حسن نے گڑبڑاکر کہا: ‘‘پوتے پوتیاں؟ وہ کہاں سے آئیں گے؟’’ عاصم نے گہرا سانس لے کرکہا: ‘‘سائنس نے بڑی ترقی کرلی ہے یار۔ بڑے بڑے طریقے ہیں ٹیسٹ ٹیوب بے بی پیدا کرنے کے۔’’
اگلے دن حسن نے حسب ِ وعدہ چند خوبصورت قیمتی ملبوسات گھر بھجوائے اور خود خوشی خوشی اس انتظار میں بیٹھ گیا کہ کب رات آئے اور بندہ گھر کو سدھارے اور اپنا رشتہ طے
چنانچہ حسن بدر الدین کو توالی گیا اور ماموں کے اغواء کا پرچہ درج کرایا۔ اس کے بعد وہ تمام رات شہر کے ہسپتالوں میں پھرتا رہا اور ماموں کو ڈھونڈتا رہا۔ بار بار کبھی
حسن نے آنسو پونچھ کر کہا: ‘‘یہ بھی خدا کا احسان ہے کہ مجھے اس گھر میں پہنچایا، بروں کے ہتھے نہ چڑھایا۔ کسی ایسے ویسے گھر میں جاتا تو خدا جانے کیا روز بد
زلیخا اکیڈمی جانے لگی اور دن و رات کا ہر پل پڑھائی میں بتانے لگی۔ حسن اسے اپنی بائیک پر اکیڈمی لے جاتا اور واپس بھی لے آتا۔ وہ خود ازحد مصروف تھا لیکن مصروفیت