خونی جال

اشتیاق احمد

اشتیاق احمد

اشتیاق احمد بچوں کے جاسوسی ناولوں کا ایک بے حد بڑا نام ہے، ان کے لکھے گئے ناول بچوں اور بڑوں دونوں میں یکساں مقبول تھے۔ انہوں نے آٹھ سو سے زائد ناول لکھے جو اردو زبان اور کسی اور زبان میں کسی مصنف کے ہاتھوں لکھے گئے ناولوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔انہوں نے اپنا تحریری سفر بچوں کے لئے کہانیاں لکھنے سے آغاز کیااور اپنا پہلا ناول ١٩٧٣ء میں لکھا۔ ان کی مشہور ترین سیریز انسپکٹر جمشید سیریز ہے ، اس کے علاوہ انہوں نے انسپکٹر کامران سیریز اور شوکی برادرز کے ناولز بھی لکھے لیکن انسپکٹر جمشید سیریز کو قارئین میں بے حد پذیرائی ملی۔
انسپکٹر جمشید سیریز ایک جاسوس انسپکٹر جمشید اور ان کے تین بچوں محمود، فاروق اور فرزانہ کے گرد
اشتیاق احمد کا انتقال ٢١٠٦ء میں ہوا اور انتقال سے کچھ عرصہ پہلے ہی ان کا آخری ناول '' عمران کی واپسی'' شائع ہوا تھا جو لوگوں میں بے حد پسند کیا گیا تھا۔

خونی جال

ان کے دروازے کی گھنٹی بج اُٹھی۔ انسپکٹر جمشید اس وقت گھر میں نہیں تھے۔ محمود فوراً اُٹھا اور دروازے کی طرف چل پڑا۔ دروازہ کھولنے سے پہلے اس نے کہا:

کون صاحب؟

ایک ضرورت مند…. ایک پریشان حال…. ایک مصیبت زدہ۔

کیا باہر تین آدمی موجود ہیں؟

محمود نے حیران ہوکر پوچھا۔

نہیں! یہ تینوں باتیں ایک انسان میں جمع ہوگئی ہیں۔

اس وقت تک محمود ڈورمیجک آئی (دروازے میں لگی دوربین) سے باہر کھڑے دشمن کا جائزہ لے چکا تھا۔ وہ واقعی پریشان نظر آرہا تھا۔ آخر اس نے اللہ کا نام لے کر دروازہ کھول دیا۔

جی فرمائیے!“

میں کافی دور سے پیدل چلا آرہا ہوں اور بہت تھک گیا ہوں کیا آپ مجھے بیٹھنے کے لیے بھی نہیں کہیں گے؟

ضرور! کیوں نہیں میں دروازہ کھولتا ہوں۔

محمود نے اس کے لیے ڈرائنگ روم کا دروازہ کھولا ہی تھا کہ فائر کی آواز سنائی دی، ساتھ ہی ایک چیخ گونجی۔ وہ گھبرا گئے۔ محمود نے خود کو نیچے گرا لیا کیوں کہ گولی اندر بھی آسکتی تھی۔ دوسری طرف سے فاروق دوڑ کر ڈرائنگ روم میں آگیا۔ بیگم جمشید ڈرائنگ روم کے دروازے سے آلگیں۔ محمود نے سر تھوڑا سا اوپر اُٹھا کر باہر دیکھنے کی کوشش کی۔ اسے اجنبی زمین پر پڑا نظر آیا۔ وہ بالکل ساکت تھا۔

ارے باپ رے! کہیں یہ صاحب مارے تو نہیں گئے۔

وہ بھی ہمارے دروازے پر۔ جب کہ یہ ہم سے مدد مانگنے آیا تھا۔

افسوس!“

اب انہوں نے اردگرد کا جائزہ لیا۔ حملہ آور دور دور تک نظر نہیں آرہا تھا۔ اچھی طرح اطمینان کرلینے کے بعد دونوں باہر نکلے۔ انہیں یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ اجنبی کے آس پاس کہیں خون نظر نہیں آرہا تھا۔ محمود نے جھک کر اسے چھوا تو اس کی آنکھیں کھل گئیں۔

کک…. کیا…. میں مرچکا ہوں؟

پپ…. پتا نہیں!“ فاروق بے چارگی کے عالم میں بولا۔

آپ ذرا اپنے جسم کا جائزہ لے لیں۔ گولی صاحبہ کہاں لگی ہیں، لگی بھی ہیں یا نہیں۔

اس نے کروٹ بدلی۔ یہ دیکھ کر انہوں نے اطمینان کا سانس لیا کہ اسے گولی نہیں لگی تھی۔

اللہ کا شکر ادا کریں میاں! آپ بال بال بچے۔

یا اللہ تیرا شکر ہے۔

اب آپ اُٹھ کر اندر آجائیں تاکہ ہم دروازہ بند کرکے آپ کی بات سن سکیں۔محمود جلدی سے بولا۔

اور گولی؟فاروق نے برا سامنہ بنایا۔

گولی کیا؟

وہ گولی کہاں گئی جو فائر کی گئی تھی؟

اس کے لیے ہمیں بیرونی دیوار کا جائزہ لینا ہوگا۔محمود نے سرہلایا۔

تب پھر پہلے جائزہ کیوں نہ لے لیا جائے۔

ہوں! ٹھیک ہے!“ محمود نے کہا۔ پھر اجنبی سے بولا:

آپ ایک دو منٹ انتظار کریں۔

کک…. کہیں حملہ آور دوبارہ نہ آجائے۔اس نے گھبرا کر کہا۔

آپ فکر نہ کریں اور دروازے کے سامنے سے ہٹ کر بیٹھ جائیں۔

یہ کہتے ہوئے وہ باہر آگئے۔ انہوں نے گھر کی دیوار کو نیچے سے اوپر تک اور دائیں سے بائیں تک غور سے دیکھا لیکن کہیں گولی کا نشان نظر نہ آیا۔ زمین پر کہیں گولی بھی نظر نہیں آئی۔ آخر وہ اندر آگئے۔

باہر کوئی گولی نہیں ہے، نہ دیوار پر نشان ہے۔محمود نے دروازہ اندر سے بند کرتے ہوئے کہا۔

بھلا میں اس سلسلے میں کیا کہہ سکتا ہوں؟

لیکن آپ اس قدر زور سے کیوں چلائے تھے جب کہ گولی تو آپ کو لگی ہی نہیں تھی؟

میں یہی سمجھا تھا کہ گولی مجھے لگ گئی ہے۔ مارے خوف کے چیخ نکل گئی۔

اچھا خیر! یہ بتائیں آپ ہمارے پاس کس لیے آئے ہیں؟ آپ کو کیا پریشانی ہے؟محمود نے قدرے منہ بنا کر کہا۔

بلکہ اس سے بھی پہلے آپ یہ بتائیں کہ آپ ہیں کون؟فاروق بولا۔

یہی تو سب سے بڑا مسئلہ ہے۔وہ منمنایا۔

جی! کیا مطلب؟ کون سا مسئلہ سب سے بڑا ہے؟فاروق چونکا۔

یہ کہ…. میں کون ہوں؟اس نے پریشانی کے عالم میں کہا۔

یہ کیا بات ہوئی؟

مجھے نہیں معلوم کہ میں کون ہوں؟

یہ کیا بات کہہ رہے ہیں آپ؟

محمود جھلا اٹھا۔

آپ اس بات کو یوں سمجھ لیں کہ میں اپنی یادداشت کھو بیٹھا ہوں لیکن مکمل طور پر نہیں، ایک بڑی حد تک۔ یا یوں کہہ لیں کہ میری یادداشت کا زیادہ تر حصہ گم ہوچکا ہے۔ میں نہیں جانتا میں کون ہوں، کیا ہوں، میرا گھر کہاں ہے، میرے ماں باپ کون ہیں؟

یہ معلوم کرنا کچھ بھی مشکل نہیں۔ کیا آپ کو کسی نے مشورہ نہیں دیا کہ اخبارات میں اشتہارات دے دیئے جائیں۔ اب جس گھرانے کے آپ فرد ہیں، وہ اخبارات میں اشتہارات دیکھ کر خود آپ تک پہنچ جائیں گے۔ اول تو وہ خود آپ کی گم شدگی کے اشتہارات شائع کرارہے ہوں گے۔محمود روانی کے عالم میں کہتا چلا گیا۔ جواب میں اس نے ایک لمبی سرد آہ بھری، پھر بولا:

پہلی بات، اخبارات میں اشتہارات مفت نہیں چھپتے۔ کوئی کہاں تک اس سلسلے میں میرے لیے خرچ کرسکتا ہے۔ پھر بھی ایک دو نیک دل آدمیوں نے میرے بارے میں اشتہارات چھپوائے ہیں۔ انہوں نے اخبارات چیک بھی کئے ہیں کہ میری گُم شدگی کا اشتہار میرے گھر والوں شائع کرایا ہوگا لیکن ایسا نہیں ہے۔یہاں تک کہہ کر وہ خاموش ہوگیا۔

کیا نہیں ہے؟

میرے بارے میں کسی نے کوئی اشتہار نہیں چھپوایا۔ میری طرف سے جو اشتہار چھپوائے گئے، ان کے بارے میں کسی نے کوئی رابطہ نہیں کیا۔

تب پھر آپ اس دنیا میں ہوں گے ہی اکیلے۔ ایسے میں آپ کی یادداشت گم ہوگئی۔فاروق نے خیال ظاہر کیا۔

جن لوگوں نے مجھ سے ہم دردی کی ان کا بھی یہی خیال ہے۔

خیر! سوال یہ ہے کہ آپ ہم تک کیسے آگئے؟

کسی نے آپ لوگوں کے پاس آنے کا مشورہ دیا تھا۔ اس نے آپ کا پتا بھی لکھ کر دیا تھا۔ سو میں پوچھتے پوچھتے آگیا۔

اس صورت میں کسی کو آپ پر فائر کرنے کی کیا ضرورت تھی؟

بھلا میں کیا بتاسکتا ہوں، میری تو یادداشت کھوگئی ہے۔

اوہ ہاں! یہ بھی ہے، اچھا یہ بتائیں کیا اس سے پہلے بھی آپ پر حملہ ہوا ہے؟

نہیں! بالکل کوئی حملہ نہیں ہوا۔اس نے فوراً کہا۔

آپ تو ہمارے لیے عجیب و غریب کیس ثابت ہورہے ہیں۔محمود نے گھبرا کر کہا۔

مجھے نہیں معلوم میں کیا ہوں۔ کیا ثابت ہورہا ہوں اور کیا نہیں۔ میرے بارے میں میرے پاس کچھ کاغذات ہیں۔ اگر آپ دیکھنا چاہیں تو دیکھ لیں۔

ہاں ضرور! کیوں نہیں۔

اس نے جیب سے کاغذات نکال کر دکھا دیئے۔ ان میں سے ایک سرٹیفکیٹ تو کسی ڈاکٹر سر ور باجوہ کی طرف سے تھا۔ اس میں لکھا تھا:

مسٹر نامعلوم واقعی اپنی یادداشت کھو بیٹھے ہیں لیکن مکمل طور پر نہیں۔ ان کی یادداشت کا ایک حصہ بالکل درست ہے اور ایک حصہ بالکل ختم ہے اور ایسا کسی دماغی چوٹ کی وجہ سے ہے۔ میرے پاس دو رحم دل انسان اسے لے کر آئے تھے۔ وہ اپنا اطمینان کرنا چاہتے تھے اور اس نوجوان کی مدد بھی کرنا چاہتے تھے۔ لیکن یہ کیس ناقابلِ علاج ہے۔ ہمارے پاس اس کا کوئی علاج نہیں۔ اس لیے میں نے یہ سرٹیفکیٹ لکھ دیا ہے۔ ان حضرات نے مجھے میری فیس دینے کی کوشش بھی کی تھی لیکن میں نے نہیں لی۔ نوجوان کے لیے اپنے کلینک کا ایک کمرہ وقف کردیا ہے۔ یہ وہاں رہ سکتا ہے۔ یہ اگر کہیں گم ہو جائے اور میرے کلینک کا راستہ نہ پاسکے تو مہربانی فرما کر اسے 80 سر فروش روڈ پر ڈاکٹر سرور باجوہ کے کلینک پر پہنچا دیا جائے۔

انہوں نے ان الفاظ کو غور سے پڑھا اور پھر دوبارہ بھی پڑھا۔ اس کے بعد اس کی طرف مڑے۔

اور ہمارے پاس آنے کا مشورہ کس نے دیا آپ کو؟

ڈاکٹر سرور صاحب ہی نے۔ ان کا خیال ہے کہ آپ لوگ کسی نہ کسی طرح میرا گھر تلاش کردیں گے۔

سوال یہ ہے کہ آپ کے گھر والوں نے آپ کو کیوں تلاش نہیں کیا؟

میری یادداشت درست ہوتی تو میں ضرور اس سوال کا جواب دے سکتا تھا۔ لیکن اس صورت میں آپ خود بتائیں کہ کیا بتاو¿ں؟

ہوں! آپ بھی ٹھیک کہتے ہیں۔ خیر پہلا کام تو ہم یہ کریں گے کہ کل تمام اخبارات میں آپ کے بارے میں نمایاں اشتہار شائع کرائیں گے۔محمود نے کہا۔

لیکن اس طرح تو بہت زیادہ خرچ ہوگا۔

اس کی آپ پروانہ کریں۔ اس قسم کے کام ہم کرتے رہتے ہیں اور کر لیں گے۔

اور دوسرا کام؟

ہم آپ کو ڈاکٹر سر ورباجوہ کے کلینک پر چھوڑ آتے ہیں۔

اس کا مطلب ہے بس آپ میرے لیے اتنا ہی کریں گے؟اس کے لہجے میں مایوسی تھی۔

نہیں! اس کے علاوہ بھی ہم بہت کچھ کریں گے۔ آپ سے برابر رابطہ رکھیں گے۔ آئیے چلیں۔

وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ انہوں نے اسے اپنی کار میں بٹھایا اور لے چلے۔ انہوں نے سر فروش روڈ کے بارے میں لوگوں سے پوچھا لیکن کوئی اس سڑک کے بارے میں نہ بتاسکا۔ جب وہ پوچھتے پوچھتے تھک گئے تو انہوں نے میونسپل کارپوریشن کے دفتر فون کیا۔ اپنا تعارف کرانے کے لیے انہوں نے پوچھا:

مہربانی فرما کر سرفروش روڑ کے بارے میں بتادیں۔ یہ سڑک کہاں ہے؟

جی نہیں! شہر میں اس نام کی کوئی سڑک نہیں ہے۔

کیا؟ کیا آپ یہ بات پورے یقین سے کہہ رہے ہیں؟

ہاں! کیوں نہیں۔

اوہ…. اچھا…. شکریہ!“ مارے حیرت کے محمود نے کہا۔ فاروق کو یہ بات بتاتے ہوئے اس نے ڈاکٹر فاضل کے نمبر ملائے اور بولا:

انکل! ڈاکٹر سرور باجوہ صاحب کا کلینک کہاں ہے؟

میں اس نام کے کسی ڈاکٹر کو نہیں جانتا۔

تو ذرا معلوم کرکے بتادیں یا ڈاکٹر صاحبان کی ڈائریکٹری میں چیک کرکے بتادیں۔

اچھی بات ہے۔ چند منٹ تک فون کرتا ہوں۔

پھر ان کا فون موصول ہوا، وہ کہہ رہے تھے:

اس بات کی تصدیق ہوگئی ہے کہ سرور باجوہ نام کا کوئی ڈاکٹر شہر میں نہیں ہے۔

اوہ…. اوہ…. اچھا شکریہ!“ یہ کہہ کر محمود نے فون بند کر دیا۔

اب دونوں اجنبی کی بری طرح گھوررہے تھے۔ ایسے میں محمود نے کہا:

کیا آپ کو لکھنا آتا ہے؟

ہاں! لکھ پڑھ لیتا ہوں۔

میں چند جملے لکھواتا ہوں، لکھ کر دکھائیں۔ یہ کاغذ قلم لے لیں۔

جی اچھا!“

محمود نے اسے جملے لکھوائے، وہ جلدی جلدی لکھتا چلا گیا۔ کہیں بھی نہ اٹکا۔ اب دونوں نے اس کی تحریر ڈاکٹر سر ورباجوہ والی تحریر سے ملا کر دیکھی۔ دونوں تحریروں میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔

اور اس کا مطلب ہے یہ تحریر کسی نے انہیں لکھ کر دی ہے۔ یہ کیس کم از کم ہمارے بس کا نہیں۔ آو¿ گھر چلیں، ابا جان آچکے ہوں گے۔

وہ گھر پہنچے دروازے کی گھنٹی بجائی تو دروازہ انسپکٹر جمشید نے کھولا۔ جوں ہی ان کی نظر نوجوان پر پڑی وہ بری طرح چونکے۔

٭….٭….٭

یہ…. یہ کیا…. آپ انہیں دیکھ حیران رہ گئے۔ گویا آپ انہیں جانتے ہیں؟

ہاں! کیوں نہیں۔ یہ تو میرے ایک پرانے دوست نواب کرامت جاہ کے بیٹے ہیں۔ یہ یہاں کیسے پہنچ گئے؟

نواب کرامت جاہ؟ میرا خیال ہے ہم نے آپ کے منہ سے ان کا ذکر کئی بار سنا ہے۔ لیکن ہمیں کبھی ان کے ہاں جانے کا اتفاق نہیں ہوا۔

وہ اس لیے کہ ان کا شہر نور آباد ملک کے ایک سرے پر واقع ہے اور تم لوگوں کے ساتھ کبھی اس شہر کا پروگرام نہیں بنا۔ البتہ مجھے وہاں جانے کا اتفاق کئی بار ہوچکا ہے اور میں جب بھی گیا ہوں ان سے ملے بغیر نہیں آیا اور یہ حضرت انہی کے بیٹے ہیں۔ کیوں فواد جاہ میں ٹھیک کہہ رہا ہوں؟

جج…. جی…. مم…. میرا نام فواد جاہ ہے!“ اس نے مارے حیرت کے کہا۔

کک…. کیا مطلب…. یہ…. یہ کیا معاملہ ہے بھئی؟اب تو انسپکٹر جمشید بھی حیران رہ گئے۔

آئیے! صحن میں چائے کے دوران آپ کو ان کی کہانی سناتے ہیں۔محمود مسکرایا۔

ساری کہانی سن کر انسپکٹر جمشید کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔ انہوں نے نواب کرامت کے نمبر اپنی نوٹ بک میں دیکھ کر ڈائل کئے ان کی آواز سنائی دی تو وہ بولے:

انسپکٹر جمشید بات کررہا ہوں نواب صاحب!“

آج میری یاد کیسے آگئی؟نواب صاحب ہنس کر بولے۔

ان کی ہنسی کی آواز سن کر وہ اور زیادہ حیران ہوئے۔ آخر بولے:

ایک سلسلے میں آگئی…. آپ کے ہاں ہر طرح خیریت ہے نا؟

ہاں بالکل! اللہ کا شکر ہے۔

آپ کے فرزند فواد جاہ کا کیا حال ہے؟

اللہ کا شکر ہے۔

نواب صاحب ادھر ایک بہت ہی عجیب واقعہ پیش آگیا ہے۔

اللہ اپنا رحم فرمائے۔ خیر تو ہے؟

ہر طرح خیریت ہے۔ لیکن نہیں، ایک اور بات بھی ہے۔

اور وہ کیا؟نواب صاحب جلدی سے بولے۔

یہاں میرے سامنے اس وقت ایک عدد فواد جاہ اور موجود ہیں۔

کک…. کیا مطلب؟اُدھر سے چیخنے کے انداز میں کہا گیا۔

میرا یہ مطلب نہیں کہ یہاں جو فواد موجود ہے وہ اپنا نام فواد جاہ بتاتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ وہ آپ کا بیٹا ہے۔ نہیں، ایسی بات نہیں، بلکہ یہاں جو صاحب موجود ہیں وہ بالکل آپ کے بیٹے کی شکل و صورت کے ہیں۔ ہوسکتا ہے دونوں کو ساتھ بٹھا کر جائزہ لیا جائے تو کوئی فرق نظر آجائے۔

میں نہیں سمجھ سکا یہ کیا چکر ہے؟

آپ کے پاس جو آپ کا بیٹا موجود ہے اس کی کسی حرکت سے آپ کو یہ تو محسوس نہیں ہوا کہ کہیں وہ بدل تو نہیں گیا؟

حد ہوگئی! کیسی باتیں کررہے ہیں انسپکٹر جمشید میرے دوست!“

اچھی بات ہے۔ میرا خیال ہے ہمیں ان صاحب کے ساتھ یہاں آنا پڑے گا۔ ویسے کیا آپ کسی ڈاکٹر سر ورباجوہ صاحب کو جانتے ہیں؟

سرورباجوہ! نہیں، میں اس نام کے کسی ڈاکٹر کو نہیں جانتا نہ یہ نام سنا ہوا لگتا ہے۔

اچھی بات ہے ہمیں کوئی جہاز مل گیا تو آج ہی اس کے ذریعے آپ کے ہاں پہنچ جائیں گے۔ ورنہ پھر کل پر بات جائے گی۔

اچھی بات ہے۔ میں انتظار کروں گا۔ لیکن ساتھ ہی الجھن محسوس کررہا ہوں۔

پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ اللہ مہربانی فرمائیں گے۔

اسی شام وہ نور آباد پہنچ گئے۔ نواب صاحب نے گرم جوشی سے ان کا استقبال کیا…. ساتھ ہی ان کے بیٹے فواد جاہ کھڑے نظر آئے۔ ان پر نظر ڈالتے ہی انہوں نے صاف محسوس کرلیا کہ دونوں کی شکل و صورت بہت حد تک ملتی جلتی ضرور ہے لیکن بالکل ایک نہیں۔ نواب صاحب نے بھی یہ بات فوراً جان لی۔ ایسے میں انسپکٹر جمشید نے کہا:

چلو شکر ہے۔ یہ مسئلہ تو طے ہوا ان صاحب سے آپ کا کوئی تعلق نہیں۔ ان کا راز تو ہم تلاش کرہی لیں گے۔

دوسرے دن صبح سویرے وہ نوجوان کے ساتھ واپس اپنے شہر پہنچ گئے۔

میرا خیال ہے ہمیں ان کا کوئی نام تجویز کر لینا چاہیے۔ کیوں کہ ابھی یہ ہمارے ساتھ ہی رہیں گے۔ جب تک کہ ہم ان کے بارے میں کچھ معلوم نہیں کرلیتے۔ کیا خیال ہے؟

ٹھیک ہے۔ آپ ان کے لیے کیا نام پسند کرتے ہیں؟

ساجد عبداللہ۔

ٹھیک ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے یہ نام آپ کے لیے مناسب رہے گا؟

میں کیا کہہ سکتا ہوں۔ آپ جس نام سے بھی پکاریں۔اس نے بغیر کسی احساس کے کہا۔

اب ہم ذرا اخباری مہم شروع کریں گے۔ کل کے اخبارات میں آپ کی کہانی شائع کراتے ہیں۔ شاید اس طرح کوئی بات سامنے آجائے۔

ٹھیک ہے۔انہوں نے ایک ساتھ کہا۔

دوسرے دن کے اخبارات میں ساجد عبداللہ کے بارے میں مکمل تفصیل شائع ہوئی تھی۔ وہ تمام دن فون کا انتظار کرتے رہے۔ اس بارے میں انہیں کوئی فون نہ ملا۔ اب انہیں بہت پریشانی محسوس ہوئی۔ کیوں کہ اس طرح تو اس نوجوان کا مسئلہ حل نہیں ہوسکتا تھا۔ تاہم دوسرے دن انہیں ایک عجیب فون ملا۔ کوئی ان سے کہہ رہا تھا:

آپ انسپکٹر جمشید ہیں؟

جی ہاں! فرمائیے۔

اخبارات میں آپ کے ذریعے سے ایک نوجوان کی خبر شائع ہوئی ہے۔

ہاں ہاں! کیا آپ اس بارے میں کچھ جانتے ہیں؟انسپکٹر جمشید جلدی سے بولے۔

مم…. میں…. میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔ کس وقت آسکتا ہوں؟

آپ آج شام ساڑھے پانچ بجے میرے گھر آجائیں یا پھر میرے دفتر آسکتے ہیں، صبح نو بجے سے پانچ بجے تک۔

نہیں! گھر میں ملاقات کرنا چاہتا ہوں۔

ٹھیک ہے۔ لیکن آپ کچھ بتائیں تو سہی۔

جی بس شام کو ایک بار ہی بتاو¿ں گا۔

اچھی بات ہے۔

یہ خبر انہوں نے سب کو سنائی اور دفتر چلے گئے۔ شام کو ساڑھے پانچ ان کے دروازے کی گھنٹی بجی…. وہ سمجھ گئے کہ آنے والا ضرور وہی شخص ہے جس نے فون پر بات کی ہے۔ کیوں کہ اسے ساڑھے پانچ ہی کا وقت بتایا گیا تھا۔

محمود! دروازہ کھول دو اور نوجوان کے اندر لے آو¿۔ میرا خیال ہے کوئی بہت عجیب بات پیش آنے والی ہے۔انہوں نے جلدی جلدی کہا۔

تو کیا ہم ہوشیار ہوجائیں؟

خطر والی تو شاید کوئی بات نہیں ہے۔

محمود نے اٹھ کر دروازہ کھول دیا۔ باہر ایک خوب صورت سا نوجوان کھڑا نظر آیا۔ اس کی پیشانی پر الجھن صاف نظر آرہی تھی۔

انسپکٹر جمشید صاحب؟

آئیے!“

وہ اسے ڈرائنگ روم میں لے آیا۔ اب سب اس کے پاس آبیٹھے۔ انسپکٹر جمشید نے اس سے مصافحہ کرنے کے بعد کہا:

فرمائیے! آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟

اخبارات میں شائع ہونے والی کہانی نے مجھے آپ سے ملنے پر مجبور کردیا۔

ہوں! اچھا!“ ان کے منہ سے نکلا۔

میرا معاملہ بھی بالکل یہی ہے۔

کیا؟وہ چلائے۔

جی ہاں! میں اپنی یادداشت کھو بیٹھا ہوں۔ مجھے کچھ معلوم نہیں کہ میں کون ہوں؟ کس کا بیٹا ہوں؟ میرا گھر کہاں ہے؟ مجھے کچھ بھی تو معلوم نہیں۔

اوہ…. اوہ!“ ان کے منہ سے مارے حیرت کے نکلا۔

انسپکٹر جمشید چند لمحے تک گہری سوچ میں ڈوبے رہے۔ آخر بولے:

آپ دونوں ایک دوسرے کو پہچانتے ہیں؟

انہوں نے ایک دوسرے کو چند لمحے تک غور سے دیکھا، پھر ساجد عبداللہ نے کہا:

نہیں…. میں انہیں نہیں جانتا۔

اور میں بھی انہیں نہیں جانتا۔

جان بھی کیسے سکتے ہیں جب آپ دونوں کی یادداشت ہی کام نہیں کررہی۔ خیر آپ اپنے بارے میں کیا بتاسکتے ہیں؟

میں اس وقت ایک ایسے شخص کے پاس رہ رہا ہوں جس نے مجھے رہنے کے لیے ایک کمرہ دے رکھا ہے۔ میرے بارے میں اس نے ایک دوبار اخبارات میں اشتہارات بھی شائع کرائے ہیں۔ انہوں نے مجھے ایک رقعہ بھی لکھ دے رکھا ہے تاکہ اگر میں کہیں اِدھر اُدھر نکل جاو¿ں…. تو کوئی شریف انسان مجھے وہاں تک پہنچا دے ورنہ میرے بارے میں بھی میرے کسی رشتے دارنے اشتہار نہیں دیا۔ مطلب یہ کہ میرا کیس ان سے بالکل ملتا جلتا ہے۔ اسی لیے میں نے سوچا کہ کیوں نہ آپ سے مل لیا جائے۔

ہوں! ٹھیک ہے۔ میں سمجھ گیا۔ آپ وہ تحریر دکھائیں تاکہ ہم ان صاحب سے مل کر آپ کے بارے میں مزید معلوم کرسکیں اور آپ کو ان کے پاس پہنچا دیں۔

شکریہ! آپ بہت اچھے ہیں۔

یہ کہہ کر اس نے جیب میں ہاتھ ڈالا۔ اس کے ہاتھ میں ایک لفافہ نظر آیا۔ اس میں سے کاغذ نکال کر اس نے ان کی طرف بڑھادیا۔ پھر جوں ہی انہوں نے کاغذ کھول کر اس پر لکھی تحریر پر نظریں دوڑائیں، مارے حیرت کے ان کی آنکھیں پھیل گئیں۔

٭….٭….٭

کیا ہوا ابا جان؟ کیا لکھا ہے اس پر؟وہ بول اٹھے۔

وہی جو ساجد عبداللہ والے رقعے پر لکھا تھا۔انسپکٹر جمشید کھوئے کھوئے انداز میں بولے۔

کیا مطلب!“ مارے حیرت کے ان کی آنکھیں پھیل گئیں۔

ہاں! اس میں لکھا ہے کہ اگر یہ نوجوان کہیں گم ہوجائے تو اسے سرفروش روڈ ڈاکٹر سرور باجوہ کے کلینک پر پہنچا دیں۔ یہ نوجوان اپنی یادداشت کھو بیٹھا ہے۔

نن…. نہیں…. نہیں!“ غیر ارادی طور پر وہ بول اٹھے۔

اور شہر میں نہ اس نام کی سڑک ہے، نہ اس نام کا ڈاکٹر تب پھر یہ چکر کیا ہے؟

عین اسی لمحے کی گھنٹی بجی۔ انہوں نے ریسیور اٹھایا تو دوسری طرف سے آواز آئی:

روزنامہملک وملتسے بات کررہا ہوں۔ ہمارے دفتر میں کسی نا معلوم آدمی نے فون کیا ہے۔ اس نے فون پر کہا ہے کہ شہر میں یادداشت گم ہونے کی وبا پھیل گئی ہے۔ اس کا علاج صرف اور صرف ڈاکٹر سرور باجوہ کے پاس ہے۔ جو شخص بھی علاج کروانا چاہے، وہ آپ کے اخبارات میں اپنا نام پتا شائع کروا دے۔ ڈاکٹر سرور باجوہ خود اس سے رابطہ کرکے ملاقات کی جگہ بتادیں گے اور علاج کردیں گے۔ ڈاکٹر سرور باجوہ گم نامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ شہرت اور ہجوم سے گھبراتے ہیں۔ اس لیے انہوں نے یہ طریقہ ایجاد کیا ہے۔ اگر آپ کو ایسی کسی بیماری کا پتا نہیں تو انسپکٹر جمشید سے معلوم کرسکتے ہیں۔ وہ تصدیق کردیں گے۔ اسی لیے ہم نے آپ کو فون کیا ہے۔ کیا آپ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں؟

ایسے دونوجوان میرے پاس آئے ضرور ہیں جن کا کہنا یہ ہے کہ ان کی یادداشت گم ہوگئی ہے۔ میرا خیال ہے۔ یہ کوئی خوفناک قسم کا چکر ہے۔

شکریہ جناب! بس ہمیں یہی معلوم کرنا تھا۔ان الفاظ کے ساتھ ہی فون بند کردیا گیا۔

اس قسم کے کیسوں سے ہمیں پہلے بھی سابقہ پڑچکا ہے لہٰذا یہ کوئی پریشانی کی بات نہیں۔ ہم اس شخص کا سراغ بہت آسانی سے لگالیں گے ان شاءاللہ۔انسپکٹر جمشید نے ریسیور رکھتے ہوئے کہا:

آپ کا مطلب ہے ڈاکٹر سر ور باجوہ کا؟

ہاں! اور کیا، ظاہر ہے اس سارے چکر کے پیچھے اسی کا ہاتھ ہے اور یہ سب دولت سمیٹنے کا چکر ہے۔ پہلے کسی دوا کے ذریعے یادداشت غائب کرنا اور پھر اس دوا کا اثر کسی اور دوا کے ذریعے ختم کرنا۔ آسان سا نسخہ ہے لیکن دولت کمانے کا ایک گھٹیا طریقہ۔انہوں نے برا سامنہ بنایا۔

لیکن اب ہم ان دونوں حضرات کا کیا کریں؟

انہیں سرکاری مہمان خانے میں رکھا جائے گا۔ میں اکرام کو ہدایات دے دیتا ہوں۔

آپ کا مطلب ہے حوالات میں؟

نہیں! ان کا کوئی جرم ہمیں اب تک معلوم نہیں۔ پھر بھلا ہم انہیں حوالات میں کیسے رکھ سکتے ہیں؟

اس میں ایک اُلجھن ہے۔ ان کے گھر والوں نے ان کی گم شدگی کا اشتہار کیوں نہیں دیا؟ کسی پولیس اسٹیشن میں رپورٹ کیوں درج نہیں کروائی؟محمود بولا۔

ہاں یہ باتیں میرے ذہن میں ہیں۔

انہوں نے کہا اور اکرام کو فون کرنے لگے۔ جلد ہی وہ آکر ان دونوں کو لے گیا۔ پھر دوسرے دن اخبارملک وملتمیں وہ ایک خبر دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے۔ خبر کی سرخی تھی:

شہر میں یادداشت گم ہونے کی وبا پھیل گئی۔

نیچے یہ تفصیل لکھی تھی:

شہر میں کچھ نوجوان اپنی یادداشت کھو بیٹھے ہیں اس قسم کے دو نوجوان پریشانی کے عالم میں انسپکٹر جمشید کے پاس پہنچ گئے۔ ادھر اخبار کے دفتر کو ایک فون موصول ہوا۔ فون کسی ڈاکٹر سرور باجوہ کی طرف سے تھا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ یادداشت کے کیسوں کا علاج وہ کریں گے۔ جو لوگ علاج کرنا چاہتے ہیں اپنے نام اور پتے اس اخبار میں شائع کروادیں۔

وہ یہ خبر پڑھ کر حیرت زدہ رہ گئے۔ انہوں نے فوراً اخبار کے دفتر فون کیا، اپنا تعارف کرانے کے بعد انہوں نے کہا:

یہ کیا؟ آپ نے یہ خبر کیوں لگائی؟

ہمارا کام تو یہ خبر لگانا ہی ہے۔ کوئی عجیب بات ہوجائے، کوئی حادثہ ہو جائے، کوئی سانحہ پیش آجائے تو ہم خبریں لگاتے ہیں۔ یہ معاملہ بھی بہت عجیب سا ہے۔ بس ہم نے خبر لگا دی۔

آپ کون صاحب بات کررہے ہیں؟

میں اخبار کا چیف ایڈیٹر عابد خان بات کررہا ہوں۔

شکریہ!“ یہ کہہ کر انہوں نے فون بند کردیا۔ پھر اٹھتے ہوئے بولے:

میں ذرا ان صاحب سے ملاقات کرکے آتا ہوں۔ ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں اور ساتھ میں یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ سوال سن کر ان کے چہرے پر کیا تاثرات نمودار ہوتے ہیں۔

تب پھر ہم بھی آپ کے ساتھ چلتے ہیں۔

وہ جلد ہی اخبار کے دفتر پہنچ گئے۔ عابد خان نے حیرت زدہ انداز میں ان سے ملاقات کی اور بولا:

فرمائیے! میں کیا خدمت کرسکتا ہوں؟“ 

ہم یادداشت کی وبا والی خبر کے سلسلے میں بات کرنے کے لیے آئے ہیں۔

اس کے بارے میں تو آپ پہلے ہی بات کرچکے ہیں۔اس نے منہ بنایا۔

ہاں! لیکن ایک نئی صورتِ حال پیش آئی ہے اور وہ یہ کہ پہلے اس قسم کے ایک نوجوان نے آکر مجھ سے ملاقات کی ہے۔ اس کے بعد پھر ایک اور نوجوان آگیا۔ اس نے بھی بالکل ویسی ہی کہانی سنائی۔ پھر آپ کے اخبار میں خبر پڑھی تو میں نے آپ کو فون کیا۔ اس کے بعد میں نے ضرورت محسوس کی کہ آپ سے ملاقات کی جائے۔

یہاں تک کہہ کر انسپکٹر جمشید خاموش ہوگئے۔

سوال تو یہ ہے کہ آپ نے کیوں ضرورت محسوس کی اور آپ مجھ سے کیا بات کرنا چاہتے ہیں؟

میں آپ سے صرف ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں۔ آپ بس اُس کا جواب دے دیں۔

ہاں! پوچھیں۔

آپ نے یہ خبر اپنی مرضی سے لگائی ہے یا کسی نے کہہ کر آپ سے لگوائی ہے؟

جی! کیا مطلب؟وہ چونکا۔

بس شکریہ! آو¿ بھئی چلیں۔

یہ…. یہ کیا بات ہوئی؟ میں نے تو ابھی سوال کا جواب دیا بھی نہیں۔

بس! جواب مل گیا۔ ویسے اگر آپ مزید وضاحت کرنا چاہیں تو ہم سننے کے لیے تیار ہیں۔

یہ خبر شائع کرنے کے لیے مجھ سے کسی نے نہیں کہا تھا…. مجھے تو یہ بات عجیب سی لگی تھی سو میں نے خبر لگا دی۔

ٹھیک ہے۔ آپ کا شکریہ!“

وہ اُسے حیران پریشان چھوڑ کر باہر نکل آئے۔

ضرور کوئی بڑی رقم دے کر یہ خبر لگوائی گئی ہے۔باہر آتے ہی انسپکٹر جمشید نے خیال ظاہر کیا۔

میرا بھی یہی خیال ہے۔محمود فوراً بولا۔

رہ گیا بے چارہ میں…. تو میں کوئی اور رائے دے کر کیا کروں گا!“ فاروق نے منہ بنایا اور وہ مسکرا دیئے۔

اس سے اگلے دن کا اخبارملک و ملتدیکھ کر تو وہ اچھل ہی پڑے۔ تقریباً سات آدمیوں کی طرف سے اشتہارات شائع ہوئے تھے۔ وہ علاج کی غرض سے ڈاکٹر سرورباجوہ سے ملنا چاہتے تھے۔

انسپکٹر جمشید کے ہاتھ فوراً ہی فون کی طرف بڑھ گئے۔ دوسرے ہی لمحے وہ اکرام کے نمبر ملا رہے تھے۔ سلسلہ ملتے ہی وہ بولے:

اکرام! تم آج کاملک و ملتاخبار تو دیکھ ہی چکے ہوگے۔

جی…. جی ہاں! کل کا بھی دیکھا تھا اور جب سے آپ نے ان دونوں کو میرے حوالے کیا ہے، اسی وقت سے میں تو اس معاملے میں حد درجے دلچسپی لے رہا ہوں۔

وہ کیوں اکرام؟

آخر یہ یکایک چکر کیا شروع ہوگیا؟

چکر شروع نہیں ہوا، شروع کیا گیا ہے۔ تم فوراً ان سات آدمیوں کی نگرانی شروع کرا دو۔ ظاہر ہے سرورباجوہ اب فون کرکے انہیں اپنا بتائے گا۔ ہم ان کا تعاقب کرتے ہوئے اس کے پاس پہنچ جائیں گے۔

بالکل ٹھیک! آپ فکر نہ کریں۔ میں بہت جلد آپ کو خبر سناو¿ں گا۔

اسی دن چند گھنٹے بعد اکرام نے انہیں فون کیا۔ اس کے لہجے میں حیرت ہی حیرت تھی۔

٭….٭….٭

السلام علیکم سر! ان سات گھرانوں میں سے کسی نے بھی ڈاکٹر سے ملاقات نہیں کی۔

عجیب بات ہے۔ پھر انہیں اشتہار شائع کروانے کی کیا ضرورت تھی؟ خیر! تم ذرا مجھے ان ساتوں کے نام و پتا اور فون نمبرز لکھوا دو۔

جی اچھا۔اس نے کہا اور لکھوانے لگا۔

پتے لکھتے ہی انسپکٹر جمشید اٹھ کھڑے ہوئے اور ان سے بولے:

آو¿ بھئی چلیں!“

جلد ہی وہ سرفراز اعوان کے دروازے پر دستک دے رہے تھے۔ وہ شہر کے بڑے تاجروں میں سے تھے۔ ملازم نے دروازہ کھولا تو انہوں نے اپنا کارڈ اسے دے دیا۔ انہیں فوراً ڈرائنگ روم میں بٹھایا گیا۔ پھر ایک دبلا پتلا اور درمیانے قد کا آدمی اندر داخل ہوا:

السلام علیکم! سرفراز اعوان۔

مجھے انسپکٹر جمشید کہتے ہیں۔ یہ ہیں میرے بچے محمود اور فاروق۔

آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔انہوں نے اپنے ہاتھ ہلاتے ہوئے کہا۔

پھر اطمینان سے بیٹھ جانے کے بعد انہوں نے کہا:

آپ کی طرف سے آج کے اخبار میں اشتہار شائع کیا گیا ہے کہ آپ کے بیٹے اپنی یادداشت کھو بیٹھے ہیں اور آپ ڈاکٹر سرور باجوہ سے ان کا علاج کروانا چاہتے ہیں۔

جی ہاں! یہی بات ہے۔

پھر ڈاکٹر سرور باجوہ نے آپ سے رابطہ کیا؟

جی نہیں! اسی بات پر تو حیرت ہے۔ اگر رابطہ نہیں کرنا تھا تو انہوں نے اخبار میں اشتہار کیوں دیا تھا؟

آپ کے بیٹے کہاں ہیں؟

گھر ہی میں ہیں۔

اور ان کی یادداشت؟

جوں کی توں ہے۔ ہم سب بہت پریشان ہیں۔ کتنے ہی ڈاکٹروں کو دکھا چکے ہیں لیکن یادداشت واپس نہیں آئی۔ اب امید بندھی تھی لیکن انہوں نے رابطہ نہیں کیا۔

لیکن یہ ابھی آج ہی کی تو یہ بات ہے۔ ممکن ہے رات ہونے تک ان کا فون آجائے۔

اچھی بات ہے۔ یہ رکھ لیں، اگر وہ شخص رابطہ کرے تو آپ ذرا مجھے فون کردیجئے گا۔انہوں نے کہا۔

جی اچھا۔

اور پھر وہ چلے گئے۔ اسی طرح انہوں نے باقی چھ لوگوں سے بھی ملاقات کی۔ انہوں نے بھی بالکل یہی بات کہی۔ پھر وہ اپنے گھر لوٹ آئے۔

اس کا مطلب ہے ڈاکٹر سرور نے ان لوگوں کو اپنے پاس نہیں بلایا۔ بذریعہ ڈاک اپنی فیس منگوائی ہے اور بذریعہ ڈاک ہی وہ دوا بھیجے گا۔ مطلب یہ کہ اس چالاک مجرم کا سراغ لگانا اتنا آسان نہیں۔ اب اس کے لیے ہمیں اخبارات کا جائزہ لینا ہوگا۔ خاص طور پر اخبارملک و ملتکا۔

جی؟ کیا مطلب؟

ایک ڈیڑھ ماہ کے اخبارات میں یادداشت گم ہونے کی کوئی خبر تلاش کرو۔ ایسا لگتا ہے اتفاقی طور پر ڈاکٹر سرور باجوہ یا جو بھی اس کا اصل نام ہے اس نے کوئی دوا دریافت کرلی۔ اس دوا سے انسان کی یادداشت غائب ہوجاتی ہے پھر اس نے اس کا علاج بھی تلاش کرلیا۔ اب اس نے دونوں جوانوں پر اور غالباً لاوارث نوجوانوں پر اس دوا کو آزمایا۔ ان کی یادداشت غائب ہوگئی۔ پھر اس نے خود ہی انہیں ہمارے پاس آنے کا مشورہ دیا لیکن یہ کام بھی اس نے میک اپ وغیرہ میں کیا ہوگا۔ یا اپنے کسی ماتحت سے کروایا ہوگا کیا خیال ہے؟

ضرور ایسا ہی ہے۔ اور اگر ان ساتوں لوگوں کے بچوں کی یادداشت واپس آجاتی ہے وہ بھی اس طرح کہ انہوں نے کسی ڈاکٹر کی خدمات بھی حاصل نہیں کیں تو پھر ضرور ایسا ہی ہے۔

اس کا مطلب ہے ہمیں ایک دو دن انتظار کرنا ہوگا۔انسپکٹر جمشید مسکرائے۔

اور پھر دو دن بعد انہوں نے سرفراز اعوان کو فون کیا۔

سرفراز صاحب! انسپکٹر جمشید بات کررہا ہوں۔

جی فرمائیے!“

آپ کے بیٹے کی یادداشت کا کیا بنا؟

وہ تو اب اللہ کی مہربانی سے بالکل ٹھیک ہے۔

تو ڈاکٹر سرور باجوہ نے رابطہ کیا؟

جی نہیں! انہوں نے قطعاً کوئی رابطہ نہیں کیا۔

پھر یادداشت کیسے لوٹ آئی؟

بس اللہ کی مہربانی ہوگئی۔ کوئی اللہ والے آئے تھے انہوں نے دعا کی۔ بچے کو دم کیا اور چلے گئے۔ ادھر وہ گئے، ادھر بچے کی یادداشت لوٹ آئی۔

اوہ! اس اللہ والے کے بارے میں بتائیں ان سے کہاں ملاقات ہوسکتی ہے؟

مجھے بالکل معلوم نہیں۔ وہ تو بس اچانک آئے تھے، آتے ہی کہنے لگے میں نے سنا ہے تم لوگ کچھ پریشان ہو۔ میں نے بچے کے بارے میں بتا دیا۔ انہوں نے کہا بچے کو لاو¿۔ بس انہوں نے کچھ پڑھا، دم کیا اور یہ کہہ کر چلے گئے کہ اللہ بھلا کرے گا۔ لو جناب! ادھر وہ گئے، ادھر ان کی یادداشت واپس آگئی۔ ہم تو حیرت زدہ رہ گئے۔ اب ہمیں کیا ضرورت ہے ڈاکٹر سرور باجوہ سے علاج کروانے کی؟

ہوں! واقعی آپ خوش قسمت ہیں۔ اچھا شکریہ!“

اور پھر وہ وہاں سے نکل آئے۔ اب انہوں نے اکرام کے نمبر ملائے۔

السلام علیکم اکرام! ان ساتوں کے بنک بیلنس چیک کرو۔ ایک سے زائد بینکوں میں اکاو¿نٹ ہوں تو باقی بنکوں کے بھی اکاو¿نٹ معلوم کرو۔

اوکے سر! دو گھنٹے تک رپورٹ مل جائے گی۔

بہت خوب!“

اور پھر بینکوں کی رپورٹ نے انہیں حیرت زدہ کردیا۔ ان سات آدمیوں نے اس روز اپنے بینک سے ایک ایک کروڑ روپیہ نکلوایا تھا۔ کچھ سوچ کر انہوں نے سرفراز اعوان کے نمبر ملائے۔ ان کی آواز سننے پر وہ بولے:

معاف کیجیے گا آپ کو زحمت دے رہا ہوں۔

کوئی بات نہیں جناب فرمائیے! کیا خدمت کرسکتا ہوں؟

جب وہ بزرگ دم کرکے جانے لگے تو کیا آپ نے انہیں کچھ دیا تھا؟

جی ہاں! وہ تو کچھ لے ہی نہیں رہے تھے۔ میں نے زبردستی ایک بیگ میں کچھ چیزیں ڈال کر انہیں دے دی تھیں۔ ان میں بسکٹوں کے ڈبے اور خشک میوہ جات کے پیکٹ تھے۔

شکریہ!“

یہ کہہ کر انہوں نے دوسرے کے نمبر ملائے۔ ادھر سے بالکل ایسا ہی جواب ملا۔ پھر جب باقی پانچ سے فون پر بات کی گئی تو ان سے بھی بالکل یہی معلومات ہوئیں۔ اب تو انہیں یقین ہوگیا کہ ان تھیلوں میں ضرور ڈاکٹر کی فیس ادا کی گئی ہے۔ اور وہ جھاڑ پھونک کرنے والا دراصل ڈاکٹر سرور باجوہ یا اس کا کوئی کا رندہ تھا۔ فیس وصول کرنے کے ساتھ انہوں نے دوا انہیں تھما دی ہوگی۔ اس طرح سرور باجوہ کا یہ وار کامیاب رہا اور وہ دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے۔

اب آپ کا کیا ارادہ ہے؟

وہ اس طرح نہ جانے کتنے لوگوں کو لوٹے گا، خود ہی دوا کھلا کر یادداشت غائب کرے گا اور خود ہی دوا دے کر لاکھوں روپے وصول کرے گا۔ ان سات افراد سے اس نے کتنے پیسے وصول کئے ہیں۔ یہ ہمیں اکرام کی رپورٹ سے معلوم ہوگیا ہے۔ فی الحال ہم اس کا سراغ کھوچکے ہیں۔ ان سات میں سے اگر کوئی ہم سے رابطہ کرلیتا تو اس کی گرفتاری ممکن تھی۔ یا پھر تم اب کوئی ترکیب بتاو¿۔

ترکیب تو بالکل سامنے ہے۔

اور وہ کیا!“

آپ اپنے کسی دوست کے ذریعے اخبار میں اشتہار دے دیں کہ ان کے بیٹے کی یادداشت کھو گئی ہے۔ لہٰذا ڈاکٹر سرورباجوہ رابطہ کریں۔محمود بولا۔

حد ہوگئی۔ کس قدر بھونڈی ترکیب بتائی۔ عقل مند یادداشت گم کرنے کے لیے انتخاب بھی وہ خود کرتا ہے کہ کس کی یادداشت گم کی جائے گی۔ اب ظاہر ہے جب کوئی ایسا شخص اس سے رابطہ کرے گا جس کے بیٹے کی یادداشت اس نے غائب کی ہی نہیں ہوگی تو وہ سمجھ جائے گا کہ یہ اس کے خلاف چال ہے۔فاروق ہنسا۔

بالکل ٹھیک! محمود کی ترکیب ناقابلِ عمل ہے۔

عین اس لمحے فون کی گھنٹی بجی۔ پھر جونہی انسپکٹر جمشید نے فون سنا وہ چلا اٹھے:

کیا!!!“

انسپکٹر جمشید اچھل کر کھڑے ہوگئے۔

آو¿چلیں! خان عبدالرحمن کے بیٹے حامد کی یادداشت غائب ہوگئی ہے۔

کیا!!!“ وہ ایک ساتھ چلائے۔

اور پھر وہ اپنی کار میں بیٹھ کر خان عبدالرحمن کے گھر کی طرف اڑے جارہے تھے۔

اس کا مطلب ہے مجرم سے وہ غلطی ہوگئی جو ہم کروانا چاہتے تھے۔محمود پر جوش انداز میں بولا۔

ہاں بالکل!“ انسپکٹر جمشید مسکرائے۔

اب معلوم ہوجائے گا کہ ڈاکٹر سرور باجوہ کس طرح رابطہ کرتا ہے، رقم کس طرح وصول کرتا ہے اور علاج کیسے کرتا ہے۔فاروق جلدی جلدی بولا۔

میرا خیال ہے ابا جان پروفیسر انکل کو بھی فون کردیں وہ بھی وہیں آجائیں۔

میرا خیال ہے ہم سے پہلے خان عبدالرحمن خود انہیں فون کرچکے ہوں گے۔

شاید پریشانی میں نہ کرسکے ہوں۔

اچھی بات ہے۔

یہ کہہ کر انسپکٹر جمشید پروفیسر داو¿ کو فون کرنے لگے۔ ان کی آواز سنتے ہی وہ بولے:

یارجمشید! غضب ہوگیا۔

اللہ رحم فرمائے! آپ کی طرف کیا ہوا؟

اوہو! میری طرف نہیں، خان عبدالرحمن کی طرف۔ میں انہی کی طرف جارہا ہوں۔ تم لوگ بھی آجاو¿، اس لیے کہ حامد کی یادداشت بھی غائب ہوگئی ہے۔

جی ہاں وہ ہمیں فون کرچکے ہیں، ہم گھر سے روانہ ہوچکے ہیں۔

چلو یہ اچھا ہے۔

پھر جونہی وہ خان عبدالرحمن کے دروازے پر پہنچے دوسری طرف سے پروفیسر صاحب اپنی کار میں آتے نظر آئے۔ انہوں نے پہلے ان سے علیک سلیک کی، پھر دروازے کی گھنٹی کا بٹن دبا دیا۔ دروازہ ظہور نے کھولا اور السلام علیکم کہنے کے ساتھ ہی بولا:

مم…. مارے گئے!“

کک…. کون مارے گئے؟

صاحب جی…. اور ان کے گھر والے اور میں بھی۔اس نے فوراً کہا۔

حد ہوگئی! ظہور تم پاگل تو نہیں ہوگئے؟

جی نہیں! ابھی نہیں ہوا۔ لیکن لگتا ہے ان حالات میں ہوجاو¿ں گا۔

اللہ رحم فرمائے! آخر کیا ہوا؟

حامد کے بارے میں تو آپ حضرات کو اطلاع مل ہی چکی ہوگی۔

ہاں بالکل! اسی لئے تو آئے ہیں۔ کیا کوئی اور بات ہوگئی؟

اس…. کا…. اس کا فون آیا ہے۔ظہور اٹک اٹک کر بولا۔

بھئی! کس کا؟

آپ خود ہی خان صاحب سے پوچھ لیں۔ آئیے!“

وہ اندر چلے آئے۔ خان عبدالرحمن اپنے صحن میں کرسی پر بیٹھے تھے اور سر دونوں ہاتھوں میں تھاما ہوا تھا۔ ان کے دو بچے ان کے ساتھ بیٹھے تھے۔ جب کہ حامد اپنے کمرے میں تھا۔ کمرے کا دروازہ کھلا تھا اور وہ اسے دیکھ سکتے تھے۔ وہ فرش پر آلتی پالتی مارے بیٹھا تھا۔

کیا ہوا خان عبدالرحمن؟ معاملہ اگر صرف یادداشت کا ہے تو اس میں پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں کیوں کہ اور بھی تو بہت سے لوگوں کی یادداشت غائب ہوئی ہے اور واپس بھی آئی ہے۔

یہ…. یہ بات نہیں!“ انہوں نے کھوئے کھوئے انداز میں کہا۔

پھر اور کیا بات ہے؟

ڈاکٹر سرور باجوہ کا فون آیا تھا۔

اوہ! اچھا…. پھر…. کیا کہا اس نے؟

اس نے کہا ہے اور لوگوں کی یادداشت تو واپس آسکتی ہے اور بہت سوں کی آگئی ہے لیکن آپ کے بیٹے یادداشت اب کبھی واپس نہیں لاو¿ں گا۔

وہ…. وہ کیوں؟ان کے منہ سے ایک ساتھ نکلا۔

وہ اس لئے کے میں تمہارا دوست ہوں۔

یہ کہا ہے اس نے؟انسپکٹر جمشید کے لہجے میں حیرت تھی۔

ہاں! اس نے کہا ہے کہ آپ چونکہ انسپکٹر جمشید کے دوست ہیں اور وہ میرے اس معاملے میں ٹانگ اڑا رہے ہیں، لہٰذا سزا کے طور پر آپ کے بیٹے کی یادداشت واپس نہیں آئے گی۔

حد ہوگئی! ہے کوئی تک! لیکن تم فکر نہ کرو ہم اس کا سراغ لگالیں گے اور پھر حامد کے لیے بھی دوا لے لیں گے۔

وہ تو ٹھیک ہے لیکن میں بیگم کا کیا کروں؟ مسلسل روئے جارہی ہیں۔

اوہ! اچھا خیر۔ میں اپنی بیگم کو یہاں بلاتا ہوں وہ انہیں دلاسہ دیں گی۔ اطمینان دلائیں گی۔ تم فکر نہ کرو ہم ان شاءاللہ بہت جلد اس کا سراغ لگالیں گے۔

ٹھیک ہے جمشید!“

تم یہ بتاو¿ حامد نے کیا کھایا تھا؟

وہ یہ بات بتانے کے قابل نہیں ہے۔ اسے تو کچھ بھی معلوم نہیں۔

اچھا ہم اس سے بات کرتے ہیں۔

اب وہ حامد کے کمرے میں داخل ہوئے۔ وہ اسی طرح بیٹھا رہا۔

بیٹا حامد! آپ کا کیا حال ہے؟

کون ہیں آپ؟وہ ہونقوں کی طرح بولا۔

میں تمہارا انکل جمشید، اور یہ پروفیسر داو¿د اور یہ تمہارے دوست محمود اور فاروق۔

میں…. میں آپ لوگوں کو نہیں جانتا۔ آپ مجھے پریشان نہ کریں۔

اچھا یہ جو صحن میں بیٹھے ہیں انہیں تو جانتے ہیں آپ؟

انہوں نے خان عبدالرحمن کی طرف اشارہ کیا۔

نہیں! میں نہیں جانتا یہ کون صاحب ہیں؟

اور وہ مایوسانہ انداز میں باہر نکل آئے۔

خان عبدالرحمن! فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں۔ اس قسم کے فراڈ ڈاکٹروں سے پہلے بھی کئی بار ہمارا واسطہ پڑچکا ہے۔ وہ کوئی دوا ایجاد کرلیتے ہیں اور پھر اس کے ذریعے سے بے تحاشا دولت کمانا شروع کردیتے ہیں۔ لیکن آخر ہم ان کا سراغ لگا ہی لیتے ہیں۔ ہم اپنا کام شروع کررہے ہیں۔ تم چوں کہ پریشان ہو اس لیے بہتر یہی رہے گا کہ گھر ہی میں رہو۔ پروفیسر صاحب کو بھی تمہارے پاس چھوڑے جارہے ہیں۔ ان کی موجودگی میں تمہارا دل بہلا رہے گا۔

اچھی بات ہے جمشید!“ وہ زبردستی مسکرادیئے۔

انہوں نے ان سے ہاتھ ملائے اور باہر آگئے۔

کیا خیال ہے ہم ان سات افراد کو ایک بار پھر نہ ٹٹولیں؟

اب کچھ نہ کچھ تو کرنا ہوگا۔محمود نے پریشانی کے عالم میں کہا۔

آخر وہ سرفراز اعوان کی کوٹھی پہنچے۔ جلد ہی سرفراز اعوان اپنے ڈرائنگ روم میں ان کے سامنے بیٹھا تھا۔ اس کے چہرے پر حیرت تھی۔

جی فرمائیے! اب کیا مسئلہ ہے؟

مسئلہ وہی پرانا ہے لیکن اب حد درجے پریشان کن ہوگیا ہے۔ اگر آپ چاہیں تو اس سلسلے میں ہم بہت کچھ کرسکتے ہیں۔

میں ہر خدمت کے لیے حاضر ہوں۔ فرمائیے!“

دیکھیے! صاف اور سیدھی بات، یہ جو شہر میں یادداشت غائب ہونے کی وبا شروع ہوئی ہے یہ کوئی خدائی بیماری نہیں ہے۔ کسی جرائم پیشہ شخص نے اس بیماری کو گھڑا ہے۔ اس نے کوئی دو ایجاد کی، اس سے یادداشت غائب ہوجاتی ہے۔ اس کا توڑ بھی اس نے دریافت کرلیا۔ اس طرح اب وہ جس کی چاہتا ہے یادداشت غائب کردیتا ہے اور پیسے وصول کرکے توڑ بتا دیتا ہے اس طرح وہ دونوں ہاتھوں سے دولت لوٹ رہا ہے۔ اس کا یہ فعل سراسر ناجائز ہے، جرم ہے۔ کیا آپ پسند نہیں کریں گے کہ ایسا آدمی گرفتار ہوجائے۔

لوگوں سے سنا یہی ہے۔ جو آپ بتا رہے ہیں۔ تب تو میں واقعی ایسا چاہوں گا۔

تب پھر بتائیے اس نے آپ سے کس طرح رابطہ قائم کیا تھا۔ آپ نے اسے رقم کس طرح دی تھی؟

نہیں نہیں! میرے ساتھ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔

جھوٹ نہ بولیں ڈیڈی!“

ایک لڑکے کی آواز نے ان سب کو اُچھل پڑنے پر مجبور کردیا۔

٭….٭….٭

سرفراز اعوان کے چہرے پر ایک رنگ آکر گزر گیا۔ انہوں نے دیکھا ڈرائنگ روم کے اندرونی دروازے پر ان کا بیٹا کھڑا تھا۔ وہ پوری طرح ہوشیار نظر آرہا تھا۔

آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟انسپکٹر جمشید مسکرائے۔

میں بتانا چاہتا ہوں۔ دراصل اس نامعلوم شخص نے مجھے دھمکی دی ہے کہ اگر میں نے یہ بات آپ کو بتائی تو وہ پھر میرے بیٹے کی یادداشت گم کردے گا اور اس مرتبہ یادداشت لوٹ کر نہیں آئے گی۔ اس لیے میں جھوٹ بول رہا تھا۔ اب جب کہ میرے بیٹے ہی نے مجھے جھوٹا کہہ دیا تو میں کیا کروں گا جھوٹ بول کر۔ اسی کی خاطر تو میں جھوٹ بول رہا تھا۔

جھوٹ جھوٹ ہے اور گناہِ کبیرہ ہے مہربانی فرما کر بتائیں اس نے کس طرح رابطہ کیا تھا؟

اس نے کہا تھا کہ آپ کے دروازے پر ملنگوں کی شکل و صورت کا ایک آدمی آئے گا۔ اس کے کپڑے سرخ ہوں گے۔ وہ آپ کے دروازے پر دستک دے گا۔ آپ اس کے تھیلے میں رقم ڈال دیں اور تھیلے میں رکھا ایک لفافہ نکال لیں۔ اس لفافے میں آپ کے بیٹے کے لیے دوا ہوگی۔ وہ دوا پانی سے اسے کھلا دیں۔ بس اس کے ایک گھنٹے بعد اس کی یادداشت لوٹ آئے گی۔ چناں چہ ایسا ہی ہوا۔

ہوں اچھا! کوئی بات نہیں، اللہ نے چاہا تو ہم اس کا سراغ لگالیں گے۔ مہربانی فرما کر اس کا حلیہ بتادیں۔

حلیہ! جی ہاں، وہ درمیانے قد کا دبلا پتلا سا آدمی تھا۔ سر کے بال بے تحاشہ بڑھے ہوئے تھے، مونچھیں بہت گھنی تھیں اور اسی طرح بس میں اس سے زیادہ کچھ نہیں بتاسکتا۔

اچھی بات ہے۔ آپ کو یہ شخص کہیں بھی نظر آجائے تو مجھے اسی وقت فون کردیجئے گا۔

جی اچھا!“

دوسرے دن کے اخبارات پڑھ کر وہ حیرت زدہ رہ گئے۔ شہر میں تقریباً بیس نوجوان اپنی یادداشت سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے اور وہ سب ڈاکٹر سرور باجوہ سے جلد از جلد علاج کرالینا چاہتے تھے۔ جب کہ دوسری طرف ایک اور ڈاکٹر خادم بجنوری کی طرف سے اشتہار شائع کیا گیا تھا…. اس اشتہار میں لکھا تھا:

شہر میں پھیل جانے والی یادداشت کی وبا کا علاج تلاش کرلیا گیا۔ اب اس سلسلے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ نہ ڈاکٹر سرور باجوہ کے چکر میں پڑنے کی ضرورت رہ گئی ہے۔ بہت کم خرچ میں شفا حاصل کریں۔ پہلی فرصت میں رابطہ کریں۔

یہ اشتہار پڑھتے ہی انسپکٹر جمشید نے خان عبدالرحمن کے نمبر ملائے۔ سلسلہ ملتے ہی وہ بولے:

خان عبدالرحمن! آج کا اخبار دیکھا؟

ہاں جمشید! ابھی ابھی دیکھا ہے۔ تمہیں فون کرنے ہی لگا تھا۔

بس تو پھر، ڈاکٹر سرور باجوہ کو مارو گولی اور ان سے رابطہ کرو۔

کک…. کیا کہہ رہے ہو جمشید؟ اگر میں نے ڈاکٹر سرور کو گولی ماری تو تم خود ہی مجھے گرفتار کرنے آجاو¿ گے۔ میرا ذرا بھی لحاظ نہیں کرو گے۔خان عبدالرحمن نے بوکھلائے ہوئے انداز میں کہا۔

ہاں! یہ تو ہے۔ لیکن بھئی میں نے تو صرف محاورتاً گولی مارنے کے لیے کہا تھا۔

اوہو بھائی! تو تم بھی مجھے محاورتاً گرفتار کرنے کے لیے آسکتے ہو۔خان عبدالرحمن بولے۔

مان گیا! اب تم فوراً ڈاکٹر خادم سے رابطہ کرو اور اس کے علاج کے بعد جو نتیجہ نکلے مجھے بتا دینا۔

اچھی بات ہے جمشید! فکر نہ کرو۔

دوسرے دن انہیں خان عبدالرحمن کا فون موصول ہوا، وہ کہہ رہے تھے:

السلام علیکم جمشید! میں ڈاکٹر خادم بجنوری سے حامد کا علاج کرا چکا ہوں۔

تب پھر کیا بنا؟وہ فوراً بولے۔

حامد اب بالکل خیریت سے ہے۔ تاہم ڈاکٹر خادم کا کہنا ہے کہ علاج چھے دن تک جاری رکھیں ورنہ یادداشت پھر غائب ہوسکتی ہے۔

اوہ اچھا! اور فیس کیا لی انہوں نے؟

صرف پندرہ ہزار…. لیکن جمشید!“

لیکن جمشید کیا؟وہ مسکرائے۔

وہ بہت رحم دل ہے۔ میرے سامنے ایک غریب آدمی بھی آیا تھا۔ اس کے بیٹے کی یادداشت بھی گم ہوگئی تھی۔ اس نے آکر بتایا کہ اس کے پاس پندرہ ہزار تو کیا، پندرہ سو بھی نہیں ہیں۔ تب ڈاکٹر خادم نے نہایت شفقت بھرے انداز میں کہا۔ کوئی بات نہیں، اگر آپ کے پاس میری فیس کے پیسے نہیں ہیں تو آپ کے بیٹے کا علاج بغیر فیس کے کروں گا۔ اس طرح تو جمشید ڈاکٹر سرور باجوہ اور ڈاکٹر خادم بجنوری میں زمین و آسمان کا فرق ہوگیا۔

ہاں واقعی! چلو شکر ہے۔ ڈاکٹر باجوہ نے تمہیں دھمکی دی تھی کہ حامد کا علاج نہیں کرے گا۔ اللہ نے دوسرا دروازہ کھول دیا۔ عیش کرو۔

جمشید تمہارا بہت بہت شکریہ!“ خان عبدالرحمن ہنسے۔

اور یہ تم میرا شکریہ کس بات کا ادا کررہے ہو؟

عیش کرنے کے لیے جو کہہ رہے ہو۔ شکریہ نہ ادا کروں تو کیا کروں!“

اچھا اچھا! کرلو میرا شکریہ ادا، کوئی بات نہیں۔

اور پھر انہوں نے فون بند کردیا۔ اس سے اگلے دن کے اخبارات نے ڈاکٹر خادم کی کارگزاری کی خبریں شائع کی تھیں۔ بہت سے لوگوں نے اس سے علاج کروایا تھا۔ اس طرح جن لوگوں نے کئی کئی لاکھ روپے دے کر علاج کروایا تھا، اب وہ افسوس کررہے تھے اور کہہ رہے تھے کاش ڈاکٹر خادم پہلے ہی یہ دوا دریافت کرلیتے۔ دوسری طرف یادداشت گم ہونے کے واقعات برابر پیش آرہے تھے۔ یہ بات انسپکٹر جمشید کے لیے بڑی پریشان کن تھی۔

اتوار کی صبح ناشتے پر انہوں نے محمود اور فاروق سے کہا:

اب جب کہ کوئی ڈاکٹر سرور باجوہ سے علاج نہیں کروا رہا تو وہ کیوں لوگوں کو بیمار کررہا ہے؟

یہ بات واقعی حیران کن ہے۔ ابھی تک ہم یہ معلوم نہیں کرسکے کہ ڈاکٹر سرور باجوہ لوگوں کی یادداشت خراب کس چیز سے کررہا ہے؟ نہ ڈاکٹر خادم نے شہر کے لوگوں کو کوئی ایسی ترکیب یا دوابتائی جس کے استعمال کے بعد وہ اس مرض سے بچ سکتے ہیں۔ جب کہ اس کی ضرورت تھی۔

اگر وہ یہ بتادیں گے تو پندرہ ہزار روپے دینے والے کئی کئی مریض روزانہ ان کے پاس کہاں سے آئیں گے؟

ہاں! یہ بھی ہے۔ لیکن یہ بات بھی تو معلوم ہوئی ہے کہ وہ بہت نیک دل آدمی ہے۔ غریبوں کا ہمدرد ہے اور ایک غریب نوجوان کا علاج اس نے فیس کے بغیر بھی کیا ہے۔ ان حالات میں کیا کہا جائے گا۔

یہی کہ ہمیں پہلے یہ معلوم کرنا ہوگا کہ ڈاکٹر سرور باجوہ کس دوا سے یادداشت غائب کررہا ہے یا کس ذریعے سے۔ ورنہ ہم ان وارداتوں کو روک نہیں پائیں گے۔

اس سلسلے میں پہلے ہمیں ڈاکٹر خادم سے بات کرنا ہوگی۔ آو¿ چلیں!“

وہ اسی وقت ڈاکٹر خادم کے کلینک پہنچ گئے…. وہ اندر موجود تھے۔ انہوں نے اپنا کارڈ اندر بھجوایا تو انہیں فوراً ہی بلالیا گیا۔

جی فرمائیے! میں کیا خدمت کرسکتا ہوں؟

بہتر ہوگا…. آپ پہلے اپنے مریضوں سے فارغ ہولیں۔

اس کام میں تو رات ہوجائے گی۔ میں آج کل دن رات مصروف ہوں۔

اچھی بات ہے۔ ہمیں آپ یہ بتادیں کہ ڈاکٹر سرور باجوہ لوگوں کی یادداشت غائب کیسے کررہا ہے؟

اگر مجھے یہ بات معلوم ہوجاتی تو میں اخبارات میں اشتہارات لگوا دیتا۔ تاکہ لوگ اس بیماری سے بچ جاتے۔ افسوس! مجھے یہ بات معلوم نہیں۔

تب پھر آپ نے اس کا علاج کیسے دریافت کرلیا؟

ایسا اتفاقی طور پر ہوا۔ ایسا ایک مریض میرے پاس لایا گیا تھا۔ میں نے اس کا خون لیا اور اس کا تجزیہ کیا…. اس میں وائر کی قسم کی ایک چیز پائی گئی۔ میں نے اس پر مختلف دوائیاں آزمائیں۔ اسے کچھ نہ ہوا۔ میں دوائیں آزماتا چلا گیا۔ آخر میں نے جان لیا…. اس کا علاج کیا ہے۔

اور وہ علاج کیا ہے؟وہ ایک ساتھ بولے۔

٭….٭….٭

ڈاکٹر خادم نے ان کی طرف عجیب سی نظروں سے دیکھا، پھر بولے:

کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ میں وہ نسخہ آپ کو بتادوں جس پر میں نے کئی دن تک محنت کی ہے اور جس کے ذریعے اس وقت میری آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ ہوچکا ہے اور یہ میری محنت کا ثمر ہے۔

عام حالات میں میں واقعی یہ سوال نہیں کرسکتا لیکن جب ایک بیماری وبا کی صورت اختیار کرلے تو اس صورت میں آمدنی کو نہیں دیکھا جاسکتا۔ پورے شہر کو وہ علاج بتادیا جاتا ہے۔ تاکہ جہاں بھی کوئی اس بیماری کا شکار ہوجائے، وہ وہیں وہ دوا استعمال کرلے۔

یہ معاملہ وبائی نہیں ہے۔ کیس تو خیر ہورہے ہیں لیکن اتنی تعداد میں نہیں کہ اس بیماری کو وبا کا درجہ دے دیا جائے۔ڈاکٹر خادم بولے۔

چلئے خیر! آپ نہ بتائیں۔ ہم آپ کو مجبور نہیں کرتے۔ یہ بھی بہت کہ آپ ڈاکٹر سرور باجوہ کی طرح لوگوں کو لوٹ نہیں رہے۔ بس دس پندرہ ہزار روپے میں علاج کردیتے ہیں، جب کہ وہ تو ہر ایک سے کروڑوں روپے بٹور رہا تھا۔

اللہ کا شکر ہے آپ نے یہ بات تو مانی۔ڈاکٹر خادم مسکرائے۔

اب ہم چلتے ہیں۔

باہر نکل کر انہوں نے اکرام کو فون کیا:

السلام علیکم! مجھے شہر کے تمام ڈاکٹر حضرات کے ناموں اور پتوں کی فہرست چاہئے اور بہت جلد چاہئے۔

بہت خوب جناب!“

جلد ہی شہر کے تمام ڈاکٹر حضرات کی فہرست ان کے سامنے موجود تھی۔ انہوں نے ایک ایک نام غور سے پڑھا اور فہرست ختم ہوتے ہی انہیں ایک جھٹکا لگا۔

حیرت ہے۔ اس فہرست میں تو ڈاکٹر سرور باجوہ کا نام ہی نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے شہر میں اس نام کا کوئی ڈاکٹر نہیں ہے اور یہ ایک فرضی نام ہے…. لوگوں کو چکر دینے اور دولت لوٹنے کے لیے اس نے یہ نام اپنایا ہے اور اس نام کی آڑ میں کوئی دوسرا ڈاکٹر یہ کام کررہا ہے۔ اب ہمیں کام کے دائرے کو اور بڑا کرنا ہوگا۔

ضرور بڑا کریں دائرے کو، ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔فاروق مسکرایا۔

تب پھر تیار رہو۔ ہمیں اس سلسلے میں آج رات ہی کام شروع کرنا ہے۔

یہ کہہ کر انہوں نے پھر اکرام کو فون کیا:

السلام علیکم اکرام! ہم آج رات نکلیں گے، گیارہ بجے۔

بہت بہتر سر!“

رات کو گیارہ بجے وہ اپنی کار میں گھر سے نکلے۔ آدھ گھنٹے کے بعد وہ ایک کوٹھی کے نزدیک پہنچ گئے۔ انہوں نے اس کے پچھلے حصے کا رخ کیا۔ اس طرف مکمل تاریکی تھی اور درختوں کا سلسلہ دور تک چلا گیا تھا۔ دن میں ایک سادہ لباس والے کے ذریعے وہ کوٹھی کی صورتِ حال معلوم کرچکے تھے۔

پانی کا ایک پائپ چھت تک جارہا تھا۔ انہوں نے فاروق کو اشارہ کیا، وہ برا سامنہ بناتا ہوا پائپ کی طرف بڑھ گیا۔ وہ مسکرا دیئے…. وہ پائپوں پر چڑھنے میں ان سب سے زیادہ تیز تھا۔ اس لیے یہ کام ہمیشہ وہی انجام دیتا تھا۔ ایسے موقعوں پر مصنوعی طور پر منہ بنانا بھی اس کا معمول تھا۔ یہ بات نہیں تھی کہ وہ کام چور تھا۔

دیکھتے ہی دیکھتے وہ پائپ پر چڑھتے ہوئے چھت پر جا پہنچا۔ اس نے نیچے جھک کر ان کی طرف دیکھا اور ہاتھ ہلا دیا۔ جواب میں انہوں نے بھی ہاتھ ہلائے۔ اب اس نے زینے کا رخ کیا۔ زینہ دوسری طرف سے بند تھا۔ اب اس نے جیب میں سے ریشم کی ڈوری نکالی۔ اس کو مناسب جگہ باندھ کر اس نے نیچے لٹکا دیا۔ اب وہ اس رسی پر پھسلتا ہوا کوٹھی کے صحن میں جااترا۔ اس نے صدر دروازے کا جائزہ لیا، اس پر تالا لگا ہوا تھا۔ اس نے ماسٹر چابی جیب سے نکالی اور اس پر آزمانے لگا۔ آخر دو منٹ کی کوشش کے بعد تالا ایک بہت ہلکی سی آواز کے ساتھ کھل گیا۔ اس نے دروازہ کھول دیا۔ اس کے ساتھ پچھلی طرف سے صدر دروازے کی طرف وہ اندر آچکے تھے۔ اندر داخل ہونے کے بعد انہوں نے دروازہ بند کردیا لیکن تالا نہیں لگایا۔ اب وہ آگے بڑھے۔ انسپکٹر جمشید اس وقت تک اپنے ہاتھ میں پستول لے چکے تھے۔ وہ کوٹھی کے ایک کمرے کا جائزہ لیتے آگے بڑھتے چلے گئے۔ یہ سارا کام وہ اس قدر آہستگی سے کررہے تھے کہ ذرا بھی آواز پیدا نہیں ہورہی تھی۔ پھر جونہی وہ ایک کمرے کے دروازے پر پہنچے، اندر باتیں کرنے کی آواز سنائی دی۔ انہوں نے کان دروازے سے لگادیئے۔ اندر کوئی کہہ رہا تھا:

یہ تو صرف منصوبے کی ابتدا تھی، اصل کام تو اب شروع ہوگا۔

کک…. کیا مطلب ڈاکٹر صاحب؟ایک حیرت زدہ آواز بھری۔

یہ سب تجربات تھے جو ہم نے کئے۔ دیکھنا یہ تھا کہ ہمارا تجربہ کس حد تک کامیاب رہتا ہے۔ جتنے لوگوں پر تجربہ کیا گیا ان سبھی کی یادداشت جاتی رہی اور جتنے لوگوں کو اس کے علاج کی دوا کھلائی گئی، ان سب کی یادداشت واپس لوٹ آئی۔ اس حد تک ہمارا تجربہ کامیاب ہوگیا۔ اس تجربے کا دوسرا حصہ اب شروع ہوگا۔ اب ملک کے مشہور و معروف بڑے اور اہم لوگوں پر دوا آزمائی جائے گی۔ ان کی یادداشت بھی غائب ہوگی۔ پھر ان کا علاج شروع ہوگا۔ لیکن علاج سے درست صرف وہ ہوگا جو ہماری بات مانے گا۔

یہ کیا بات ہوئی ڈاکٹر صاحب!“ ایک اور آواز ابھری۔

کیوں؟ یہ بات کوئی بات کیوں نہیں ہوئی بھلا؟

دیکھئے نا! یادداشت غائب ہوتے ہوئے وہ کس طرح آپ کی بات مانے گا اور درست ہونے پر کیسے وہ اپنی بات پر قائم رہے گا؟

ہاہاہا…. ہاہاہا!“ جواب میں ڈاکٹر کے چہکنے کی آواز سنائی دی۔

ہم سمجھے نہیں ڈاکٹر صاحب!“

اچھا تو سمجھائے دیتا ہوں۔ فرض کیا۔ ملک کا ایک بہت بڑا آدمی ہے یایوں کہہ لیں کہ بہت بڑا سیاست دان ہے اور اپنی سیاسی جماعت کا لیڈر ہے۔ اب اگر اس کے عزیز ترین بیٹے یا بیٹی کی یادداشت چلی جائے تو وہ علاج کے لیے کیا کچھ نہیں کر گزرے گا۔ ہماری ہر بات مانے گا یا نہیں؟ ہم اس سے اپنی بات منوا سکتے ہیں یا نہیں؟ پھر ہم علاج بھی مکمل نہیں کریں گے۔ اسے بتادیں گے کہ اگر وہ اپنی بات سے پھرا تو اس کا بیٹا مرجائے گا کیوں کہ اس دوا کا مکمل کورس نہیں دیا گیا۔ کورس مکمل ہوگا تو یادداشت برقرار ہوگی اور وہ زندہ بھی رہے گا۔ لیکن اگر کورس مکمل نہیں کیا جائے گا تو وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ اس صورت میں بتاو¿ اس ملک کے بڑے بڑے لوگ ہماری مٹھی میں ہوں گے یا نہیں؟

اوہ…. اوہ! ڈاکٹر صاحب! آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ لیکن….“ ایک تیسری آواز سنائی دی۔

لیکن کیا؟ڈاکٹر کی آواز بھری۔

لیکن ڈاکٹر صاحب اب تک تو کوئی مرا نہیں!“

یہ تو علاج کا دوسرا حصہ ہے۔ اب تک تو صرف تجربہ کیا گیا ہے۔ اب ہوگا یہ کہ ہم جب علاج شروع کریں گے تو پہلے اپنی بات منوائیں گے۔ فرض کیا وہ چکر دیتا ہے یا بات ماننے کا ارادہ نہیں ہے لیکن جھوٹا وعدہ کرلیتا ہے اور دوا حاصل کرلیتا ہے اس طرح اس کے بیٹے کی یادداشت لوٹ آتی ہے اور وہ وعدے سے پھر جاتا ہے، تب ہم اسے اطلاع دیں گے کہ اس کا بیٹا اب زندہ نہیں رہے گا کیوں کہ ہم نے دوا کا مکمل کورس نہیں دیا تھا اور اگر مکمل کورس نہ دیا جائے تو یادداشت تو واپس آجاتی ہے مگر وہ زندہ نہیں بچتا۔ اس کے صرف چند دن بعد مرجاتا ہے۔ یہ سن کر وہ وعدہ بھی کرے گا اور منتیں بھی۔ ہم اس کی ایک نہیں سنیں گے۔ تاکہ آئندہ کوئی ہمارے ساتھ دھوکہ کرنے کی جرا¿ت تک نہ کرسکے۔

اب بات سمجھ میں آئی ڈاکٹر صاحب!“

چلو شکر ہے۔ اب کل ہم اس ملک کے سب سے سائنس دان کے بیٹے سے اپنا کام شروع کریں گے۔ اور پھر تم دیکھو گے کہ حکومت میں جو لوگ بڑے بڑے عہدوں پر موجود ہیں۔ ان کی بھی باری آئے گی۔ اس طرح ہم جسے چاہیں گے اپنی مٹھی میں لے لیں گے۔

بہت خوب ڈاکٹر صاحب!“

اس کے ساتھ ہی انسپکٹر جمشید نے دروازے پر زور دار ٹھوکر رسید کردی۔ دروزہ اندر سے بند تھا۔ ٹھوکر سے زور دار آواز پیدا ہوئی تھی اور اندر موت کا سناٹا چھا گیا۔

دروازہ کھول دو ورنہ توڑ دیا جائے گا۔

کک…. کون؟

اندر سے مارے خوف کے کہا گیا۔

پولیس! ہم نے تمہاری سب باتیں سن لی ہیں۔ اب تم بچ نہیں سکتے لہٰذا خود کو قانون کے حوالے کردو۔

نن…. نہیں…. نہیں!“ اندر سے پھر خوف کے عالم میں کہا گیا۔

دروازہ کھولتے ہو یا نہیں؟

نہیں…. ہرگز نہیں کھولیں گے۔کئی آوازیں ابھریں۔

لیکن کیا فائدہ، ہم دروازہ توڑ دیں گے۔

اب انہوں نے اکرام کو فون کیا۔ وہ ساتھیوں کے ساتھ باہر ہی موجود تھا۔ کیوں کہ اسے پہلے ہی ہدایات دی جاچکی تھیں۔ لہٰذا وہ فوراً اندر آگیا۔

اوزار کی مدد سے دروازہ توڑا گیا۔ ساتھ ہی وہ اُدھر اِدھر ہوچکے تھے۔ کیوں کہ اندر سے ان پر فائرنگ بھی ہوسکتی تھی۔

خبردار! ہاتھ اوپر اٹھا کر باہر نکل آو¿ ورنہ بھون دیئے جاو¿ گے۔

٭….٭….٭

کمرے سے پانچ غنڈہ صورت آدمی ہاتھ اٹھائے باہر نکلے۔ ان کے چہروں پر خوف ہی خوف تھا۔ انسپکٹر جمشید نے اکرام کو اشارہ کیا۔ اس کے ماتحت حرکت میں آئے اور انہیں ہتھکڑیاں پہنا دی گئیں۔

تم میں سے ڈاکٹر کون ہے؟

ہم میں سے ڈاکٹر کوئی نہیں۔

کیا مطلب؟ ابھی تم اپنے باس ڈاکٹر سے باتیں کررہے تھے…. ہم نے وہ تمام باتیں سنی ہیں۔

جی ہاں! ہم باتیں کررہے تھے لیکن جونہی آپ نے دروازے پر ٹھوکر ماری، وہ کمرے سے نکل گئے۔

نکل گئے! کیا مطلب؟یہ کہتے ہوئے وہ اندر داخل ہوئے۔ کمرے میں کوئی اور دروازہ نہیں تھا۔ ایک کھڑکی ضرور تھی لیکن اس میں سلاخیں تھیں۔

وہ کہاں سے غائب ہوئے اور کیسے؟

یہ ہم نہیں جانتے۔ اپنی کرسی پر بیٹھے تھے وہ بس اچانک غائب ہوگئے۔ کیوں کہ ادھر آپ نے ٹھوکر ماری، ادھر ہم نے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا اور پھر جو ہم نے مڑ کر دیکھا تو وہ کرسی پر نہیں تھے۔ اب ہم آپ کو کیسے بتائیں کہ وہ کہاں ہیں؟ یا اس کمرے سے غائب کس طرح ہوگئے۔

ٹھیک ہے! ہم خود معلوم کرلیں گے۔

اب انسپکٹر جمشید اس کرسی پر جابیٹھے۔ انہوں نے کرسی اور میز کا بغور جائزہ لیا۔ میز کے ایک پائے میں اندر کی طرف ایک بٹن نظر آیا۔ جونہی انہوں نے بٹن دبایا آواز کے بغیر ان کے پیروں کے نیچے ایک خلا نمودار ہوا اور سیڑھیاں نیچے جاتی نظر آئیں۔

آو¿ بھئی! جلدی کرو۔انہوں نے گھبرا کر کہا۔

اور پھر وہ سیڑھیاں اترتے چلے گئے۔ محمود اور فاروق بھی ان کے پیچھے دوڑ پڑے۔ جلد ہی وہ ایک تہہ خانے میں تھے۔ تہہ خانے میں دوسری طرف ایک دروازہ نظر آیا۔ انہوں نے اس دروازے کو کھولنا چاہا لیکن اس کو دوسری طرف سے بند کردیا گیا تھا۔ انہوں نے زور لگا کر دیکھا تو دروازہ بہت مضبوط تھا۔

اب کیا کریں؟انہوں نے پریشانی کے عالم میں کہا۔

یہ دروازہ کوٹھی کے پچھلی طرف جھاڑیوں وغیرہ میں کھلتا ہوگا۔

ہم یہاں سے نکل کر پچھلے حصے میں چلتے ہیں۔ اگرچہ وہ اب تک بہت دور جاچکا ہوگا۔محمود بولا۔

خیر کوئی بات نہیں!“

اب وہ اوپر آئے۔ اکرام نے سوالیہ انداز میں ان کی طرف دیکھا۔

نیچے تہہ خانہ ہے اور وہ تہہ خانے سے نکل چکا ہے۔ دروازہ بند کردیا گیا۔ لہٰذا ہم کوٹھی کے پچھلے حصے کی طرف جارہے ہیں۔

جی اچھا!“ میرا ان لوگوں کے پاس ٹھہرنا ضروری ہے۔

ٹھیک ہے۔

وہ پچھلی طرف آئے۔ یہاں واقعی جھاڑیوں کا سلسلہ دور تک پھیلا ہوا تھا۔ اور آخر میں یہ سلسلہ سڑک سے جاملا۔ اس جگہ ایک کار کے پہیوں کے نشانات بھی موجود تھے۔ تہہ خانے کا دروازہ بھی جھاڑیوں میں چھپا ہوا تھا۔ پہیوں کے نشانات سڑک تک چلے گئے تھے۔ گویا وہ گاڑی کو جھاڑیوں میں چھپا دیتا تھا تاکہ کسی وقت پکڑے جانے کا امکان پیدا ہوجائے تو نکل سکے۔ انہوں نے پہیوں کے نشانات کی تصویرں لے لیں۔

دروازے سے سڑک تک کا بغور جائزہ لیا۔ میٹنگ والے کمرے سے انگلیوں کے نشانات بھی اٹھا لیے گئے۔ میز پر بھی کچھ نشانات تھے، ان کو بھی محفوظ کرلیا گیا۔

اب وہ ڈاکٹر خادم کے کلینک پر پہنچے اور کلینک کا تالا کھول کر اندر داخل ہوگئے۔ اس طرح داخل ہونا عام پولیس کے لیے ضرور غیر قانونی تھا لیکن انہیں ایسے کاموں کی سرکاری سطح پر اجازت تھی۔ اندر داخل ہوکر انہوں نے ڈاکٹر خادم کی میز اور کرسی کا جائزہ لیا۔ اس پر سے بھی نشانات اٹھائے گئے۔

آخر انسپکٹر جمشید نے کہا:

اب مجھے اس بات پر میں کوئی شک نہیں رہ گیا کہ ہمارا مجرم ڈاکٹر خادم ہے اور اس نے اپنا ایک فرضی نام ڈاکٹر سرورباجوہ بھی رکھا ہوا ہے۔ وہ اس دوسرے نام سے لوگوں کو دھوکا دیتا ہے، بلیک میل کرتا ہے اور یادداشت غائب کرنے کی دوا دے کر دونوں ہاتھوں سے دولت لوٹ لیتا ہے۔ اپنے سارے چکر میں مدد کے لیے اس نے پانچ آدمی ملازم رکھے ہوئے ہیں۔ یہ کہتے ہوئے وہ ان کی طرف مڑے:

ہاں تو تمہارا باس یادداشت غائب کرنے والی دوا کس طرح دیتا ہے؟

یہ راز اس نے ہمیں بھی نہیں بتایا۔ان میں سے ایک نے کہا۔

دیکھو بھئی! جھوٹ نہ بولنا۔ ورنہ!!“ انہوں نے گویا دھمکی دی۔

جی نہیں! ہم جھوٹ نہیں بول رہے۔ ہمارے ذمے تو بس رقم وصول کرنے اور علاج والی دوا پہنچانے کا کام ہے۔ ملنگوں کی قسم کی بہروپ میں ہم لوگ رقمیں وصول کرتے رہے ہیں اور دوا ان لوگوں تک پہنچاتے رہے۔ وہ یادداشت غائب کرنے والی دوا کیا ہے، یہ ہمیں معلوم نہیں۔

اور رقم وصول کرکے تم کیا کرتے ہو؟

اس کوٹھی میں آجاتے ہیں۔ رقم میز پر رکھ دیتے ہیں اور باہر نکل جاتے ہیں۔

اچھی بات ہے۔ ہم معلوم کر ہی لیں گے ان شاءاللہ۔

اب انسپکٹر جمشید ان کی طرف مڑتے ہوئے بولے:

حیرت کی بات یہ ہے کہ شہر میں یہ کوٹھی ڈاکٹر خادم کی سمجھی جاتی ہے لیکن یہاں وہ رہتا نہیں۔ اس کا مطلب ہے بیوی بچوں کے ساتھ وہ کہیں اور رہتا ہے۔ اور غالباً وہاں وہ کسی اور نام سے رہتا ہوگا اور یہاں سے فرار ہونے کے بعد وہ ضرور وہیں گیا ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ ہم اس دوسری کوٹھی کا سراغ کس طرح لگائیں، اس تک کیسے پہنچیں؟ کلینک پر تو وہ اب آئے گا نہیں؟

مطلب یہ کہ ہمارا اس بار کا مجرم بہت چالاک ہے۔ وہ چکنی مچھلی کی طرح ہمارے ہاتھوں سے نکل گیا ہے۔محمود نے برا سا منہ بنایا۔

یہی بات ہے۔ لیکن ہم بھی اسے نہیں چھوڑیں گے۔ اس کا سراغ لگا کر رہیں گے اور اس کے لیے ہمیں ڈاکٹر خادم کا ریکارڈ دیکھنا ہوگا۔ یہ صاحب کون ہیں، کہاں کے رہنے والے ہیں؟ کہاں پیدا ہوئے؟ ڈاکٹری کی ڈگری انہوں نے کب اور کہاں سے وصول کی۔ شاید ان معلومات سے ہمیں کوئی سرا ہاتھ آجائے۔

ہوں!“ انہوں نے سرہلا دیئے۔

تو پھر چلو، ہسپتال کے ریکارڈ سے پہلے یہ معلومات حاصل کرتے ہیں۔

انہیں جلد ہی تمام معلومات حاصل ہوگئیں۔ وہ ایک گاو¿ں دولت پور کا رہنے والا تھا۔ انہوں نے اسی وقت دولت پور کا رخ کیا۔ ڈاکٹر خادم کا آبائی گھر تلاش کرنا کچھ بھی مشکل ثابت نہ ہوا۔ اس کے بوڑھے باپ نے انہیں چارپائیوں پر بٹھایا۔ جب اسے معلوم ہوا کہ وہ لوگ اس کے بیٹے ڈاکٹر خادم کی تلاش میں آئے ہیں تو وہ بہت حیران ہوا اور کہنے لگا:

حیرت ہے، آپ لوگ یہاں اس کی تلاش میں آئے ہیں۔ وہ تو جب سے ڈاکٹر بنا ہے اس نے کبھی ہم سے ملنے کی کوشش نہیں کی۔ میں نے اسے لکھا یا پڑھایا، اپنی ساری زندگی کی کمائی اسے ڈاکٹر بنانے پر لگادی۔ جب وہ وقت آیا کہ وہ ڈاکٹر بن کر بوڑھے ماں باپ کی خدمت کرے تو اس نے آنکھیں بدل لیں۔ یوں جیسے ہم اس کے کبھی کچھ لگتے ہی نہیں تھے۔یہ کہتے ہوئے بوڑھے کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔

انہوں نے دیکھا گھر میں ویرانی کا راج تھا اور بے سروسامانی صاف نظر آرہی تھی۔ گویا بوڑھے ماں باپ سخت تنگ دستی کی حالت میں تھے اور بیٹا ڈاکٹر بننے کے بعد جائز روزی بھی نہیں کما رہا تھا۔ وہ ناجائز ذرائع سے دولت سمیٹ رہا تھا۔ اس وقت انہوں نے ڈاکٹر خادم عرف ڈاکٹر سرور باجوہ سے شدید نفرت محسوس کی۔ 

آپ اپنے بیٹے کی کوئی خاص عادت بتا سکتے ہیں؟

بوڑھے باپ نے حیران ہوکر پوچھا:

مسئلہ کیا ہے؟ کیا وہ کہیں گم ہوگیا ہے؟بوڑھے باپ نے حیران ہوکر پوچھا۔

ہاں! یہی بات ہے۔ ہم لوگ انہیں تلاش کررہے ہیں۔

اللہ کرے وہ ہمیشہ کے لیے گم ہوجائے۔ اس کا نام و نشان مٹ جائے۔

یہ…. یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں باپ ہوکر؟

میں کیا، اس کی تو ماں تک اسے دن رات بددعائیں دیتی ہے بلکہ بددعائیں دیتی نہیں تھکتی۔ اس نے ہمیں بہت ستایا ہے۔ مم مگر…. آپ لوگ ہیں کون؟ اور اس کے بارے میں کیوں پوچھ رہے ہیں؟

دراصل ہمارا تعلق پولیس سے ہے، اور آپ کے بیٹے صاحب آج کل ناجائز طریقوں سے دولت سمیٹ رہے ہیں۔ اسی سلسلے میں ہم انہیں تلاش کررہے ہیں۔

آپ…. آپ کا مطلب ہے…. آپ اس بدبخت کو گرفتار کرنا چاہتے ہیں؟اس نے خوش ہوکرکہا۔

ہاں! یہی بات ہے۔

یہ بہت بڑی خوشی کی خبر ہے۔ آخر اسے ہماری بددعائیں لے بیٹھیں گی۔اندر سے بوڑھی عورت کی آواز سنائی دی۔

اچھا! بابا ذرا اس کی کوئی خاص عادت بتائیے گا۔

اس کی ایک خاص عادت یہ ہے کہ جب ہنستا ہے، یعنی قہقہہ لگاتا ہے تو صرف دو مرتبہ ہاہاہا…. ہاہاہا کہتا ہے ایک اور عادت یہ ہے کہ اپنے ناخنوں سے کسی نہ کسی چیز کو کریدتا رہتا ہے۔بوڑھا بولا۔

اور کوئی بات؟انسپکٹر جمشید پر جوش انداز میں بولے۔

پانی ہمیشہ بائیں ہاتھ سے اور ایک سانس میں پیتا ہے۔ جب تک گلاس خالی نہ ہوجائے، کبھی منہ گلاس سے نہیں ہٹاتا۔ میں نے اور اس کی ماں نے ہمیشہ اسے اس بری عادت سے روکا لیکن وہ جواب میں ہمیشہ ہنس دیتا تھا اور کہتا تھا، اس سے کیا ہوتا ہے؟

بس ہمارے لیے اتنا ہی کافی ہے۔ اب ہم اسے پکڑ لیں گے اور ہاں! یہ رکھ لیں۔

انہوں نے ایک لفافہ ان کی طرف بڑھایا۔

یہ…. یہ کیا ہے؟

یہ ہماری طرف سے تحفہ ہے۔

صرف آپ کی طرف سے۔ اپنی طرف سے ہم الگ سے انہیں ایک تحفہ دینا چاہتے ہیں۔محمود بول پڑا۔

واہ محمود! تم نے تو میرے منہ کی بات چھین لی۔

نن…. نہیں تو میں نے چھینی تو نہیں!“ فاروق بوکھلا اٹھا۔

پھر ان دونوں نے بھی ایک ایک لفافہ انہیں دیا اور باہر آگئے۔ ان تینوں لفافوں میں کرنسی نوٹ تھے اور اس قسم کے لفافے وہ اپنے پاس رکھتے تھے۔

اسی شام وہ وزیر صحت سے ان کی کوٹھی میں ملاقات کررہے تھے اور انہیں اپنا منصوبہ سنا رہے تھے۔ اس کے ایک ہفتہ بعد وزیر صحت کی طرف سے تمام ڈاکٹر حضرات کو ایک تقریب میں بلایا گیا تھا۔

انسپکٹر جمشید، محمود اور فاروق ایسی جگہ بیٹھے تھے جہاں سے وہ بخوبی سب مہمانوں کو دیکھ سکتے تھے لیکن انہیں کوئی نہیں دیکھ سکتا تھا اور نہ ان کی موجودگی کے بارے میں کسی کو معلوم تھا۔ ان حالات میں تقریب شروع ہوئی کھانے پینے کا دور چلا اور بہت دیر تک جاری رہا۔ وہ بغور سب کا جائزہ لیتے رہے۔ پھر اچانک وہ اس ہال میں پہنچ گئے اور ایک ڈاکٹر کے پیچھے جاکھڑے ہوئے۔

محترم ڈاکٹر سرور باجوہ صاحب السلام علیکم!“

ڈاکٹر صاحب بہت زور سے اچھلے۔ ان کے چہرے پر بلا کر گھبراہٹ طاری ہوگئی۔

کیا نام لیا آپ نے میرا؟ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے، میرا نام سرور باجوہ نہیں ہے۔

تب پھر آپ کا نام ڈاکٹر خادم ہوگا۔انسپکٹر جمشید مسکرائے۔

اتنے میں وزیرِ صحت اس جگہ پہنچ گئے۔

خیر تو ہے ڈاکٹر کرامت بیگ! یہ حضرات آپ کو پریشان تو نہیں کر رہے؟یہ کہتے ہوئے وہ مسکرائے بھی۔

جج…. جی…. جی ہاں…. سر! کچھ ایسی ہی بات ہے۔

کیوں جناب! آپ انہیں کیوں پریشان کررہے ہیں؟

اس لیے کہ یہ کرامت بیگ نہیں ہیں بلکہ ان کا نام ہے ڈاکٹر سرور باجوہ…. یا پھر ان کا نام ڈاکٹر خادم۔ اس نام سے تو خیر یہ اپنا کلینک بھی چلاتے رہے ہیں، کرامت بیگ کے نام سے معلوم نہیں کیا کررہے ہیں۔

یہ سوال ہسپتال میں ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر صاحب! آپ خود وضاحت کردیں…. آپ کا نام کیا ہے؟

میرا نام ہے ڈاکٹر کرامت بیگ۔اس نے برا سامنہ بنایا۔

ٹھیک ہے! ہم دولت پور گاو¿ں سے آپ کے بوڑھے ماں باپ کو بلا لیتے ہیں۔ وہ آپ کو آپ کا صحیح نام بتائیں گے۔

کیا؟وہ بہت زور سے اچھلا۔ اب تو اس کی آنکھوں میں خوف دوڑ گیا۔

جناب! یہی ہیں ہمارے مجرم۔ ان کا اصل نام ڈاکٹر خادم بشیر ہے۔ یہ گاو¿ں دولت پور میں پیدا ہوئے۔ ماں باپ نے غربت کے باوجود نہ جانے کتنی محنتوں سے انہیں ڈاکٹر بنایا لیکن ڈاکٹر بننے کے بعد یہ کسی غریب کے تو کیا کام آتے، انہوں نے اپنے ماں باپ تک کو ٹھکرا دیا۔ انہیں بھوک اور غربت کے اندھیروں میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا اور خود ان پر لالچ کا بھوت اس حد تک سوار ہوا کہ دولت کمانے کے لیے انتہائی ناجائز اور گھٹیا ذریعے اختیار کرلیے تفصیلات آپ صبح کے اخبارات میں دیکھ ہی لیں گے۔ فی الحال یہ بات طے ہے کہ شہر میں جو یادداشت غائب ہونے کی وارداتیں ہوتی رہی ہیں اور ان کے علاج کے لیے پراسرار طریقہ اختیار کیا جاتا رہا ہے، ان سب کے پیچھے انہی صاحب کا ہاتھ تھا۔ جنگلات سے انہیں ایک جڑی بوٹی مل گئی تھی۔ اس پر انہوں نے تجربے کئے۔ اچانک ان کے سامنے یہ بات آئی کہ اس سے یادداشت غائب ہوجاتی ہے۔ پھر انہوں نے اس کا توڑ تلاش کیا۔ تجربات کئے آخر توڑ بنانے میں بھی کامیاب ہوگئے۔ اس کے بعد وہ اپنے نسخوں میں جسے چاہتے وہ دوا دے دیتے۔ اب اگر یہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس ان کے خلاف ثبوت کیا ہے؟ تو ڈاکٹر خادم والی کوٹھی یہ کام میں لاتے رہے ہیں۔ وہاں کی میز پر ناخن سے کھرچنے کے سو فیصد ایسے ہی نشانات نظر آئیں گے۔ جیسے اس وقت ان کی میز پر آپ کو موجود ملیں گے۔

ہاہاہا…. ہاہاہا۔اس نے پاگلوں کے انداز میں قہقہہ لگایا۔

لیجیے! ثبوت مکمل ہوگیا۔ بس اس قہقہہ کی کمی تھی۔

کیا کہا؟ قہقہے کی کمی؟ یہ کیا بات ہوئی؟

اور وہ انہیں اس کے بارے میں بتانے لگے۔ اس وقت تک بہت سے مہمان ان کے گرد جمع ہوگئے تھے۔ اور ڈاکٹر خادم اور ڈاکٹر سرور باجوہ کے کارنامے سن کر ان سب کے سرشرم سے جھکتے جارہے تھے۔

٭….٭….٭

اس سلسلے کی مزید تحاریر

موت کا جزیرہ

پانچ قدم پہ موت

آخری امید

سازشی چہرہ

بھوت بنگلہ

خونی سائنسدان

خونی جال

چوہے دان

2 Comments

  • کیا انکی پی ڈی ایف مل سکتی ہے۔اپکی کویٰ ایپ ہے

  • PDF please

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!