دوسری صُبح جب اماں اُسے اٹھانے آئیں تو اس کے ہاتھ پاﺅں مُڑے ہوئے تھے۔ منہ سے جھاگ نکل رہا تھا۔ ”اللہ خیر“ کہہ کر انہوں نے بالے کو آواز دی۔ ”بالے روبی دوڑ کر
“مریم، تم بچوں جیسی باتیں کر رہی ہو،” انھوں نے اسے سمجھایا، “تمھارے خیال میں زیدان اپنا بہترین مستقبل ، اور اس سے بھی بڑھ کر اپنی خاندانی عزت، داؤ پر لگاتے ہوۓ تم سے
حسن کا دل بھر آیا، آنکھیں ڈبڈبا آئیں۔ ممانی کو گلے لگا کر تسلی دی۔ کہا: ”آپ فکر نہ کریں، ممانی۔ میں اپنی جان لڑا دوں گا۔ ہمارا منّا ضرور مل جائے گا۔” نانی نے
حسن نے گڑبڑاکر کہا: ‘‘پوتے پوتیاں؟ وہ کہاں سے آئیں گے؟’’ عاصم نے گہرا سانس لے کرکہا: ‘‘سائنس نے بڑی ترقی کرلی ہے یار۔ بڑے بڑے طریقے ہیں ٹیسٹ ٹیوب بے بی پیدا کرنے کے۔’’
اگلے دن حسن نے حسب ِ وعدہ چند خوبصورت قیمتی ملبوسات گھر بھجوائے اور خود خوشی خوشی اس انتظار میں بیٹھ گیا کہ کب رات آئے اور بندہ گھر کو سدھارے اور اپنا رشتہ طے
چنانچہ حسن بدر الدین کو توالی گیا اور ماموں کے اغواء کا پرچہ درج کرایا۔ اس کے بعد وہ تمام رات شہر کے ہسپتالوں میں پھرتا رہا اور ماموں کو ڈھونڈتا رہا۔ بار بار کبھی