سلیم ناصر لعل خان یہ 1982/83ء کی بات ہے ،انور مقصود صاحب نے اپنے مشہورِ زمانہ شو ‘‘سلور جوبلی ’’ میں آنے والے مہمان کا تالیوں کی گونج میں استقبال کیا۔ آپ اگر انور مقصود
”نہیں، یہ تو بس آپ لوگوں کا حسن نظر ہے ورنہ میری تحریر میں ایسا کچھ خاص نہیں ہوتا بلکہ بہت سے لوگ ایسے بھی تو ہیں جنہیں میری رائے یا تحریر سے اختلاف بھی
”غریب لوگ بھی گھومنے پھرنے جا سکتے ہیں نا؟“ اُس نے حسرت کی باریک سوئی میں مان سے سوال کا دھاگا گزارا۔ ”عقل مندی کی بات کر ، بڑا مشکل ہے یہ۔“ صغیر نے بے
میں شکستہ انداز میں وہاں سے روانہ ہوا۔میری نگاہوں سے اس کا ملول چہرہ نہیں ہٹتا تھا، وہ اپنے شوہر کے بغیر جیتے جی مر گئی تھی۔میں اس درداں ماری کے خیالوں میں کھویا مایوسیوں
تانیہ نے انگلش لڑیچرمیں ماسٹرز کررکھا تھا اور وہ ٹالسٹائی ، تھامس ہارڈی اور ورجینا وولف کے ناولز کی شیدائی تھی۔ دانش کو ایسے لگا کہ یہی ہے وہ چہرہ ، یہی ہے وہ لڑکی
دوست رمشاجاوید علی نے پوری طاقت سے بال کو احسن کی طرف پھینکا۔ احسن نے بلا گھمایا لیکن بال اس کے گھٹنے میں آکر لگی، وہ درد سے گھٹنا پکڑے زمین پر بیٹھ گیا۔