ان کی شادی میں چند مہمان ہی تھے ۔ ڈاکٹر فضل الٰہی ، اعتبار احمدکی فیملی ، ہانیہ اور قرةالعین ۔ قرة العین بظاہر مسکرا رہی تھی’ مگر بجھی بجھی سی تھی۔ اس نے قبول
اگلے ہفتے ماسٹر صاحب کے ہاں چوری ہو گئی۔ ان کا کنبہ چند دنوں سے کہیں گیا ہوا تھا۔ اس رات وہ خود بھی کہیں مدعو تھے۔ گھر خالی تھا۔ کوئی موقع پر آکر بالکل
ابو بہت خوش اور مطمئن ہوگئے تھے اور یوں میرا وہ خرگوش کی رفتار سے بھاگنے والا بھائی راستے میں سوتے سوتے پھر سے جاگ گیا تھا، نئے میدان فتح کرنے کے لیے۔ فاتح تو
”باادب! باملاحظہ! ہوشیار…مس ظرافت کچن کے ہموار پختہ فرش پر قدم دکھ چکی ہیں۔ لہٰذا کوئی بڑا یابچہ آس پاس پھٹکنے نہ پائے ورنہ جنابِ من کپ نہیں تو پلیٹ،پلیٹ نہیں تو ٹرے،ٹرے نہیں تو
اگلے دن بیٹھک میں ہمارا نکاح ہو گیا۔ زمیندار نے پیسے کا ڈھیر لگا دیا۔ آپی نے رو کر لوٹا دیا۔ بولی ”سودا نہیں کر رہی،اپنی دھی وداع کر رہی ہوں اور یاد رکھ!یہ خواجہ