”کیوں؟” ”یہ اچھی بات نہیں ہے، اس طرح آپ لوگوں کے ساتھ جانا۔” ”سو واٹ!” اس نے خاصی لاپروائی سے کہا۔ ”خیر ٹھیک ہے۔ تم نہیں جانا چاہتی تومیں مجبور نہیں کروں گا۔یہ بتاؤ تمہارے
”علیزہ ! میں یہاں سے ناراض ہو کر نہیں گیا۔ اپنی خوشی سے گیا ہوں اور اکثر آتا جاتا رہوں گا۔” اس نے نرمی سے کہا۔ ”پلیز آپ واپس آجائیں……جب تک آپ واپس نہیں آئیں
”تھینک یو!” کچھ دیر کے بعد اس نے کہاتھا۔ ”ویلکم!” اس نے اسی پر سکون انداز میں کہا تھا۔ ائیر پورٹ پر گاڑی پارک کرنے کے بعد اس نے علیزہ کا بیگ اٹھا لیاتھا۔ علیزہ
علیزہ اس کے سوال سے زیادہ مسکراہٹ سے گڑ بڑائی تھی۔ ”ایسے سوال کی کیا تک بنتی ہے؟” اس نے عمر جہانگیر کے چہرے سے نظر ہٹاتے ہوئے کچھ جھینپ کر کہا تھا۔ ”مجھے کیا
عصر کا وقت تھا جب وہ دوستوں کے ساتھ کرکٹ کھیلنے کے لیے گھر سے نکلنے لگا ۔اُسے لان میں بیٹھکر تسبیح پڑھتے دادا ابو کی آواز سُنائی دی۔ ”اسد بیٹا ! نماز کا وقت
چلتا جا تُو الف نگر میں! ضیاء اللہ محسن چاند چکوری ہوتا بھیّا تارے ہوتے گول سورج چاچو لمبے ہوتے کھمبے گول مٹول چُوں چُوں چڑیا چارہ کھاتی ٹھک ٹھک بجتا ڈھول کہاں ہے ممکن؟
میں نے پالے طوطے چار ارسلان اللہ خان میں نے پالے طوطے چار جن سے کرتا ہوں میں پیار پانی پیتے ہیں یہ خوب کھانا کھاتے ہیں بسیار بلّی سے اور چوہے سے ہر دَم