عبادالرحمن

روشنی افراز، تئیس سال کی عمر میں روشنی اظفر ہوئی اور بابل کا آنگن چھوڑ کر شوہر کے چھوٹے سے کرائے کے مکان میں لاہور آگئی۔

اظفر اسے کیا ملا تھا جیسے ساری دنیا اس کی مٹھی میں آگئی تھی۔ اسے یہ احساس شدت سے ہوا تھا کہ اظفر سے شادی کا فیصلہ غلط نہیں تھا۔ اسے یہی لگتا تھا کہ اس دن درس میں مانگی گئی دعاں میں اتنی طاقت تھی کہ اللہ نے فوراً اس کی سن لی تھی۔ جب محبت ہوجائے اور وہ قسمت کے ساتھ ساتھ زندگی میں بھی شامل ہوجائے تو انسان ایسا ہی محسوس کرتا ہے۔

دو کمروں کے چھوٹے سے گھر اور قلیل تنخواہ میں اسے وہ رومانس دکھتا جو عام لڑکیوں کو بڑے گھر اور بڑی تنخواہ میں نظر آتا تھا۔وہ سادہ سی لڑکی تھی۔ سادہ سے انداز میں اس کی پرورش کی گئی تھی اور والدہ کے انتقال کے بعد وہ اور زیادہ غیر مادیت پسند ہوگئی تھی۔ اسے لوگ زیادہ اچھے لگتے تھے بہ نسبت چیزوں کے۔

 جس طرح اس نے ابو جی سے کبھی کسی بڑی چیز کی فرمائش نہیں کی تھی۔ ایسے ہی وہ اظفر کے ساتھ تھی۔ اسے جیولری، کپڑوں اور میک اپ سے کوئی غرض نہیں تھا۔ اظفر کا ساتھ اس کے لیے سب سے قیمتی تھا اور اس کا سب سے زیادہ فائدہ اظفر نے اٹھایا تھا۔ شادی کا ایک مہینہ گزر جانے کے باوجود اس نے روشنی کو کوئی چھوٹا سا تحفہ تک نہیں دیا تھا۔ روشنی نے کسی تحفے کی طلب بھی نہیں کی تھی۔ اس کی ڈیمانڈ تھی تو صرف یہ کہ اظفر اسے اپنے گاں بالا کوٹ لے جائے۔

ایک مہینہ ہوگیا اظفر! اب تو تم مجھے اپنے ساتھ لے جا۔روشنی نے پھر سے اصرار کیا ۔

بس ایک مہینہ تو ہوا ہے۔ زندگی پڑی ہے ان سے ملنے کو۔اظفر نے ایک بار پھر اسے ٹالا۔

زندگی ان کے ساتھ ہی گزارنی ہے تب ہی تو بول رہی ہوں۔اس نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔

روشنی تمہیں کیا مسئلہ ہے؟ یہاں تم سے رہا نہیں جارہا کیا؟وہ چڑچڑا سا ہوا۔ 

تم نے مجھ سے اور ابو جی سے وعدہ کیا تھا کہ شادی ہوتے ہی تم مجھے ان سے ملانے لے جاگے، اس طرح الگ ہو کر تو نہیں رہ سکتے، خاندان ہے وہ ہما را۔روشنی بہ ضد تھی۔

دیکھو روشنی! میری پیاری ،میں نے کل ہی گھر فون کیا تھا۔ چھوٹے بھائی سے بات ہوئی، پتا ہے وہ کہہ رہا تھا وہاں ہماری شادی کی وجہ سے ایک ہنگامہ مچا ہوا ہے، کوئی بھی خوش نہیں ہے۔روشنی اسے حیرت سے دیکھنے لگی، اظفر نے اسے مزید ڈرا دیا۔ 

دوسری بات یہ کہ ابا نے صاف کہہ دیا ہے کہ اظفر سے کہنا اپنی شکل نہ دکھائے اب۔ اماں الگ ناراض ہیں۔ تم سوچو اگر ان حالات میں تمہیں گھر لے جاں تو وہ تمہیں پسند کرنے کے بہ جائے مزید نا پسند کرنے لگیں گے۔ابھی جانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔اظفر نے ممکنہ حالات کا نقشہ کھینچ کر اسے مزید خوف میں مبتلا کردیا۔

وہ چپ کرکے بیٹھ گئی اور اظفر نے سکھ کا سانس لیا۔

پھر ایسا ہمیشہ ہونے لگا۔ وہ جب جب اسے گاں جانے کا کہتی وہ ایسی ہی باتیں کرکے ٹال دیتا تھا اور وہ خاموش ہوجاتی۔

ایک دفعہ اظفر اکیلا ہی بالاکوٹ چلا گیا اور روشنی کو اسلام آباد بھیج دیا۔ وہ یہاں آکر بھی بجھیبجھی اور پریشان رہی۔ افراز صاحب اس سے جب بھی پوچھتے کیا وہ خوش ہے؟ تو وہ زبردستی کی مسکراہٹ چہرے پر سجا کر انہیں بتاتی کہ وہ بہت خوش ہے۔ وہ خود کو یہ تسلی دلاتی کہ اظفر کا رویہ تو ٹھیک ہے نا۔ اگر وہ اسے گھر نہیں لے جارہا تو ضرور کوئی وجہ ہوگی، اظفر اس سے جھوٹ نہیں بول سکتا۔ایک مان تھا اسے کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے، اظفر اس سے اس قدر مخلص تھا کہ وہ اسے جھوٹی باتیں کرکے ٹال نہیں سکتا۔ وہ سچا ہے، لیکن اس کا یہ مان بہت جلد ٹوٹ گیا۔

لاہور واپس جانے سے ایک دن قبل وہ بازار چلی گئی تاکہ کچھ ضرورت کا سامان خرید لے۔ یہاں آکر وہ اکثر ایسا ہی کرتی تھی۔ ابو جی اسے جو پیسے دیتے، اس سے وہ گھر اور اظفر کے لیے چیزیں خرید لیتی۔ اس طرح کرکے وہ غیر شعوری طور پر اظفر کا بوجھ ہلکا کررہی تھی۔

 ”روشنی!“ وہ کپڑوں کی دکان سے نکلی ہی تھی کہ اسے کسی شناسا آواز نے پکارا۔

وہ پلٹی، اُس کی کالج کی دوست وہاں کھڑی تھی۔ اسے دیکھ کر روشنی خوشی سے کھل اٹھی۔

جویریہ کیسی ہو ؟اس نے آگے بڑھ کر اس کو گلے لگا لیا۔

بالکل ٹھیک ہوں، تم سناکیسی ہو ؟ کہاں ہوتی ہو آج کل ؟جویریہ نے اس سے الگ ہوتے ہوئے پوچھا ۔

یار لاہورچلی گئی ہوں، شادی ہوگئی ہے نا میری۔حیا سے اُس کا چہرہ سرخ ہوگیا۔

ماشااللہ! مجھے علم نہیں تھا۔اس نے خوش ہوتے ہوئے ایک بار پھر اسے گلے لگا لیا۔

ہاں! خیر آنہ میرے گھر چلو، کھانا کھائیںگے ساتھ باتیں کریں گے۔اس نے اسے دعوت دی۔

نہیں روشنی! پھرکبھی ابھی کچھ اور سامان لینا ہے ۔اس نے نرمی سے معذرت کی۔ 

اچھا چلو پھر تم سامان لے لو، ہم ساتھ باتیں بھی کرتے ہیں۔روشنی نے ایک اور پیش کش کی ۔

یہ ٹھیک رہے گا ، آچلیں۔“ 

روشنی تمہارے شوہر کیا کرتے ہیں ؟خریداری کے دوران جویریہ نے پوچھا ۔

وہ احمد ٹیکسٹائل میں ہوتے ہیں۔روشنی نے بتایا۔

احمد ٹیکسٹائل اسلام آباد والی ؟جویریہ نے پوچھا۔

نہیں! لاہور والی۔اس نے جواب دیا ۔

لیکن۔جویریہ کچھ کہتے کہتے رک گئی تھی ۔

لیکن کیا ؟روشنی نے حیرانی سے پوچھا۔

لاہور والی احمد ٹیکسٹائل تو ایک سال پہلے ہی بند ہو چکی ہے۔ اب بس اسلام آباد میں اُس کی واحد برانچ ہے۔جویریہ نے اسے رکتے رکتے بتایا ۔

فیاض وہیں تو کام کرتے تھے۔ کمپنی بند ہوئی تو ہم واپس یہیں آگئے۔ جب ہی تو میری تم سے اتنے عرصے سے ملاقات نہیں ہوئی۔اس نے اپنے شوہر کا ذکرکرتے ہوئے اسے تفصیل سے بتایا ۔

اچھا لیکن….“روشنی کا دماغ بھک سے اُڑ گیا ۔ اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا جواب دے ۔

شاید۔وہ پھر کچھ کہتے کہتے رکی ۔

شاید یہ نام نہ ہو، مجھے بھول گیا کہ کیا نام ہے ان کی کمپنی کا۔اس نے بہ مشکل جملہ مکمل کیا یا یوں کہہ لیں اس نے بہ مشکل جھوٹ بولا۔ اسے افسوس تھا کہ اس نے پہلی بار جھوٹ بولا ہے،لیکن زیادہ افسوس اس بات کا تھا کہ اس نے ایک جھوٹے شخص کے لیے جھوٹ بولا جو کہ اس کا شوہر تھا ۔

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۱

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!