زلیخا اور حسن صحن میں بیٹھے تھے۔ حسن نے زلیخا کو صدر صاحب سے ملاقات کا احوال لفظ بہ لفظ سنایا تھا کچھ نہ چھپایا تھا۔ اور اب زلیخا گم صم بیٹھی تھی اور حسن
کیا موت کا جزیرہ، واقعی موت کا جزیرہ ہی تھا؟ کیوں اس خطرناک مجرم کا نام سننے والوں پر لرزہ طاری کر دیتا تھا؟ بیگم جمشید کیوں اتنے آرام سے اتنے خطرناک مجرم کو ناشتا
میں کون ہوں….؟ ان کے دروازے کی گھنٹی بج اُٹھی۔ انسپکٹر جمشید اس وقت گھر میں نہیں تھے۔ محمود فوراً اُٹھا اور دروازے کی طرف چل پڑا۔ دروازہ کھولنے سے پہلے اس نے کہا: ”کون
-1 کیا ماورائی کردار ”ڈریکولا“ واقعی انسانی آبادیوں میں داخل ہوکر انسانی خون چوسنا شروع ہوگئے تھے؟ -2 کیا انسپکٹر جمشید بھی ڈریکولا بن گئے تھے؟ یا فرزانہ نے یہ بات کسی اور
پیچھا کرنے والے پروفیسر داﺅد اور ان کی بیٹی شائستہ ایک دکان سے نکلے۔ ان کے ہاتھوں میں خریدی ہوئی چیزوں کے بنڈل تھے۔ سڑک کے کنارے ان کی نیلے رنگ کی کار کھڑی تھی۔
-1شہر سے پرے، ویرانے میں پراسرار مکان کی کیا حقیقت تھی؟ -2خونی سائنسدان آخر تھا کون اور اس کا ارادہ کیا تھا؟ -3موت کے ناچ کی حقیقت کیا تھی اور کسی کو مارنے سے