عبادالرحمن

گاڑی کے پہیوں کی چنگھاڑتی ہوئی آواز نے آس پاس کے درختوں پر بیٹھے پرندوں میں انتشار پھیلا دیا تھا اور لوگوں کے ہجوم پر سکوت طاری کر دیا تھا۔ کچھ لمحوں تک فضا میں خاموشی کا غلبہ رہا سوائے پرندوں کی پھڑپھڑاہٹ کے کچھ سنائی نہیں دیتا تھا۔ چند لمحے بیت جانے کے بعد سکوت ٹوٹا اور لوگوں کے ہجوم میں سے چہ میگوئیاں سنائی دینے لگیں۔ ان کی سوالیہ نظریں کبھی جائے وقوعہ پر موجود اس شخص کو دیکھتیں جو زمین پر پڑا تھا اور کبھی اس لڑکی کو جو اس مرد کے پاس حیران کھڑی تھی۔ پھر وہ لڑکی بیٹھی اور اس نے اس شخص کا سر اپنی گود میں رکھ لیا۔ یک دم لوگوں کے ہجوم میں حرکت ہوئی اور ایک عورت مجمعے کو چیرتی ہوئی لوگوں کو ہٹاتی ہوئی جائے وقوعہ تک آئی۔ اس کی نگاہوں نے اس شخص کو دیکھا جو خون میں لت پت آخری سانسیں لیتا خالی نگاہوں سے کبھی اس لڑکی کو دیکھتا جس نے اس کا لہولہان سر اپنی گود میں رکھا ہوا تھا اور کبھی اس عورت کو جو ابھی ابھی اس تک پہنچی تھی۔ اس کی آنکھیں خالی نہ تھیں، کیا کچھ نہ تھا ان آنکھوں میں؟ ان آنکھوں میں ندامت، شرمندگی، اضطراب، دکھ، کرب، ہار سب کچھ تھا ، لیکن اس شخص کے ہونٹوں کی مسکراہٹ سے مسرت، خوشی، جیت کا احساس اور کچھ پانے کی خوشی عیاں ہو رہی تھی۔ وہ لڑکی کبھی اس شخص کو دیکھتی اور کبھی اس عورت کو جو اس کے پاس آکر کھڑی ہوگئی تھی۔ لڑکی کی آنکھوں سے آنسو اس طرح بہ رہے تھے جیسے اس آدمی کے سر سے خون۔ اس آدمی کے زخم درد برداشت نہ کر سکے، نہ ہی اس کی روح اس آدمی کا غم اور خوشی برداشت کر سکی اور تب ہی اس عورت کا کپکپاتا ہوا وجود گھٹنوں کے بل زمین پر آ گرا۔ اُس کا وجود تو یہیں تھا، لیکن اس کی سوچیں ماضی میں کہیں کھو گئی تھیں۔

سورج سارا دن اپنی آب و تاب سے چمکنے کے بعد اب تھک ہار کر ڈوبنے لگا تھا۔ پرندے اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے اور اندھیرا دھیرے دھیرے اپنے پر پھیلا رہا تھا۔

وہ سارا دن سیکنڈز ، منٹوں، گھنٹوں کی گنتی میں مصروف، صرف اس پہر ہی کا انتظار کرتی تھی جب اندھیرے کا راج ہوتا۔روشنیوں کا سوچنا اس نے چھوڑ دیا تھا کیوں کہ روشنیوں سے اسے سوائے تکلیف کے کچھ نہیں ملا تھا۔ اس نے اٹھ کر شال اٹھائی اور اچھی طرح اوڑھ لی۔ گھٹنوں تک پورا جسم اس شال نے چھپا لیا تھا اس کا بس نہ چلتا کہ کوئی طلسماتی ٹوپی اس کے پاس ہوتی اور وہ سارا وقت اسے اوڑھے رکھتی تاکہ وہ دنیا کی نظروں سے اوجھل رہے، لیکن یہ سب تو کہانیوں میں ہوتا ہے، پریوں کی، شہزادیوں کی کہانیوں میں جس میں شہزادہ شہزادی کو دیو کی قید سے نکالتا ہے۔ یا کسی غریب لکڑہارے کو طوطے کی صورت میں پری ملتی ہے جس کی وہ مدد کرتا ہے اور پری اپنی اصلی صورت میں آکر لکڑہارے سے شادی کرلیتی ہے یا پھر کوئی شہزادہ پہیلیوں کے جواب ڈھونڈتا ہے جس کے انعام میں اسے شہزادی ملتی ہے پھر وہ ہنسی خوشی رہنے لگتے ہیں۔ یہ سب کہانیوں میں ہوتا ہے اور اس نے کہانیاں پڑھنی چھوڑ دی تھیں، حقیقت کہانیوں سے بہت مختلف ہوتی ہے۔ اس کا تو شہزادہ دیو کی طرح ظالم نکلا جس نے…. 

وہ شال اوڑھ کر کمرے سے باہر نکل آئی۔ سامنے صحن تھا، خالی صحن گرد سے اٹا ہوا تھا پورے صحن میں امرود کے درخت کے سوکھے پتے بکھرے ہوئے تھے۔ پہلے کی بات ہوتی تو کبھی یہ صحن اس حالت میں نہ ہوتا وہ اس کو ہمیشہ صاف رکھتی تھی۔ صبح شام جھاڑو لگاتی، پونچھا کرتی اور دھوتی بھی رہتی تھی۔ صرف صحن ہی نہیں بلکہ اس گھر کا کونا کونا وہ چمکا کر رکھتی تھی۔ سارے دن میں یہ اس کا پسندیدہ مشغلہ ہوتا ۔ اس گھر کی رونق اسی سے تھی،یہ گھر اس سے تھا۔ اس کی سہیلیاں اور محلے کے ڈھیر سارے بچے جنہیں وہ پڑھاتی کم اور کھیلتی زیادہ تھی، وہ بچے اور امرود کا درخت اس صحن کا لازم و ملزوم حصہ تھے۔ ایک طوفان تھا جو وہ سب یہاں برپا کرکے رکھتے تھے اور ایک طوفان تھا جو اس کی زندگی سے گزرا تھا۔

وہ صحن عبور کر کے بیرونی دروازے کی طرف آگئی۔ ہوا کا تیز جھونکا آیا اور اس کے گرد ایک مخصوص سی خوش بو نے احاطہ کیا وہ کڑی پتے کی خوشبو تھی، جس کا درخت گھر کے باہر لگا تھا۔ اس خوشبو سے اسے عشق تھا۔ اس کا کوئی بھی کھانا ان پتوں کے بغیر ادھورا ہوتا، لیکن اب اسے اس خوشبو سے کچھ احساس نہ ہوا، احساس جذبات سے آتے ہیں اور جذبات تو اس کے کب کے ختم ہوچکے تھے۔

وہ گھر سے باہر نکل آئی۔ ستمبر کی خشک و سرد ہوا نے اس کا استقبال کیا تھا۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے شال کو مزید اپنے گرد لپیٹا اور دھیرے دھیرے چلتے ہوئے گلی سے سڑک کی جانب نکل آئی۔ گلی میں کوئی نہیں تھا۔ سروس روڈ پر بھی اِکا دُکا لوگ تھے۔ اسے اس وقت کی سب سے اچھی بات ہی یہ لگتی تھی کہ لوگ نہ ہونے کے برابر ہوتے تھے کیوں کہ لوگ اسے انچیزوںکا احساس دلاتے تھے جن سے وہ محروم تھی۔

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۱

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!