وہ موسمِ زرد کی ایک شام تھی! اس دن بھی وہ ریسٹورنٹ کی اسی نشست پراُداس بیٹھا تھا، جہاں وہ اپنی مرحومہ بیوی روزینہ کے ساتھ اکثر شام کافی پیتے ہوئے ڈھیروں باتیں کیا کرتا
بتول آخری چوڑی پھینک کر کھڑی ہوگئی تھی۔ وہ اور موتیاHansel اورGretel تھے پر اُن کی کہانی Hansel اورGretel والی نہیں تھی۔HanselاورGretel نے جنگل میں گم ہوجانے ، راستہ یاد رکھنے کے لئے اپنے پاس
اندھیروں کے سفر میںدور سے نظر آنے والی روشنی ۔۔۔۔اور گہرا ئیوں میں گرتے ہوئے دل کی بلند دھڑکنیں ، اُداسیوں میں کہیں دور سے آنے والی گونج ۔۔۔۔ اور تنہائی کی وحشت میں آنکھوں
”ہاں ہاں پتر جا۔۔ ”سب ”سے مل کر آنا۔میں تیرے لئے دوسری ہانڈی چڑھاتی ہوں۔”اماں بھی اُٹھ کھڑی ہوئی۔ ”نہیں اماں۔۔ دوسری ہانڈی چڑھانے کی ضرورت نہیں،جو تو پکا رہی ہے میں وہی کھالوں گا۔”
”تو… کیا میں چوڑیاں پہن کر تماشا دیکھتا رہوں؟” اس نے لفظوں کی جگہ جیسے انگارے چباتے ہوئے جواب دیا۔ ”ہمیں حیدر کو نہیں… ایمان کو پکڑنا چاہیے… کیوںکہ ایمان ہماری آنکھوں میں دھول جھونکے
شام ڈھل چکی تھی۔ سرد موسم میںیہاں شام ڈھلتے ہی سناٹا چھا جاتا ۔ شہر سے کچھ دور یہ ایک چھوٹا سا پہاڑی گاؤں تھا جہاں کچھ ہموار قطعۂ زمین اور چھوٹی چھوٹی ڈھلانوں پر
(داستانِ شبِ غم اور قصہ روزِ درد، اُس مظلوم مخلوق کا جسے ”طالبِ علم” کہتے ہیں……) اپنی پیدائش کے چند لمحات بعد ہی وہ بے چارہ اس بات کا ماتم کر تانظر آتا ہے کہ