ وہ ہر چیز کی امید کھو بیٹھا تھا۔
بیگم مہرین اپنے سٹنگ روم کے قالین پر بیٹھی ہوئی تھیں ۔ ان کے سامنے مختلف ڈیزائنرز کی exclusive rangeکے دس سوٹ رکھے ہوئے تھے۔ انھیں یہ سوٹ سلوانے کے لیے اپنے درزی کو دینے
ناشتے کی ٹرے میں نے بہت نفاست سے ’سیٹ‘ کی۔ٹوسٹ کے کنارے ویسے ہی کاٹے جیسے صاحب اور بیگم صاحبہ کو پسند تھے۔ صاحب اور بیگم صاحبہ صرف ’امپورٹڈ‘ مکھن کھانا پسند کرتے ہیں۔اس بات
دوسرے مسافر نے جواب دیا۔ وہ شخص قہقہہ لگا کر ہنسا پھر اس نے رکھائی سے پوچھا: ’’جواردار صاحب! آپ کو اپنے والد گرامی کا نام تو یاد ہو گا؟‘‘ ’’کیوں نہیں؟‘‘ دوسرے مسافر نے
وضو کرتے کرتے وہ سوچنے لگا کہ ماہرہ کیسے ہر روز فجر کے وقت اُسے جگایا کرتی تھی اور وہ کمبل منہ پر ڈالتے ہوئے سو جاتا۔ اُس نے پھر سے اپنے آپ کو چونکایا
’’پھر بھی بتانا تو چاہیے تھا۔‘‘ ’’کیا بتاتا؟‘‘ ’’وہی جو اس نے اپنی پوسٹ پر لگایا تھا۔‘‘ نجیب بدمزہ ہو گیا۔ ’’وہ تو پاگل ہے۔‘‘ ’’محبت میں یہی پرابلم ہے پہلے عقل پر حملہ کرتی
وہ دونوں ایک ریستوران میں بیٹھے ہوئے تھے۔ نجیب نے کہا۔ ’’کیا کھاؤ گی؟‘‘ جنت کو سنائی نہیں دیا۔ ’’کافی پیو گی؟‘‘ نجیب جانے کہاں سے بول رہا تھا۔ جنت کے کانوں میں سائیں سائیں