فلک جہاں ایک طرف وہ آواز سن کے پریشان ہوچکا تھا وہیں تھالی دیکھ کے بھی حیران تھا۔ اسی وقت اسے اپنے پیچھے سے آہٹ سنائی دی جسے محسوس کرکے وہ بدحواسی کے عالم میں
”کیا مطلب؟” اُ س نے مجھے گھورا۔ ”یار! ویسے دیکھا جائے تو وہ بھی غلط نہیں ہیں۔ ایک ماں ہونے کی حیثیت سے ان کے کنسرنز بالکل جائز ہیں۔” میں نے تھوک نگلتے ہوئے کہا۔
”ایکچوئیلی میں بھی یہی سپرے استعمال کرتی ہوں۔” ”same choice”! Good۔”روہاب نے خوشی سے کہا۔ ”چلیں؟” پلوشہ نے پوچھا۔ ”جی چلیے!” روہاب نے مہذب انداز میں اسے ہاتھ سے آگے چلنے کا اشارہ کیا۔ پلوشہ
لیکن وہ پھر بھی کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی پیچیدگی نکال ہی لیا کرتا۔ میں اسے کہتی کہ میں چاہے لاکھ مردوں سے بات کروں لیکن مجھ پر صرف تمہارا حق ہے۔ جس طرح
دنیاکی بڑی بڑی طاقتیں سر جوڑے ایک میز کے گرد جمع تھیں۔ ان کا ایجنڈا ”شام” تھا۔ دنیا میں کسی کے لیے یہ جاننا مشکل نہیں تھا کہ شام میں جابر حکمران کے عنان کے
”جلدی کوئی نوکری مل جائے گی۔” ”تم کام کرنا ہی نہیں چاہتے ورنہ کب کی نوکری مل جاتی۔” نسرین نے مورچہ نہیں چھوڑا تھا۔ ”بتایا تو ہے نوکریاں آسانی سے نہیں ملتیں۔”ناصر نے باورچی خانے