عبادالرحمن

وہ صبح اٹھ کر کمرے سے باہر آئی تو نیچے صحن میں اسے غیر معمولی شور سنائی دیا۔ وہ اب مولوی عبدالقدیر کے گھر رہنے لگی تھی اور اسے اوپر کی منزل کا مہمان خانہ دے دیا گیا تھا تاکہ وہ آرام سے رہ سکے۔ اس نے اپنے کمرے کے سامنے بنی منڈیر سے نیچے صحن میں جھانکا ایک الگ ہی منظر تھا۔ نیچے مولوی صاحب اورخالہ جی بھی موجود تھیں اور گلی کے چار پانچ بچے بھی صحن میں کھیل رہے تھے۔ اسے حیرت ہوئی آج ایسا کیا ہوا کہ انکل نے چھٹی کی ہے ورنہ وہ اس معاملے میں بہت سخت تھے۔ اس دوران ایک جوان سا آدمی کالی ڈریس پینٹ اور آسمانی شرٹ میں ملبوس جس کی آستینیں کہنیوں تک فولڈ تھیں۔ ہاتھ میں کچھ شاپرز لیے اندر کمرے سے برآمد ہوا اور مولوی صاحب اور خالہ جی کے درمیان نیچے فرش پر ہی بیٹھ گیا۔

روشنی نے غور سے اسے دیکھا وہ جانا پہچانا سا لگا۔ گندمی صاف رنگت ، چوڑے شانے، لمبے قد کا مالک، اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ اس نے کچھ کہا تھا جواباً مولوی انکل نے اس کے سیاہ بالوں والے سر پر ایک چپت لگائی۔ مسکرانے کی وجہ سے اس کے گالوں پر ڈمپل سا اُبھرا، لیکن زیادہ واضح نہیں ہو سکا اور واضح نہ ہونے کی وجہ اس کے چہرے پہ سجی وہ ڈاڑھی تھی جو کہ اس کے ٹھوڑی سے بھی نیچے تک بڑھی ہوئی تھی۔ روشنی نے اندازہ لگایا یہ اس کی شرعی ڈاڑھی ہوگی جیسے مولوی انکل کی ہے ، جیسے اس کے ابو جی کی تھی۔ پھر ایک بچہ کمرے سے نکلا اور روشنی کی بیٹی کو اٹھا کر ان کے پاس لے آیا۔ خالہ جی اکثر عائشہ کو صبح نیچے لے آتی تھیں اپنے پاس تاکہ وہ جلدی اٹھ کر روشنی کو تنگ نہ کرے۔ پھر اس بچے نے عائشہ کو اٹھا کر اس آدمی کی گود میں بٹھا دیا۔ وہ فرش پر بیٹھا ایک ہاتھ سے عائشہ کو سنبھالتا اور دوسرے ہاتھ سے شاپرز میں سے چیزیں نکال نکال کر کبھی خالہ کبھی مولوی صاحب کو دیتا۔ پھر اس نے اس میں سے کوئی کھلونا نکالا اور عائشہ کو دکھانے لگا۔ وہ ہاتھ مار مار کر اس کھلونے کو پکڑنے کی کوشش کرنے لگی۔ وہ سب اس کی اس حرکت سے خوش ہونے لگے۔ وہ آدمی دوبارہ مسکرایا دوبارہ ڈمپل گہرا ہوا اور روشنی کے ذہن میں جھماکا ہوا۔

عبدالہادی ….“ اگر اس کی ڈاڑھی ہٹا دی جائے تھوڑا دبلا کر دیا جائے تو وہ واقعی عبد الہادی ہے۔ کتنا عرصہ ہوگیا تھا اسے ہادی کو دیکھے ہوئے اس نے حساب لگایا۔ شاید چار پانچ سال۔

اسے ہادی کو دیکھ کر ان جانی سی خوشی ہوئی اور ساتھ گزارا بچپن یاد آنے لگا۔ وہ وہیں جھکی جھکی مسکرائی پھر اس سے ملنے کے ارادے سے نیچے جانے لگی کہ اچانک رک گئی۔

اس نے اپنی ٹھوڑی اور گردن پر ہاتھ پھیرا پھر اپنے کمرے میں واپس آگئی۔

وہ اپنے ادھورے پن کے احساس کی وجہ سے لوگوں سے ملنے سے کتراتی تھی۔ خاص طور پر ان لوگوں سے جو اس حادثے سے پہلے سے اسے جانتے ہوں۔ گھر کو بیچ کر ملنے والی رقم سے ابھی تک اس کے کمر کے دو آپریشن ہو چکے تھے جس کی وجہ سے اس کی چال میں توازن آگیا تھا۔ کمر کا ٹیڑھا پن ختم ہو گیا تھا، لیکن ان آپریشن کے بعد اسے جس طرح کی تکلیف کا سامنا کرنا پڑا وہ کہانی الگ ہے۔ اس کے اچھے اسپتال سے مختلف ٹیسٹ ہوتے رہے مختلف دوائیاں چلتی رہیں جس کی وجہ سے اس کی جلد کا وہ فنگس، بدبو اور بھدا پن ختم ہوگیا تھا جو اسے بدصورت بنا دیتے تھے اور اس کے ساتھ اس کی چہرے کی اور گردن کی بھی سرجریز ہوئی تھیں جس کی وجہ سے چہرہ تو بہتر ہوگیا، لیکن سینے اور گردن میں جو گڑھے پڑگئے تھے انہیں بھرنے کے لیے مزید سرجریز باقی تھیں۔ وہ اکثر سوچتی اگر گھر کو بیچنا ہی تھا، تو اظفر کی ضد کرنے پر ہی بیچ دیتی، لیکن پھر سوچتی کہ گھر بیچنے کے بعد اظفر اسے کسی اور بہانے سے چھوڑ دیتا۔

وہ سارا وقت اوپر ہی رہی، خالہ نے بلوایا بھی تو اس نے ٹال دیا ،لیکن کب تک ٹالتی۔ رات کو جب وہ عائشہ کو لینے نیچے آئی تو ہادی وہیں صحن میں بیٹھا کوئی کتاب پڑھ رہا تھا۔ اب وہ عام سے شلوار قمیص میں ملبوس تھا اس نے چار و ناچار اسے سلام کیا اور اندر کمرے میں چلی گئی۔

تم ہادی سے ملیں بیٹا؟خالہ نے پوچھا۔

جی۔اس نے عائشہ کو گود میں اٹھا لیا۔

اب وہ یہیں آگیا ہے۔ کہہ رہا تھا اب وہاں جائے گا، تو ہمیں لے کر جائے گا، کیوں کہ اس کا دل نہیں لگتا۔ اکیلے رہتا ہے نا۔وہ اسے بتانے لگیں اور ساتھ کپڑے الماری میں رکھ رہی تھیں۔ اس لیے انہوں نے دھیان نہیں دیا کہ روشنی دل چسپی سے ان کی باتیں نہیں سن رہی بلکہ بس وہاں سے جانا چاہتی ہے۔ 

پہلے پڑھائی کرتا تھا نا، تو فرصت نہیں تھی۔ اب ماشااللہ سے سرکاری نوکری لگ گئی ہے، تو اکیلا پریشان ہوتا ہے۔

صحیح بات ہے خالہ، اچھا میں اوپر جا رہی ہوں اسے لے کر۔اس نے کہا اور باہر آگئی۔ ایک بار پھر ہادی کا سامنا ہونا تھا۔

وہ چپ چاپ گزر جانا چاہتی تھی لیکن….

سوگئی ہے عائشہ؟اس نے اسے آتے دیکھا تو پوچھا۔

ہاں۔روشنی نے مختصر کہا۔ 

بہت پیاری ہے۔اس نے کہا ۔

وہ پھیکا سا مسکرا دی ۔

تم کیسی ہو؟ کتنے سال بعد دکھائی دی ہو۔اس نے کہا اور کتاب بند کردی جیسے بہت فرصت سے بات کرے گا اب۔

روشنی نے اسے غور سے دیکھا۔

رحم، تاسف، ترس، طنز، افسوس ، سوالات ، حیرانگی وہ اس کی آنکھوں میں یہ سب کریدتی رہی ڈھونڈتی رہی، لیکن….

وہاں خوشی اور خلوص کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔وہ مایوس ہوئی ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ 

اچھا۔اس نے بس اتنا کہا۔

تھوڑی بدل گئی ہو۔ہادی نے کرسی سے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔

روشنی طنزیہ مسکرائی۔ یہ بھی تو دنیا کا ہی ایک بندہ ہے نا یہ ان سے الگ کیسے ہو سکتا ہے۔ اب اس سب کا افسوس کرے گا جو کچھ بھی میرے ساتھ ہوا، مجھ سے سوال کرے گا۔ حادثے کا پوچھے گا اظفر کا پوچھے گا اور چٹخارے لے کر سنے گا۔

کیا تبدیلی آگئی ہے ؟اس نے سوال کیا۔ اسے جواب معلوم تھا پھر بھی اس کا دل چاہا وہ خود کہے، اب اسے مزہ آتا تھا تکلیف سہنے میں۔

آں…. تھوڑی۔

تھوڑی موٹی ہوگئی ہو۔اس نے جواب دیا۔

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۱

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!