غرورِ عشق کا بانکپن — سارہ قیوم (دوسرا اور آخری حصّہ)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({}); ۱۲۔ سائبان شجاع اور اسمارہ جس وقت حویلی میں داخل ہوئے، مغرب کی اذان ہورہی تھی۔ بی بی جان اور زرینہ صحن میں بیٹھی تھیں۔ دن کے اختتام کا آغاز
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({}); ۱۲۔ سائبان شجاع اور اسمارہ جس وقت حویلی میں داخل ہوئے، مغرب کی اذان ہورہی تھی۔ بی بی جان اور زرینہ صحن میں بیٹھی تھیں۔ دن کے اختتام کا آغاز
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({}); ۲۔ قول و فعل عالم آراء نے گھوڑے سے اتر کر اس کی باگ سائیسں کو پکڑائی اور جیب سے نکال کر مصری کا ڈلاگھوڑے کو کھلانے لگیں۔ ہانپتے ہوئے
آف وائٹ چادر سے اپنے سر کو ڈ ھانپے ہوئے ضوفی کچن کا دروازہ کھولے باہر نکلی تھی۔ابھی وہ کچھ قدم ہی چل پائی تھی جب کا وش اُس کے بالکل برا بر میں چلنے
چھت کے درمیان میں ایک فانوس بھی لٹکا ہوا تھا اور سٹنگ ایریا کا فرش کارپٹ اور rugsسے coveredتھا۔ وہاں معمولی اضافوں کے باوجود سب کچھ اسی طرح رکھنے کی کوشش کی گئی تھی جیسے
لکڑی کی طشتری تھامے وہ تروق چائے سے بھری تین پیالیاں رکھے ہوئے تھی،یہ اُس سامان میں شامل تھا جو وہ رنمبور سے لائے تھے۔اپنے لکڑی کے برتن،خوب صورت قالین ،لکڑی کے تختے، چترالی مخصوص
لکڑی کے سخت اور قدرے غیر آرام تختے پر وہ آڑی تر چھی لیٹی تھی،درد سے بے حال۔اندھیرا کچھ باہر تھا اور بہت سارا اندر۔۔۔آنکھیں بند کیے مگر یو ں نہیں کہ اپنی مر ضی
”ابھی جس طرح گزر رہی ہے گزرنے دو۔ آرام سے مل بیٹھ کر کچھ سوچیں گے۔ پہلے تمہیں اچھی جاب ڈھونڈ نی ہوگی۔” ”میں تو خوابوں میں رہنے والی تھی۔ مگر اب یہی خواب عذاب
”ہاں… تو کیا ہمارا وطن صرف ہماری۔”محبت کا مدفن” ہوگا…؟” محبت ہمیشہ زندہ رہنے والا جذبہ ہے۔ جس سر زمین سے جذبات جڑے ہوں۔ اسے کبھی الوداع نہیں کہنا چاہیے۔” ”ایسا کرو… نورین اور شہزاد