عبادالرحمن

افراز صاحب نے اسے اپنے پاس بلایا تھا اپو جان نے صاف پیغام دیا تھا کہ انہیں اظفر کے بارے میں بات کرنی ہے۔ وہ دل میں ہزار وسوسے لیے افراز صاحب کے کمرے میں آگئی۔ انہوں نے کوئی سوال جواب کیے بغیر محض اتنا کہا تھا کہ وہ ایک بار اظفر سے ملنا چاہتے ہیں۔ اگلے ہی دن اظفر ان کے ڈرائنگ روم میں موجود تھا ، یہ پہلا موقع تھا جب وہ ان کے گھر آیا تھا۔

ہر باپ چاہتا ہے اپنی بیٹی کو اگر بیاہے تو محفوظ ہاتھوں کے ہی سپرد کرے، اور اگر میں جذباتیت سے ہٹ کر سوچوں تو روشنی کو ایک ایسے شخص سے باندھنا جس کے گھر والے راضی نہیں، نہ وہ نوکری کرتا ہو اور رہنے کی مناسب جگہ بھی نہ ہو، میرے نزدیک ہی نہیں دنیا کے کسی بھی باپ کے نزدیک بے وقوفی ہوگی، لیکن بات جب پسندیدگی کی آجاتی ہے تو میں ہی نہیں شاید دنیا کا ہر باپ ہی مجبور ہوجاتا ہے۔ آپ روشنی کی پسند ہیں۔ اس لیے یہاں میرے سامنے موجود ہیں۔افراز صاحب نے نہایت صاف گوئی سے بات کا آغاز کیا تھا۔ اظفر سر جھکائے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں پیوست کیے اپنی انگلیوں کو دیکھ رہا تھا۔

میرا مقصد آپ کو صرف اس حقیقت سے آشنا کرنا ہے کہ روشنی میری اکلوتی اولاد ہے۔میرا سب کچھ ہے۔ اس کی پسند ہی میری اوّلین ترجیح ہوگی لیکن بہ حیثیت باپ میری خواہش ہے کہ وہ جس سے شادی کرنا چاہتی ہے اس کا خود کا مستقبل محفوظ ہو تاکہ روشنی کا مستقبل بھی محفوظ ہو۔وہ اتنا کہہ کر کچھ دیر کے لیے رکے تھے۔

اظفر اسی پوزیشن میں بیٹھا تھا۔ بالکل خاموش۔

یہ تو مجھے معلوم ہو گیا ہے کہ آپ کی فیملی کا کوئی فرد آپ کی پسند پر راضی نہیں، لیکن اگر کوئی ایک بھی آپ کا ساتھ دینے کے لیے راضی ہوجاتا تو میرے لیے باعث ِاطمینان ہوتا۔انہوں نے اپنی بات کا سلسلہ جوڑا۔

انکل!آپ فیملی کی فکر ہرگز نہ کریں،بس ہماری خاندانی روایت کچھ ایسی ہیں کہ خاندان والوں اور ذات برادری کی وجہ سے والدین ناراض ہیں لیکن جب روشنی میرے نکاح میں آجائے گی تو وہ ہمیں اپنا لیں گے اور ان کا غصہ بھی ختم ہوجائے گا۔ رہی بات خاندان کے کسی فرد کے راضی ہونے کی تو میرے خالہ اور خالو اس فیصلے میں میری ساتھ ہیں۔ آج کسی مصروفیت کی وجہ سے وہ نہیں آ سکے۔اظفر نے بھی خاموشی کا قفل توڑا تھا۔ 

افراز صاحب نے پر سوچ انداز میں گردن ہلائی، اظفر پھر سے گویا ہوا:

اور انکل جاب کی بھی اب کوئی پریشانی نہیں۔ میری لاہور میں ایک کمپنی میں نوکری پکی ہوگئی ہے۔ کچھ مہینوں بعد گھر بھی مل جائے گا، تو اور بے فکری ہو جائے گی۔

انشااللہ ! بیٹا ماں باپ کے لیے تو بیٹی پھولوں کے مانند ہوتی ہیں نا،لیکن روشنی تو اس گھر کا باغ ہے، اس کے دم سے ہی میرا گھر، گلستان ہے اور میں ہمیشہ اس باغ کو لہلہاتا دیکھنا چاہتا ہوں۔افراز صاحب فرطِ جذبات سے بولے۔

اظفر نے صرف مسکرانے پر اکتفا کیا۔

روشنی بیٹا! اپو کے ساتھ مل کر ناشتا لگالیں۔انہوں نے اتنی دھیمی آواز میں کہا کہ جیسے روشنی وہیں موجود ہو۔

اظفر نے حیرت سے پہلے انہیں دیکھا پھر کمرے میں اردگرد نگاہ دوڑائی۔ روشنی یہاں موجود نہیں تھی۔ پھر افراز صاحب نے کسے مخاطب کیا؟ کچھ ہی لمحوں میں اس کی حیرت دور ہوگئی جب ڈرائنگ روم کے دروازے پر اسے حرکت کرتا ہوا ایک ہیولا دکھائی دیا اورپھر ہلکی سی چوڑیوں کی آواز۔ وہ مسکرا دیا۔ مطلب روشنی شروع سے ہی دروازے کی اوٹ میں کھڑی سب سن رہی تھی۔

اقرار صاحب بھی مسکرا دیے۔

زندگی بھی مسکرانے لگی اور روشنی تو گویا ہواں میں اڑنے لگی تھی۔ کتنا انتظار، کتنی جدوجہد، کتنی مرادوں اور کتنی دعاں کے بعد یہ دن آیا تھا۔ اسے یقین ہوگیا تھا اسے اور اظفر کو ایک پاکیزہ بندھن میں بندھنے سے اب کوئی نہیں روک سکتا۔

ابو جی راضی ہوگئے تھے۔ گھرکا انتظام، جاب کی شرائط ،خاندان کو منانے اور روشنی کو ہمیشہ خوش رکھنے کے وعدوں کے بعد ہی سہی، انہوں نے اظفر کو مثبت اشارہ دے دیا تھا۔ وہ بھی ہلکا پھلکا ہوکر یہاں سے گیا تھا اور روشنی….اس کا تو بس نہیں چل رہا تھا کہ ساری دنیا میں چیخ چیخ کر اپنی خوشی کا اعلان کردے۔ شاداں و فرحاں بے مقصد پورے گھر میں اٹھلاتی پھر رہی تھی۔

انسان ایسا ہی ہوتا ہے۔ جب اپنی مطلوبہ چیز حاصل نہ ہو رہی ہو تو اللہ تعالیٰ سے شکوہ کرتا ہے۔ جیسے کل تک روشنی کررہی تھی اور جب اپنی من چاہی چیز حاصل کرلیتا ہے تو ایسے خوش اور مسرور ہوتا ہے جیسے اپنی قدرت سے اس چیز کو پایا ہو، جیسے آج روشنی سوچ رہی تھی۔

وہ خوش تھی۔ اسے خوش ہونا بھی چاہیے تھا، لیکن اسے علم نہیں تھا کہ بعض خوشیوں کی مدت بہت کم ہوتی ہے۔ انسان ابھی اسے محسوس کرنا شروع ہی کرتا ہے اور وہ ختم ہوجاتی ہیں ۔ 

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۱

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!