عبادالرحمن

ایک جھٹکے سے اس نے آنکھیں کھولنی چاہیں، لیکن جلن کے احساس سے دوبارہ بند کرلیں۔ اسے محسوس ہوا اس کی گردن اور سینے پر کسی نے لال مرچوں کا ڈھیر لا کر رکھ دیا ہو۔

اس کے ذہن میں پچھلے کچھ گھنٹوں کے واقعات تیزی سے دوڑنے لگے کہ اسے عائشہ کا خیال آیا، وہ اپنی تکلیف بھول کر اس کی فکر میں لگ گئی، لیکن یہ تکلیف اتنی چھوٹی تو نہ تھی کے وہ یکسر نظر انداز کر دیتی۔ 

اس نے کمرے میں نظر دوڑائی۔ کمرے کی حالت نہایت مخدوش تھی،کوئی بہت چھوٹا اسپتال ہوگا، پتا نہیں کون سا اسپتال ہے؟ کمرے میں سوائے دو کرسیوں کے اور اسے کچھ نہ دکھائی دیا۔ وہ سوچنے لگی اسے یہاں کون لایا ہوگا۔

نہ وہ (ناحق) قتل کرتے ہیں کسی جان کو۔بازگشت ہوئی۔

اُسے پھر جیسے اپنے زخم ادھڑتے ہوئے محسوس ہوئے۔ اسے اظفر یاد آیا، اپنی چیخیں یاد آئیں۔

اظفر…. میں نے تمہیں عباد الرحمن میں سے ایک بندہ سمجھا ، تمہیں آسمان پر بٹھا دیا، تمہارے لیے کیا کچھ قربان نہ کر دیا میں نے اور تم کیا نکلے، رحمن کے بندے، تم رحمن کے بندے کیسے ہو سکتے ہو۔ تم میں تورحمن کا رحمتک نہیں ہے۔

آہ….“ وہ تکلیف سے کراہنے لگی، اس کے جسم کا بایاں حصہ جیسے کسی نے کروڑوں سوئیوں سے چھلنی کر دیا ہو۔

وہ قتل نہیں کرتے مگر جسے اللہ نے مجرم ٹھہرایا۔

میرا کیا جرم تھا؟ شاید تم سے اپنے حق کے لیے لڑنا۔ ہاں لڑنا نہیں چاہیے تھا ، میں چپ ہوجاتی، تو یہ سب نا ہوتا۔جلن بڑھنے لگی تھی۔

آہ….اگر میں یہ سوچ کر خود کو تسلی دے بھی لوں کہ اگر میں غصہ نہ کرتی تو تم یہ سب نہ کرتے،تو پھروہ بوتل وہاں کیا کر رہی تھی؟تم اسے گھر کیوں لائے؟ تمہارا ارادہ ہی یہی تھا کہ میرے ساتھ یہ سب کرتے۔آج نہیں تو کل جب بھی میں تمہاری بات نہ مانتی تب۔تم، تم کبھی بھی کسی بات پر مجھے جلا سکتے تھے۔ تم،جان سے مار سکتے تھے مجھے۔

نہ وہ (ناحق) قتل کرتے ہیں کسی جان کو۔

اُف یہ آیتیں! میرے کان پھٹ جائیں گے ۔

اور یہ جلن کیا کروں اس کا۔

اس کی آنکھیں درد سے بھیگنے لگیں۔ آنسو اس کے گالوں کو بھگونے لگے۔ یہ تکلیف آسان نہیں تھی۔

ہر نئی تکلیف پر انسان کو لگتا ہے اس سے بڑی تکلیف اس پر کوئی آ ہی نہیں سکتی اور پھر وہ اس سے بھی بڑی تکلیف میں مبتلا ہوجاتا ہے اور پھر یہ ہی سوچتا ہے اس سے بڑی تکلیف اس پر نہیں آ سکتی اسی طرح اپنی تمام عمر گزار دیتا ہے۔

اس نے درد کی شدت سے آنکھیں بند کرلیں۔

آپ کے مریض کو ہوش آگیا ہے۔کوئی نسوانی آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی اس نے آنکھیں بند ہی رکھیں۔

پہلے ڈاکٹر مریض کو چیک کر لیں پھر آپ آجائیے گا۔¿¿“ وہ ہی نسوانی آواز ابھری۔

تھوڑی دیر بعد اسے اپنے ہاتھ پر کوئی لمس محسوس ہوا۔ اس نے آنکھیں کھولیں کوئی ڈاکٹر اور اس کے ساتھ نرس کھڑی تھی، ڈاکٹر اس کا معائنہ کر رہی تھی۔

جلن ہو رہی ہے ؟ڈاکٹر نے پوچھا۔

اس کا دل چاہا وہ قہقہے لگا کر ہنسے ، بہت سارا ہنسے، وہ خاموش رہی۔

ڈاکٹر کو شاید اس کے جواب سے کوئی لینا دینا بھی نہیں تھا۔ اس نے دو تین بنیادی چیزیں دیکھیں اور کہا۔ 

سسٹر سیلائن ڈرپ چیک کرلیں۔ دوا ایک گھنٹے بعد دینا۔

پھر وہ اپنی فائل پر کچھ لکھتی ہوئی وہاں سے جانے لگی۔

ڈاکٹر صاحبہ مریض کی پٹی کب تبدیل کرنی ہے ؟نرس اس کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے بولی۔ روشنی کے کانوں میں آواز ہلکی ہوتی جا رہی ہے۔

کل کی ہے نہ پٹی۔ ہمارے اسپتال کا اتنا بجٹ کہاں ہے جو تم دن میں دو بار اس کی بینڈج کرو۔ ہاں اگر اس کے گھر والے آجائیں تو۔اس کو آواز آنا بند ہوگئی تھی۔

ابو جی….“ وہ ہوتے تو کبھی اس کی یہ حالت نہ ہوتی۔ وہ پھر آنکھیں بند کر کے سوچوں میں گم ہوگئی۔ تکلیف اور آنسو ہنوز برقرار تھے۔ اس کی آنکھیں بند ہونے لگیں تکلیف اسے جگائے رہنے پر مجبور کرتی تھی، لیکن جو دوا ابھی نرس دے کر گئی تھی وہ اسے نیند کی وادیوں میں لے جانا چاہتی تھی۔ نیند کی وادی میں درد کا ساتھ…. اس کی آنکھیں بند ہوگئی تھیں۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۱

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!