عبادالرحمن

اس نے سب بتانے کے بعد کہا کہ:

میں چاہتی ہوں جب ساری کارروائی ہونے کے بعد عدالت میں یہ کیس جائے تو آپ میری پیشنٹ کے وکیل ہوں۔ مجھے کسی اور کا اعتبار نہیں بس آپ ہی کر سکتے ہیں یہ۔اس نے بالآخر تھیلے سے بلی باہر نکال ہی دی۔

اچھا جب ہی کہوں اس قدر تفصیل کا کیا کام یہاں پر۔اس نے کہا۔

بابا آپ لڑیں گے نا کیس؟اس نے ہادی کے پاس آکر کہا۔

ہاں پہلے پولیس کارروائی تو کر لے۔انہوں نے پر سوچ انداز میں کہا۔

جی اس کے بعد میں پھر اس کے والد سے آپ کو ملوانے لے آں؟اس نے پوچھا۔

ہاں لیکن۔وہ کیس کی نوعیت جانے بغیر ہاں نہیں کرنا چاہ رہے تھے۔

بابا پلیز۔اس نے اصرار کیا ۔

اچھا بیٹا!لے آنا۔اس نے ہار مان لی۔

اب بتائیں مجھے کیا کیا سزا ہو سکتی ہے مجرم کی؟اس نے پوچھا۔

کیس پر ڈیپنڈ کرتا ہے اجالا ۔

اگر کوئی کسی کا ڈس فیگر یا ڈی فیس جرم کرتا ہے، تو تعزیرات پاکستان میں اس کی سزا کم سے کم چودہ سال اور دس لاکھ جرمانہ ہوگا ہی۔

اور زیادہ سے زیادہ؟اس نے بات کاٹی۔

زیادہ سے زیادہ عمر قید۔وہ مسکرایا۔

ایسے لوگوں کو پھانسی کیوں نہیں ملتی؟اس نے منہ بنایا۔

بیٹا عمر قید پل پل موت ہوتی ہے۔وہ دونوں چپ ہوگئے۔

پر بابا ایسے لوگوں کو چوک میں پھانسی دینی چاہیے، سب کے لیے عبرت بنا دینا چاہیے۔وہ آج کے کیس کے بعد زیادہ ہی دل برداشتہ ہوگئی تھی۔

پر یہ جرم انسان سوچ کر نہیں کرتا اجالا۔ سزا سے زیادہ اس سوچ کو بدلنا چاہیے ، تم بتاکوئی انسان کسی کا چہرہ، کسی کا جرم کیسے آگ میں دھکیل سکتا ہے؟ صرف اس لیے کہ اس کو ری جیکٹ کر دیا یا اُسے غصہ تھا۔ ان عوامل پر توجہ دینی چاہیے جس کی وجہ سے ایک مرد انتہائی قدم اٹھا لیتا ہے۔وہ بول رہے تھے۔

پر بابا قانون سخت ہوگا، تو جرم بھی کم ہوگا۔

وہ تو ہوگا اُجالالیکن تم دیکھو یورپ میں بھی ایسڈ اٹیک کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے جب کہ وہاں کا قانون سخت ہے پھر بھی، مسئلہ سوچ کا ہے اجالا سوچ نہیں بدل رہی۔ تیس سال پہلے بھی عورتوں کے ساتھ یہ بربریت یہ بہیمانہ سلوک ہو رہا تھا اور اب اتنے سال بیت جانے کے بعد بھی یہ سب ہو رہا ہے، حالاں کہ اس دوران قانون مزید سخت ہوگیا ہے، لیکن پھر بھی۔ اس وقت بھی عورتیں جل رہی تھیں اور آج بھی۔ہادی یک دم چپ ہوگیا اس کے سامنے روشنی کا سراپا لہرا گیا۔ آج بھی روشنی کمر کے درد کا شکار ہوجاتی ہے، آج بھی اس کی گردن پر کچھ نشان باقی ہیں۔

اجالا بھی کہیں کھو سی گئی تھی۔

اچھا اور بتاتمہاری آرگنائزیشن کا کیا ہوا؟ کب ہو رہا ہے اس کا افتتاح؟پھر ہادی نے پوچھا۔

بس بابا جلد ہی۔کچھ عرصے پہلے اجالا نے ایک این جی او شروع کرنے کا ارادہ کیا تھا جس میں وہ ایسے لوگوں خاص طور پر لڑکیوں عورتوں کا علاج کر سکے جو ایسڈ اٹیک کے بعد اپنے گھر والوں تک کی طرف سے دھتکار دی جاتی ہیں۔ ابھی اس نے بس سوچا تھا، لیکن ہادی اور روشنی کو اس کا ایسا سوچنا ہی بہت اچھا لگا تھا،روشنی کی تو خواہش پوری ہو رہی تھی اسے اور کیا چاہیے تھا۔

اس نے ثابت کر دیا کہ وہ اجالا ہے جس کی پرورش مولوی عبدالقدیر، ان کی بیگم اور ہادی جیسے لوگوں کے ہاتھوں ہوئی ہو وہ کیسے نہ دوسروں کا درد اپنے اندر محسوس کرتی۔ وہ آخر تھی نا روشنی کی اولاد تو وہ کیسے نہ یہ سوچتی کہ حالات جیسے بھی ہوں مجھے آگے بڑھنا ہے۔

اس سب میں ریان اور ردا اس کے مخلص دوست تھے اور اپنی خدمات انجام دینے کے لیے تیار تھے۔

مائدہ کی طبیعت بہتر ہو رہی تھی اب وہ خطرے سے باہر تھی۔ اس کے علاج کو آج دسواں دن تھا، وہ اب آئی سی یو سے پرائیویٹ کمرے میں منتقل کردی گئی تھی۔ اجالا روز مرہ کی معمول کے بعد جب اپنے روم میں آئی تو اظفر کو اپنا منتظر پایا۔

کیسے ہیں آپ انکل؟ میں ابھی مائدہ کی ہی بینڈیج کر کے آرہی ہوں۔اس نے خوش اخلاقی سے بتایا اور عادت کے مطابق الٹے ہاتھ کی ہتھیلی سے اپنے چہرے کے گرد لپٹے پنک اسکارف کو درست کیا۔

اظفر کو اس کی آنکھیں بہت مانوس لگیں۔

انکل آپ کو کہا تھا نا وکیل صاحب سے ملواں گی، تو آج چلیں؟

اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

انکل وہ میرے والد ہیں۔وہ مسکرائی۔

میں مائدہ سے مل لوں؟انہوں نے پوچھا۔

جی انکل، آپ مل لیں۔ میں جب تک کام سے فارغ ہوجاتی ہوں پھر آپ کو لے کر جاں گی۔

دروازے پر دستک ہوئی تو ہادی نے یس کہا اور اُجالا اندر داخل ہوئی۔

ہادی کوئی فائل سامنے رکھے کچھ پڑھ رہا تھا اور اس کا چہرہ فکروں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔

بابا میں مائدہ کے والد کو ساتھ لائی ہوں، وہ باہر کھڑے ہیں۔اجالا نے کہا۔

میں وہ ہی کیس پڑھ رہا تھا۔اس نے پر سوچ نگاہوں سے اسے دیکھا۔ جیسے کچھ ڈھونڈ رہا ہو کچھ فیصلہ کر رہا ہو۔

میں اُنہیں اندر لے آتی ہوں آپ بات کرلیں۔اس نے کہا اور اظفر کو اندر بلا لیا۔

ہادی، اظفر کو دیکھ کر چونکا اسے دوبارہ غور سے دیکھا پھر اجالا کو تکنے لگا۔

وہکچھ کہنے کے قابل ہی نہیں رہا۔

یہ شخص، یہ شخص ۔ہادی اسے دیکھ کر بولنا شروع ہوا، لیکن کچھ بول نہ سکا۔

اُجالا ….یہ آدمی؟میں یہ کیس نہیں لے سکتا۔ تم ابھی اور اسی وقت یہاں سے چلی جا۔اس نے اُجالا سے کہا، لیکن آخری جملہ اظفرکو دیکھتے ہوئے کہا ۔

اُجالا حیرت سے اپنے بابا کو دیکھ رہی تھی۔ اس نے ہادی کو کبھی اس طرح کسی سے بدتمیزی کرتے نہیں دیکھا تھا۔

بابا….“

اجالا اس شخص کو یہاں سے لے جا۔ تم نہیں جانتی کہ یہ….“ ہادی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کہے، کیا نا کہے۔ اس نے صرف ایک بار اس دن بازار میں اظفر کو دیکھا تھا، لیکن اس کی یادداشت میں یہ چہرہ نقش ہوگیا تھا۔ اس کی بیوی کو جلانے والا وہ ظالم شخص….پہلے فائل دیکھ کر اس میں اظفر کا نام اور پھر بالا کوٹ دیکھ کر اسے جو شک ہوا وہ اظفر کو سامنے دیکھ کر یقین میں بدل گیا تھا۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کس طرح اجالا کو کہے کہ یہ آدمی اس کی ماں کا مجرم ہے۔

اُجالا کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کس طرح صورت حال سنبھالے۔ اظفر حیران و پریشان کھڑا ہادی کو دیکھ رہا تھا جس سے وہ پہلی بار ملا تھا۔ ہادی انہیں وہیں چھوڑ کر ریسٹ روم میں چلا گیا۔ اُجالا اوراظفر کچھ دیر سوالیہ نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے پھر وہ دونوں باہر آگئے۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۱

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!