عبادالرحمن

روشنی وہ واقعی اظفر تھا۔کمرے میں خاموشی تھی اور اس خاموشی میں فکریں گھلی ہوئی تھیں۔ وہاں صرف روشنی اور ہادی تھے۔ ہادی کی آواز ابھری۔

یا اللہ ….وہ بچی…. اظفر کی بیٹی ہے۔روشنی سر تھام کر بیٹھ گئی۔

مکافات عمل ایسا ہوتا ہے۔ ہادی مجھے آج معلوم ہوا اور کیا اجالا وہیں موجود تھی؟

ہاں روشنی اور مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اجالا کو کیا کہوں اگر اسے حقیقت معلوم ہوگئی کہ اظفر ہی اُس کا باپ ہے تو…. اسے سب کچھ معلوم ہوجائے گا۔ روشنی میں نہیں چاہتا کہ اجالا کے ذہن میں کوئی بھی منفی سوچ جنم لے۔

تم نے کیا کہا پھر اس وقت؟روشنی نے پوچھا۔

مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کیا کہوں میں شاکڈ میں تھا روشنی ۔ بس میں نے اجالا کو اتنا کہا کہ وہ اسے یہاں سے لے جائے اور اس شخص سے دور رہے۔میں گھبرا گیا تھا۔ہادی نے کہا۔

روشنی خاموش بیٹھی کچھ سوچتی رہی۔

میں اس شخص کی بیٹی کا کیس نہیں لڑوں گا اور اُجالا سے کہوں گا اس بے غیرت انسان سے دور رہے اور اس کی بیٹی کا کیس بھی کسی اور ڈاکٹر کو ہینڈ آور کر دے۔عبدالہادی کو اس ٹون میں روشنی نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔

کیوں ہادی کیوں نہیں لڑوگے؟ اس میں اس کی بیٹی کا کیا قصور؟وہ بولی۔

قصور تو تمہارا بھی کوئی نہیں تھا۔اس نے کہا۔

میرا قصور نہیں تھا، تو اس کا مطلب کہ میں بھی بدلہ لینے لگ جاں؟ بری بن جاں؟ وہی سب اس کے ساتھ کروں جو میرے ساتھ ہوا؟

عبدالہادی تم اس کی بیٹی سے بدلہ لینا چاہتے ہو تاکہ وہ کل کو میری طرح ہر شخص میں عباد الرحمن ڈھونڈے؟ مجھے تو عبدالہادی مل گیا۔ تمہیں لگتا ہے ہر ایک کو رحمن کے بندے مل جاتے ہیں؟ اسے کون سا ہادی سہارا دے گا؟وہ بولتی چلی گئی۔

میں نے تمہیں کوئی سہارا نہیں دیا تھا۔ تم اس وقت بھی ایک مضبوط عورت تھیں جیسے پہلی تھیں، جیسی آج ہو۔

نہیں ہادی۔

میرا اتنا بڑا ظرف نہیں ہے روشنی جتنا تمہارا ہے ، تم بہت اعلیٰ ظرف ہو، میں نہیں۔ میں شاید اسے کبھی بھی معاف نہیں کر سکتا۔اس نے سر جھکایا۔

میں اعلیٰ ظرف کبھی بھی نہیں تھی ہادی، مجھے تم نے ایسا ظرف دیا ہے۔ میرے کرب ناک ماضی کو بھلا کر مجھے ان انمٹ نشانوں کے ساتھ اپنایا۔ میری بیٹی کو اپنی بیٹی سمجھا، ایسا ظرف سب میں نہیں ہوتا۔اس نے آہستگی سے کہا۔

اور رہی بات معافی کی تو قدرت نے اس سے اتنا بڑا بدلہ لے لیا ہے کہ ہماری معافی کچھ نہیں ہے۔ میں نے معاف کر دیا تم بھی معاف کر دو۔ابا جی (مولوی عبدالقدیر) کو اللہ جنت نصیب فرمائے وہ اکثر ایک حدیث سناتے تھے جب مومن اپنے حق کے لیے نہیں لڑتا اور خاموش ہوجاتا ہے، تو اللہ اس کی طرف سے ایک فرشتہ مقرر کر دیتا ہے جو اس مومن کے بدلے اس جھگڑالو شخص کو جواب دیتا رہتا ہے۔ دیکھو آج ہمارا بدلہ اللہ نے خود لے لیا۔ اب تم سب بھول جااور اجالا کی خاطر یہ کیس ضرور لڑنا۔روشنی نے اس پر برائی حاوی ہوتے دیکھ کر اسے سمجھایا اس کی اچھائی کو مرنے نہیں دیا۔ ایک عبادالرحمن دوسرے عباد الرحمن کو تھام رہا تھا، گرنے سے بچا رہا تھا۔

لیکن اُجالا، جب اسے پتا چلے گا اظفر اس کا…. وہ ہم سے سوال کرے گی روشنی۔

ان شا اللہ اس کا بھی کچھ حل نکل آئے گا۔وہ بولی۔

وہ کچھ دیر اسے دیکھتا رہا پھر مسکرا دیا۔ اس کی سیاہ ڈاڑھی تلے (جو اب جگہ جگہ سے سفید ہوگئی تھی) ایک ڈمپل اپنے وجود کا پتا دینے لگا۔

بابا….ماما۔اُجالا کی آواز پر دونوں چونکے اور پلٹے۔ وہ جانے کب سے دروازے پر کھڑی تھی۔

ہادی اور روشنی دونوں کے چہروں پر پریشانی کے آثار نمایاں ہوئے۔

اُجالا دونوں کو دیکھ کر نفی میں گردن ہلانے لگی پھر آگے بڑھی اور روشنی کے گلے لگ کر سسکنے لگی۔

ماما آپ نے مجھ سے کیوں چھپائی یہ حقیقت؟ میں آپ سے جب جب پوچھتی تھی یہ گردن پر نشان کیوں ہے آپ کہتی تھیں حادثہ ہوا تھا۔ آپ نے کبھی یہ نہیں بتایا وہ حادثہ نہیں طوفان تھا۔ اب مجھے سمجھ آیا کہ آپ ہمیشہ مجھے یہ کیوں کہتی تھیں کہ اجالا گل تمہیں میں نے مرجھائے پھولوں کے لیے اجالا بننے کے لیے سرجن بنایا ہے، ماما آپ….آپ بہت اچھی ہیں۔روتے روتے اس کا گلا بیٹھ گیا۔

روشنی نے کچھ نہیں کہا بس اسے سینے میں لگائے رکھا۔

اجالا رو مت بیٹی۔ہادی نے آگے بڑھ کر اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔ اس نے سر اٹھا کر دیکھا۔ کالی شفاف آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے تھے۔ وہ باپ کی صورت میں اپنی ماں کے محسن کو دیکھنے لگی۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۱

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!