شادی کے تمام تر فنکشن بہ خیروخوبی اختتام پذیر ہوئے تو رانی رخصت ہوکر پیادیس سدھار گئی۔ رانی تو شوکت کا ساتھ پا کر یوں خوش تھی، جیسے اس نے کسی وزیر کے بیٹے سے
میں پل کے نیچے لگے ہوئے سبزی کے ٹھیلوں کے پاس کھڑا ٹریفک دیکھ رہا تھا،جب میں نے سڑک کے کنارے چودہ یا پندرہ سال کی لڑکی کو دیکھا۔ اس نے میلا کچیلا بدرنگ سا
مہمان آنے والے تھے میں ڈرائنگ روم کی صفائی اور جھاڑ پونچھ میں مصروف تھی کہ مجھے کھڑکی کے بالکل قریب ایک عورت کی سسکیوں کی آواز سنائی دی۔ پہلے تو واہمہ سمجھ کر نظر
”السلام علیکم شہباز صاحب،آپ نہیں جانتے کتنی مشکل سے آپ کا پتا معلوم کیا ہے۔ آپ کو خط لکھتے وقت میرا دل زور زور سے دھڑک رہا ہے، میں اپنے احساسات بتا نہیں سکتی ۔شہباز
ایک تھا فلسفی۔ پڑھتاکم، لکھتا زیادہ تھا بلکہ لکھنے پڑھنے سے بھی بڑھ کر وہ سوچنے کا زیادہ شوقین تھا۔ ایک دفعہ اس شخص کے جی میں آئی کہ کائنات کے راز سے پردہ اٹھایا
جان ڈریک نے اپنی گھڑی دیکھتے ہوئے مردم بیزار اور دل آزار لہجے میں کہا: ”دیکھو آنٹی! جو کچھ بھی کہنا ہے، جلدی سے کہہ دو، میرے پاس وقت بہت کم ہے۔” اس کی معمر
الیاسف اپنے تئیں آدمیت کا جزیرہ جانتا تھا۔ گہرے پانیوں کے خلاف مدافعت کرنے لگا۔ اس نے اپنے گرد پشتہ بنا لیا کہ محبت اور نفرت، غصہ اور ہمدردی، غم اور خوشی اس پر یلغار
یہ اک گمبھیر موضوع ہے یعنی موسم گرما، تو لکھنے کے لیے بھی کافی سنجیدہ ہونا پڑے گا۔ موسم گرما جو اپنے ساتھ بہت سارے مسائل، بیماریاں اور ٹینشن بھی ساتھ لاتا ہے، ویسے آج