نجات دہندہ — ردا کنول (پہلا حصّہ)
لکڑی کے سخت اور قدرے غیر آرام تختے پر وہ آڑی تر چھی لیٹی تھی،درد سے بے حال۔اندھیرا کچھ باہر تھا اور بہت سارا اندر۔۔۔آنکھیں بند کیے مگر یو ں نہیں کہ اپنی مر ضی
لکڑی کے سخت اور قدرے غیر آرام تختے پر وہ آڑی تر چھی لیٹی تھی،درد سے بے حال۔اندھیرا کچھ باہر تھا اور بہت سارا اندر۔۔۔آنکھیں بند کیے مگر یو ں نہیں کہ اپنی مر ضی
”ابھی جس طرح گزر رہی ہے گزرنے دو۔ آرام سے مل بیٹھ کر کچھ سوچیں گے۔ پہلے تمہیں اچھی جاب ڈھونڈ نی ہوگی۔” ”میں تو خوابوں میں رہنے والی تھی۔ مگر اب یہی خواب عذاب
”ہاں… تو کیا ہمارا وطن صرف ہماری۔”محبت کا مدفن” ہوگا…؟” محبت ہمیشہ زندہ رہنے والا جذبہ ہے۔ جس سر زمین سے جذبات جڑے ہوں۔ اسے کبھی الوداع نہیں کہنا چاہیے۔” ”ایسا کرو… نورین اور شہزاد
’’ہائے میں مر گئی۔‘‘ تائی ایسری ایک دم گھبرا کر بولی، ان کی سانس پھول گئی۔ ’’ہائے اب تو مجھے نہانا پڑے گا، میں نے اس کا منہ بھی چوم لیا ہے۔ اب کیا کروں۔‘‘
‘درد ہورہا ہے؟ اپنے درد کی کتنی فکر ہے تمھیں اور میرا درد دکھائی نہیں دیتا؟ ہوس۔۔ ہوس ہوتی کیا ہے اِسکے معنی بھی کہاں جانتی ہیں تم جیسی نازک مِزاج اور سیدھی لڑکیاں۔ عرشیہ
رابیل نے کمرے میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے اپنی پیاری سی بھابھی کو گلے لگایا۔ اُسکی تو من پسند لڑکی اِس گھر میں اُسکی بھابھی بن کر آگئی تھی۔اُسکی خوشی کا کوئی ٹھکانا
جب سے الوینہ نے یہ انکشاف کیا تھا کہ روحیل عرشیہ کو پسند کرنے لگا ہے تب سے اُسکی نفرت بڑھتی جارہی تھی۔ اُسے وہ شخص ناقابلِ برداشت لگنے لگا تھا جو زبردستی اُسکی پُر
”اب کوئی شہزادہ، راستے کی مشکلیں پار کرتا شہزادی کو کھوجنے نہیں آتا۔ بلکہ مشکلوں سے گھبرا کر واپس لوٹ جاتا ہے۔” اس کی ذہنی رو پھر بہکنے لگی تھی۔ ”صحیح والی کہانی سناناں۔” کاکے