عصر کا وقت تھا جب وہ دوستوں کے ساتھ کرکٹ کھیلنے کے لیے گھر سے نکلنے لگا ۔اُسے لان میں بیٹھکر تسبیح پڑھتے دادا ابو کی آواز سُنائی دی۔ ”اسد بیٹا ! نماز کا وقت
چلتا جا تُو الف نگر میں! ضیاء اللہ محسن چاند چکوری ہوتا بھیّا تارے ہوتے گول سورج چاچو لمبے ہوتے کھمبے گول مٹول چُوں چُوں چڑیا چارہ کھاتی ٹھک ٹھک بجتا ڈھول کہاں ہے ممکن؟
میں نے پالے طوطے چار ارسلان اللہ خان میں نے پالے طوطے چار جن سے کرتا ہوں میں پیار پانی پیتے ہیں یہ خوب کھانا کھاتے ہیں بسیار بلّی سے اور چوہے سے ہر دَم
کچھ دلبرداشتہ سی ہوکر شہر بانو نے اپنی توجہ ونڈوشاپنگ پر مرکوز کرلی۔ ایک شواسٹور کی ونڈو میں لگے ہوئے ایک جوتے نے اس کی نظر اپنی طرف بھٹکائی تھی۔ وہ چلتے چلتے ر ک
نویں انعام یافتہ نظم دادی جان نے دال پکائی سارہ قیوم دادی جان نے دال پکائی امی، ابو، آپا، بھائی ناک بھوں سب نے چڑھائی دادی جان نے دال پکائی کاش بنائی ہوتی چُوری کُنا،
مثال، شیردل کے گھر سے صرف لاہور کے سفر کے دوران ہی روتی نہیں رہی تھی، وہ امریکا کی فلائٹ میں بھی اسی طرح روتی رہی تھی۔ شہربانو کی دھمکیوں، ڈانٹ ڈپٹ، پیار، تسلیوں اور
اس کی آنکھوں میں خوابوں کے مردہ بیج دبے ہوئی تھے جیسے پھولوں کے بیج زمین میں گرتے ہیں اور پھر بہار کے موسم میں اسی جگہ سے اگتے ہیں۔ لیکن اس کی آنکھیں بنجر