عبادالرحمن

اس واقعے کہ کچھ دن بعد وہ اسپتال میں اپنے روم میں بیٹھی تھی۔ ریان اور ردا بھی ساتھ تھے۔

اُجالا میں نے آج بھوت دیکھا۔ریان اس کے سامنے بیٹھا سیب کھانے میں مشغول تھا کہ اچانک اس نے اجالا کو مخاطب کیا جس دن اس کی رات کی شفٹ ہوتی وہ ایسے ہی انکشافات کیا کرتا تھا۔

لیکن جیسے ہی میں اس کی جانب بڑھا وہ ایسے غائب ہوگیا جیسے…. جیسے….“ وہ کوئی مناسب سی مثال سوچنے لگا۔

جیسے ڈاکٹر فاروق کے سر سے بال۔اس نے ایک سینئر ڈاکٹر کا نام لے کر مذاق اڑایا جو کہفارغ البالتھے۔

اجالا نے اسے غصے سے گھورا جیسے اس کا مذاق اسے پسند نہیں آیا ہو۔

اس میں کوئی بڑی بات نہیں اجالا روز ہی بھوت دیکھتی ہے، بس کبھی کبھی نہیں بھی دیکھتی۔ردا نے اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔

اچھا کب نہیں دیکھتی؟اس نے پوچھا۔

جس دن تم نہیں آتے۔ردا نے کہا۔

ریان تلملایا پھر کرسی سے ٹیک لگا کر بولا ۔

مطلب اجالا اپنی آنے والی زندگی میں تو روز ہی بھوت دیکھا کرے گی۔اس نے آنکھ ماری اجالا کی رنگت سرخ ہوگئی اس بار غصے سے نہیں بلکہ شرم سے۔ ردا چپ چاپ دونوں کو دیکھنے لگی پھر مسکرا دی اور دل میں آمین کہا۔

دروازہ ناک ہوا اجالا کی اجازت پر دروازہ کھلا اور اظفر اندر داخل ہوا۔

اس کو داخل ہوتا دیکھ کر ردا اور ریان باہر آگئے۔

انکل آپ بیٹھیں۔اس نے کرسی کی طرف اشارہ کیا۔

وہ بیٹھ گیا۔

مائدہ کی پراگریس اور دیگر علاج کے بارے میں بتا کر وہ خاموش ہوگئی۔ ہادی سے ملنے کے بعد یہ ان کی پہلی ملاقات تھی۔ اظفر اس دوران اسپتال آتا رہا، لیکن اجالا سے ملاقات نہ ہو سکی۔

 اظفر شش و پنج میں اسے دیکھتا، وہ کچھ بات کرنا چاہ رہا تھا۔ 

ڈاکٹر صاحبہ آپ سے ایک بات پوچھوں؟اس نے قفل توڑا۔

جی پوچھیں۔اُجالا نے کہا۔

آپ کے والد اس دن مجھے دیکھ کر ایسے پریشان کیوں ہوگئے تھے؟

انکل یہ تو آپ بتائیں نا۔ ایسا لگتا ہے وہ پہلے سے آپ کو جانتے ہیں۔اجالا نے لا تعلقی کا اظہار کیا۔

نہیں میں تو….میں انہیں نہیں جانتا۔اس نے سچ کہا تھا وہ عبدالہادی کو نہیں جانتا تھا۔

ہمم پر بابا جانتے ہیں جب ہی تو…. پتا نہیں یہ کیوں کہا آپ سے دور رہوں۔اس نے جیسے انہیں کچھ کہنے پر ابھارا، وہ خاموش ہوگیا۔

کیا وکیل صاحب نے آپ کو کچھ بتایا نہیں؟اس نے جیسے دوبارہ یقین دہانی چاہی۔

نہیں انکل مجھے انہوں نے کچھ نہیں بتایا۔اس نے ایک طرح سے سچ ہی کہا تھا اجالا کو ہادی نے کچھ نہیں بتایا تھا جو بھی تھا وہ سب اس نے خود سنا تھا۔

اظفر پھر چپ ہوگیا۔

میرے بابا بہت اچھے ہیں۔ میں نے پہلی بار اُنہیں کسی کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کرتے دیکھا ہے، وہ بہت خوش اخلاق ہیں۔وہ یہ کہتی ہوئی کھڑی ہوگئی۔

انکل آپ پریشان نہ ہوں اگر ان کے سینے میں کوئی راز ایک بار دفن ہوجائے تو وہ باہر نہیں نکل سکتا۔وہ ٹہلتی ہوئی ان کی کرسی کے قریب آگئی۔

پھر انہیں خاموش دیکھ کر باہر جانے لگی۔

پر کچھ راز سینے پر بوجھ ہوا کرتے ہیں۔کچھ لمحے گزرنے کے بعد اظفر بولا، جیسے صدیوں کا سفر تہ کر کے آیا ہو۔

اُجالا کا دروازے کے ہینڈل کی طرف بڑھتا ہاتھ رک گیا۔ اس نے مڑ کر اظفر کو دیکھا، وہ سر جھکائے اپنی گود میں دیکھ رہا تھا۔

وکیل صاحب نے صحیح کہا تھا کہ یہ شخص برا ہے اس سے دور رہو۔وہ ڈوبی ہوئی آواز میں بولا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ اس کے حقیقت بتانے کے بعد وہ ڈاکٹر جو اس کی بیٹی کا علاج کر رہی ہے اس کے بارے میں کیا سوچے گی، لیکن وہ اس راز کے بوجھ کو اب مزید سینے پر نہیں رکھ سکتا تھا۔

میری بیٹی کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ میرے ہی کیے کی سزا ہے۔وہ بولا۔

نہیں انکل آپ کے کیے کی کیا سزا….یہ تو بس حادثہ تھا۔

نہیں یہ حادثہ نہیں تھا یہ میرے گناہوں کی سزا ہے جو میری بیٹی کو ملی ہے۔اس نے بات کو کاٹ دیا جیسے آج وہ سب کچھ بول دینا چاہتے ہوں۔

میں نے بھی پچیس سال پہلے ایک عورت پر….وہ میری بیوی تھی جس سے میں نے محبت کی شادی کی تھی، لیکن میں اتنا کم ظرف نکلا کہ نہ اسے محبت دے سکا نہ خوش رکھ سکا نہ ہی اس سے شادی قائم رکھ سکا۔وہ دھیرے دھیرے ایک ایک راز سے پردہ اٹھانے لگا۔ اُجالا خاموشی سے سنتی کبھی انہیں دیکھتی کبھی کمرے کی کسی اور چیز کو دیکھنے لگتی۔ اسے اب سمجھ آگیا تھا سامنے بیٹھا یہ شخص جو اس کا باپ ہے جب جب اپنی بیٹی کے زخم دیکھ کر روتا ہے، تو ساتھ ساتھ اور کن کن چیزوں کا ماتم کرتا ہے۔ بیٹی کا غم اپنی جگہ لیکن پہلی بیوی اور بیٹی کو تن تنہا بے آسرا چھوڑ دینے کا ملال بھی اس کے اشکوں سے چھلکتا تھا۔

اظفر اس بات سے بے خبر کے وہ اپنی بیٹی ہی کو سب بتا رہا ہے اس کے سامنے اپنی زندگی کا ایک ایک پل ایک ایک لمحہ کھول کر رکھنے لگا۔

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۱

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!