بس رُک گئی۔ شائد کوئی سٹاپ تھا۔ پاس ہی گلبرگ مین مارکیٹ میں سموسے بک رہے تھے۔ اس بس سٹاپ پر سوٹوں، سینڈلوں اور کالج بیگوں کے درمیان گھرا ایک مجذوب بھکاری بُرے حالوں میں
باہر کی یونیورسٹی کی ڈگری: یہ ڈگریاں بہت مہنگی ہوتی ہیں، اس لئے ہر انسان نہیں حاصل نہیں کر پاتا اور سننے میں آیا ہے کہ یہ ڈگریاں بہت خالص اور طاقت ور بھی ہوتی
” منزہ کو کھو دیا میں نے ۔جو دوست تھی میری۔۔۔” لاؤنج کے سامنے والی سیڑھیوں پہ بیٹھی وہ پاگلوں کی مانند بڑبڑائی ۔ سامنے والی دیوار پہ بیٹھا ایک چیل اپنے پنجوں میں پکڑے
ٹونی روحیل کو نیہا کی سرگرمیوں کے حوالے سے مسلسل آگاہ کررہا تھا۔ پہلے روحیل نے باتوں کو اتنا سنجیدہ نہیں لیا تھا، پر اب بات حیرت اور اچھنبے والی تھی، بعض حلقوں میں نیہا
درخت کے سائے میں بیٹھے بیٹھے ایک دن وہ اُکتا گیا، یہ دنیا اتنی بڑی ہے میں کب تک یہاں پڑا رہوں گامجھے ضرور یہاں سے جانا ہوگا۔ ”میں یہاں سے جارہاہوں ” ایک دن
”لِکھ خالہ حبیبن مع اہل و عیال” اماں نے عینک درست کرتے ہوئے معمر کو کارڈز لکھوانے شروع کئے ”لکھ دیا اماں” اُس نے لکھا ہوا کارڈ ایک سائیڈ پہ رکھا اور دوسرا کارڈ یہ
”لالہ! اتنے پیسوں سے کام چل جائے گا؟” حکیم صاحب نے پیسے ہاتھ میں پکڑے انہیں گنا اور مایوسی سے سر ہلایا۔ ”بڑے ہسپتالوں میں تو بیٹا داخلے داخلے میں ہی اتنی رقم نکلوا لیتے
زندگی اگر بے کیف ہو تو اس میں آنے والا بدلاؤ، بھی کوئی معنی نہیں رکھتا ہے اور نہ ہی مزاج میں ارتعاش پیدا کرتا ہے۔ ایسے میں انسان روبوٹ بنا اپنے ریموٹ کے بٹن