مراد چند دنوں بعد واپس انگلینڈ چلا گیا تھا۔ اُسے اپنی ڈگری مکمل کرنی تھی۔ واپسی کے سفر میں تانگے میں بیٹھے اُسے اپنے آنے کا سفر یاد آیا تھا جو اُس نے برستی بارش
ساجد تھکا ہارا گھر لوٹا جمیلہ نے اسے دیکھتے ہی آڑے ہاتھوں لیا:”اتنی رات گئے تک باہر کیا جھک مارتے رہتے ہو ۔تنخواہ تو تم اتنی کم رکھتے ہو میرے ہاتھ میں!” اِس کے طرزِ
”میں سمجھتا ہوں پر اس میں تمہاری کیا غلطی ہے؟حالتیں اگر اتنی غیر مناسب ہیں تو اس میں بھی عمل دخل تمہارے اپنے گھر والوں کا ہے۔جس نے گناہ کیا ہے وہ سوال کرنے کا
وہ موسمِ زرد کی ایک شام تھی! اس دن بھی وہ ریسٹورنٹ کی اسی نشست پراُداس بیٹھا تھا، جہاں وہ اپنی مرحومہ بیوی روزینہ کے ساتھ اکثر شام کافی پیتے ہوئے ڈھیروں باتیں کیا کرتا
بتول آخری چوڑی پھینک کر کھڑی ہوگئی تھی۔ وہ اور موتیاHansel اورGretel تھے پر اُن کی کہانی Hansel اورGretel والی نہیں تھی۔HanselاورGretel نے جنگل میں گم ہوجانے ، راستہ یاد رکھنے کے لئے اپنے پاس