عبادالرحمن

گھر بنانے کے اتنے ہی اصول معلوم ہیں تو یہ کیسے بھول گئے کہ اچھے گھر جھوٹ کی بنیاد پر قائم نہیں ہوتے اور تم نے اس رشتے کو جھوٹ کی ڈور سے باندھا ہے۔شکوہ کرتے ہوئے اس کی آواز رندھ گئی۔ اسے ہمیشہ دکھ اس بات کا ہوتاکہ اظفر نے جھوٹ کیوں بولا۔

گھر مرد و عورت دونوں سے بنتا ہے۔ مرد کماتا ہے عورت گھر کا نظام سنبھالتی ہے، لیکن تم شاید اپنے حصے کا کام بھول گئے، تمہیں یاد ہیں تو بس میرے حصے کے کام۔روشنی نے درشت لہجے میںکہا۔اظفر اس کا منہ تکتا رہا۔

تمہیں اگر یہ زعم ہے کہ اتنے عرصے تم میری ضرورتوں کو پورا کرتے آئے ہو تو آج تمہارا یہ بھرم بھی ٹوٹ گیا ۔اس کا لہجہ یکایک مستحکم ہوگیا۔

طارق باجوہ سے الیکٹرک مصنوعات ادھار اور اقساط پر لے کر آگے بیچتے رہے ہو تم تاکہ شادی کر سکو، گھر چلا سکو اور اب وہ ہمارے سر پر کھڑا ہوا ہے کیوں کہ تم اس کے پیسے نہیں لوٹا پا رہے۔ ایسے چلتے ہیں گھر؟ ایسے بنتے ہیں گھر؟روشنی نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا۔

وہ خاموش ہوگیا وہ بھی خاموش ہوگئی۔

 کمرے کی ہر چیز خاموش تھی سوائے محبت کے، محبت گریبان پھاڑے بین کر رہی تھی۔

 خاموش ہو کیوں؟ دادِ جفا کیوں نہیں دیتے

 بسمل ہو تو قاتل کو دعا کیوں نہیں دیتے

 منصف ہو اگر تم تو کب انصاف کرو گے

 مجرم ہیں ہم اگر تو سزا کیوں نہیں دیتے

دنیا بھیعجیب امتحان گاہ ہے جس میں موجود انسان کو یہ بھی یقین نہیں ہوتا کہ اس کا امتحان آج ختم ہوگا یا کل؟ یا عمر بھر امتحان ہی دینا ہے اور نہ اس بات کا علم ہوتا ہے کہ اس امتحان کے نصاب کی تیاری کہاں سے کرنی ہے۔ صرف واحد کتاب تجربہ ہے جس سے امتحان کی تیاری کی جا سکتی ہے، لیکن یہ تجربہ بھی تو امتحان میں بیٹھ جانے کے بعد آتا ہے۔

روشنی جب جب سمجھتی کہ یہ مصیبت سب سے بڑی ہے، اس سے بڑی مصیبت کوئی ہو نہیں سکتی تب ہی اگلی مصیبت منہ پھاڑے اس کا انتظار کر رہی ہوتی تھی۔

مصیبت در مصیبت تھی۔امتحان در امتحان تھے اورآنے والا ہر امتحان حوصلہ شکن ثابت ہوتا۔ وہ ہر بار اظفرکو ایک موقع اور دیتی۔ یہ موقع وہ اظفر کو نہیں بلکہ اپنی اس گم شدہ محبت کو دیتی تھی جس کا ملنا اب ناممکن سا محسوس ہوتا تھا۔

روشنی کو اب بھی یقین نہیں آتا اس کا انتخاب اس قدر غلط تھا۔ وہ محبت میں ناکام ہوگئی تھی اور یہ قبول کرنا اُس کے لیے مشکل ہی نہیں کرب ناک بھی تھا۔

تمہارے پاس کچھ پیسے ہوں گے؟اظفر نے ایک دن پوچھا۔

پیسے؟ کتنے؟روشنی کو اُس کا اس طرح پیسوں کا پوچھنا۔کچھ عجیب سا لگا۔

کتنے بھی یار۔ پانچ دس ہزار۔اسے شاید بڑی رقم مطلوب تھی۔

نہیں!“ روشنی نے کہا اور کچن میں آکر کام میں مشغول ہوگئی۔

روشنی پلیز! اگر ہیں تو دے دو ، مجھے ضرورت ہے۔اظفر اس کے پیچھے پیچھے آیا تھا۔

میرے پاس نہیں ہیں اظفر۔اس نے دوٹوک جواب دیا۔

ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ ابھی تو تم گھر ہو کر آئی ہو، کچھ تو پیسے دیے ہوں گے تمہارے ابو جی نے۔اظفر نے مضطرب ہو کر کہا۔

میرے باپ نے مجھے پیسے دیے بھی ہیں تو تمہیں کیا حق ہے مجھ سے اُس کا سوال کرنے کا؟روشنی کا دماغ گھوم گیا۔

یعنی انہوں نے پیسے دیے ہیں؟اظفر کی اس بات پر روشنی صرف اسے دیکھنے لگی۔

رقم دینا اس کے لیے مسئلہ نہیں تھا۔ مسئلہ اسے اظفر کی آرام پسندی سے تھا۔ پہلے وہ سمجھتی اظفر کو جاب نہیں ملی اس لیے وہ جھوٹ بولتا رہا لیکن ان چند مہینوں میں اسے یہ بھی اندازہ ہوگیا تھا کہ بات جاب کی نہیں بلکہ من پسند جاب کی تھی۔ گھر بھر کا لاڈلا اظفر جس کی پرورش ہی اس سوچ کے ساتھ ہوئی تھی کہ وہ بڑے صاحب کا بیٹا ہے اور اسے کچھ نہیں کرنا، بس گھر بیٹھ کر کھانا ہی ہے۔ اس نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا کہ وہ جاب کرے گا۔ وہ کئی ایکڑ زمینوں کے مالک تھے جو بعد میں اِسے اور اس کے چھوٹے بھائی کو ہی ملنی تھی۔ انہیں حکمرانی کی عادت تھی، وہ کسی کے ماتحت کام کیسے کرتا۔

اسے حکم دینے کی عادت تھی، وہ محکوم بن کر کیسے نوکری کرتا؟

اسے شاہ خرچیوں کی لت تھی، وہ دانتوں سے پکڑ کر کیسے خرچ کرتا؟

اس کے گھر والے روشنی اور اس کی شادی سے خوش نہیں ہوں گے اسے اندازہ تھا، لیکن اس قدر ناراض ہوجائےں گے کہ اسے دیکھنا تک گوارا نہیں کریں گے یہ اندازہ اسے بعد میں ہوا تھا۔

اس نے اپنے دوستوں کے بہ جائے دوسرے لوگوں سے اس لیے ہی قرض لیے تھے کہ جیسے ہی گاو¿ں میں سب راضی ہوئے وہ وہاں سے رقم ان لوگوں کو لوٹا دے گا۔ اس طرح دوستوں کے آگے عزت بھی بنی رہے گی اور کسی جاننے والے کی وجہ سے روشنی کو اس بات کا علم بھی نہیں ہوگا۔ لیکن اس کا ہر پلان غلط ثابت ہو رہا تھا۔ وہ چاروں طرف سے پھنس گیا تھا۔ گھر والوں کو ناراض تو کر ہی بیٹھا تھا۔ روشنی کا اعتماد بھی اس نے کھودیا تھا۔ شادی اب اسے مصیبت لگنے لگی تھی۔ عشق سارا ہوا ہو چکا تھا اور قرض دینے والے اس کے پیچھے لگے ہوئے تھے۔ زندگی اس پر تنگ ہو رہی تھی اور ان سب میں سب سے زیادہ افسوس اسے اپنے گھر والوں کا تھا۔

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۱

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!