عبادالرحمن

روشنی نے جھٹکے سے سر اٹھا کر حیرت سے اسے دیکھا۔ وہاں شرارتی سی مسکراہٹ رقصاں تھی جیسے بچپن میں وہ کوئی شرارت کرنے کے بعد ہنستا تھا۔ فرق صرف یہ تھا کہ اب اس کا ڈمپل ڈاڑھی کے پیچھے کہیں چھپ جاتا تھا۔

روشنی نے کچھ نہیں کہا اور سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئی۔ وہ کھڑا اسے جاتے دیکھ رہا تھا۔ 

تم بھی کافی بدل گئے ہو۔وہ رکی پھر اس نے سیڑھی کے پہلے سٹیپ پر قدم رکھ کر اسے مڑ کر دیکھا ۔

اچھا کیا بدلا ہے مجھ میں ؟اس نے سینے پر ہاتھ باندھ کر پوچھا۔

تم بھی موٹے ہوگئے ہو۔اس نے اس کا جملہ اسے لوٹایا اور فوراً بھاگی بھاگی عائشہ کو سینے سے لپٹائے اوپر آگئی۔ پیچھے سے اسے ہادی کا قہقہہ سنائی دیا۔ اندر مولوی صاحب کی بیگم مسکرا رہی تھیں۔

ہادی کو آئے پندرہ دن ہوگئے تھے۔ وہ ایک مہینے کی چھٹی پر آیا تھا اور اس کا ارادہ تھا اس بار جائے گا، تو اپنے ماں باپ کو لے کر ہی جائے۔ یہ اسلام آباد سے ملحق علاقہ تھا اور وہ خود بیچ شہر ،میں رہتا تھا۔ اس کا کون تھا ان کے سوا اس لیے اس بار اس نے ضد باندھ لی تھی کہ آپ لوگ بھی ساتھ چلیں۔

اور روشنی کی سوچیں بس یہیں تک جا رہی تھیں کہ ہادی اپنے ماں باپ کو لینے آیا تھا اس کا مطلب میری اب اس گھر میں کوئی جگہ نہیں بنتی۔ اب مجھے کوئی اچھی جاب اور رہنے کے لیے کرائے کا گھر ڈھونڈ لینا چاہیے۔ ویسے بھی میں نے اللہ کے ان نیک بندوں کو بہت آزمائش میں ڈال رکھا تھا۔ وہ عبادالرحمن ہیں، تو اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ میں ان کو آزماتی ہی رہوں، لیکن روشنی ابھی عبادالرحمن کی صحیح تعریف سے نا واقف تھی۔

یہ وہ ہوتے ہیں جن پر اللہ جتنی آزمائشیں ڈالتا ہے یہ شکر ادا کرتے ہیں، جتنا نوازتا ہے یہ اتنا ہی جھکتے چلے جاتے ہیں ، عبادالرحمن وہ ہوتے ہیں کہ جب اللہ کے بندوں کی مدد کا انہیں موقع ملتا ہے، تو خود کو خوش قسمت سمجھتے ہیں جیسے کہ مولوی انکل خود کو سمجھتے تھے اورعبادالرحمن وہ ہوتے ہیں جو خود رحمن کے بندے بن کر دکھاتے ہیں۔ روشنی کی طرح صرف ایسے لوگوں کو تلاش نہیں کرتے رہتے۔

لیکن روشنی نہیں جانتی تھی وہ بھی عباد الرحمن میں شامل ہونے والی تھی۔ کسی دوسرے عباد الرحمن کی وجہ سے۔

عبدالہادی میری اور تمہاری ماں کی خواہش ہے کہ تم ہمیں اسلام آباد لے جانے سے پہلے روشنی سے شادی کرلو۔مولوی عبدالقدیر نے آہستگی سے بیٹے کے سامنے اپنی پسند پیش کی تھی۔

وہ ان کے سامنے کرسی پر ادب سے بیٹھا تھا۔ اس کا یہی انداز ہوا کرتا تھا ہمیشہ سے۔

ہاں بیٹا روشنی بہت اچھی لڑکی ہے۔ ایک بے وفا شخص نے بے چاری کو اس حال پر پہنچا دیا ہے۔ اگر تم ہمیں اپنے ساتھ لے گئے تو ہمیں روشنی کو بھی ساتھ لے جانا ہو گا۔ یہاں چھوڑ کر نہیں جا سکتے اور روشنی کو تمہاری موجودگی میں ساتھ ساتھ رکھنا۔وہ رک گئیں۔

بیٹا تم سمجھ رہے ہو نا؟انہوں نے جملہ مکمل کیے بغیر کہا۔

ہادی نیچے کسی غیر مرئی نقطے پر نظر جمائے بیٹھاتھا اس نے ہلکی سی گردن ہلائی۔

بیٹا شادی تو تمہیں کرنی ہی ہے نا اور روشنی کی شادی سے پہلے تمہاری مرضی سے ہم نے افراز سے شادی کی بات بھی کی تھی، لیکن اس نے اس وقت اس لیے معذرت کرلی تھی کیوں کہ روشنی کی کہیں اور مرضی تھی، مگر اب جب قدرت نے اتنا اچھا موقع دیا ہے اتنی پیاری بچی کو اپنانے کا تو ہمیں انکار نہیں کرنا چاہیے۔مولوی عبدالقدیر گویا ہوئے۔

اور عائشہ….وہ تمہارے ابا سے اتنا مانوس ہو گئی ہے دور رہ کر اداس ہوجائے گی۔ بیٹا بچے تو پھول ہوتے ہیں نا۔ انہیں مرجھانا نہیں چاہیے۔انہوں نے محبت سے عائشہ کی طرف دیکھا جو ابھی بھی مولوی صاحب کی گود میں سو رہی تھی۔ وہ ماشا اللہ اب ایک سال کی ہونے والی تھی۔

وہ ابھی بھی چپ بیٹھا رہا۔

وہ ایک گھنٹے تک اسے سمجھاتے رہے ، مختلف پہلوں پر روشنی ڈالتے رہے۔ ہادی سب سنتا رہا اور وہ اس کی خاموشی کو اس کا انکار سمجھتے رہے ، یہاں تک کہ ہادی جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔

آپ لوگوں نے روشنی سے بات کرلی؟اس نے جاتے ہوئے پوری گفت گو کے درمیان بس ایک سوال کیا۔ 

مولوی صاحب اور ان کی بیگم نے ایک دوسرے کو دیکھا اور چپ ہوگئے۔ پھر خالہ جی بولیں۔

بس اُس کا ہی مسئلہ ہے وہ ہتھے سے اکھڑ گئی تھی یہ بات سن کر۔انہوں نے ایسے کہا جیسے یہ کوئی بات نہ ہو۔ 

اس نے عائشہ کو ان کی گود سے نرمی سے اٹھایا اور اپنے چوڑے سینے سے لگا لیا۔

میں روشنی سے خود بات کرنا چاہتا ہوں۔اس نے انہیں بتایا تھا، لیکن سوالیہ نظروں سے ان دونوں کی طرف دیکھا تھا جیسے اجازت کا منتظر ہو۔

مولوی صاحب نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ وہ عائشہ کو گود میں لیے اوپر آگیا۔

کمرے کے دروازے کی جھری سے اندر کی روشنی باہر آرہی تھی۔ دروازے پر ایک بار دستک دے کر وہ انتظار کرنے لگا کوئی جواب نہیں آیا۔ اس نے اتنا انتظار کیا جتنے کا ابا جی اسے بتاتے تھے کہ یہ سنت ہے، یعنی ایک شخص فرض نماز ادا کرلے اتنی دیر رک کر انتظار کرو اور پھر دوسری بار دستک دو۔

اس نے سیدھے ہاتھ سے عائشہ کو سینے سے لگائے لگائے پھر دستک دی ہی تھی کہ دروازہ کھل گیا۔

وہ واقعی نماز ہی پڑھ رہی تھی۔ کالے دوپٹے میں لپٹا اُس کا سفید چہرہ پورے چاند کے مانند لگ رہا تھا۔ اس طرح دیکھنے والے ڈھونڈنے سے بھی کوئی نقص نہیں ڈھونڈ سکتے تھے اس میں۔

اس نے عائشہ کو گود میں لینے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ اس نے اس کا ہاتھ نظر انداز کر کے آگے بڑھ کر نرمی سے بیڈ پر لٹا دیا۔ وہ دروازے کے پاس ہی کھڑی رہی۔

تم سے کچھ بات کرنی ہے۔وہ دروازے سے باہر جانے کے بہ جائے وہیں کھڑا ہوگیا۔

کہو۔وہ جیسے پہلے ہی جانتی تھی وہ بات کرے گا۔

روشنی ابا جی نے مجھے بتایا کہ….“

جو تمہارے ابا جی کہہ رہے ہیں وہ نہیں ہو سکتا۔اس نے اس کی بات کاٹ کر کہا۔

اس میں کیا حرج ہے۔

حرج نہیں ہے۔پر بہت نقصان ہے، وہ جذباتی ہو رہے ہیں، لیکن میں تمہیں عقل مند سمجھتی تھی۔

روشنی نے صاف گوئی کی حد کردی اور دروازے کے پاس موجود کرسی پر بیٹھ گئی۔ زیادہ دیر وہ ابھی بھی کھڑی نہیں رہ سکتی تھی۔

اس لیے تم عقل مندی کا فیصلہ کرو اور مجھے سمجھانے کے بہ جائے انہیں سمجھا۔

ہادی تھوڑی دیر تک خاموش رہا اور سوچتا رہا، پھر بولا۔

میں نے کہاوت سنی تھی کے رسی جل بھی جاتی ہے، تو اس کا بل نہیں جاتا۔ہادی نے اس کے مشورے کو یکسر نظر انداز کر کے کہا اور عائشہ کے پاس بیڈ پر بیٹھ گیا۔

میں نے بھی کہاوت سنی تھی کہ آنکھوں دیکھی مکھی نگلنا اور آج اس کی عملی تفسیر دیکھ رہی ہوں۔اس نے اپنے اوپر کیے جانے والے طنز کا برا نہ مناتے ہوئے اس پر ہی وار کیا۔ وہ دونوں ایک دوسرے سے ایسے ہی لڑا کرتے تھے۔

وہ مسکرا دیا۔

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۱

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!