وضو کرتے کرتے وہ سوچنے لگا کہ ماہرہ کیسے ہر روز فجر کے وقت اُسے جگایا کرتی تھی اور وہ کمبل منہ پر ڈالتے ہوئے سو جاتا۔ اُس نے پھر سے اپنے آپ کو چونکایا
’’پھر بھی بتانا تو چاہیے تھا۔‘‘ ’’کیا بتاتا؟‘‘ ’’وہی جو اس نے اپنی پوسٹ پر لگایا تھا۔‘‘ نجیب بدمزہ ہو گیا۔ ’’وہ تو پاگل ہے۔‘‘ ’’محبت میں یہی پرابلم ہے پہلے عقل پر حملہ کرتی
وہ دونوں ایک ریستوران میں بیٹھے ہوئے تھے۔ نجیب نے کہا۔ ’’کیا کھاؤ گی؟‘‘ جنت کو سنائی نہیں دیا۔ ’’کافی پیو گی؟‘‘ نجیب جانے کہاں سے بول رہا تھا۔ جنت کے کانوں میں سائیں سائیں
’’عورت کا کوئی ذاتی گھر کیوں نہیں ہوتا؟مجھے طلاق سے بڑا ڈر لگتا ہے۔میں کہاں جاؤں گی؟‘‘ پینو نے سسکتے سسکتے سوال کیا۔ ’’ عورت کی تو ہستی اپنی نہیں ہوتی، تم گھر کی بات
بوا بیگم کی سرمئی، گدلی ، بوڑھی پتلیاں ، موتیا کے قبضہ مافیا کے آگے سرنڈر کرچکی تھیں، لیکن ناامیدی سے ہار ماننے کو تیار نہ تھیں۔ وہ گھنٹوں انجان منزلوں کی سمت جاتی پٹڑیوں
چلنے کو تو شاید وہ دونوں ہمیشہ کے لیے یونہی چلتے رہتے، لیکن راستے ختم نہ بھی ہوں، ہمت جواب دے جاتی ہے اور انسان کا وجود، اس کے جذبات، اس کی امنگیں اور خواب