عبادالرحمن

تمہیں پتا بھی ہے کہ تم کیا کہہ رہے ہو ؟روشنی کا کپ تھاما ہوا ہاتھ منہ کی جانب جانے سے پہلے ہی رک گیا تھا۔ اظفر نے صبح ہی صبح ایسا مطالبہ کر دیا تھا کہ وہ شاکڈ بیٹھی چند لمحے اسے دیکھتی رہی۔

مرے ہم نفس، مرے ہم نوا، مجھے دوست بن کے دغا نہ دے

میں ہوں دردِ عشق سے جاں بہ لب،مجھے زندگی کی دعا نہ دے

اس میں کون سی کوئی ان ہونی بات تھی جو تم حیران ہو رہی ہو؟اس نے الٹا سوال کیا۔

وہ ناشتا کر رہا تھا اظفر نے ناشتا مکمل ہوتے ہی اس سے بات کی تھی۔

افراز صاحب کے انتقال کو ایک مہینہ بیس دن گزر گئے تھے۔ وہ وہاں بیس پچیس دن گزار کر یہاں واپس آگئی تھی۔ وہاں کوئی نہیں تھا کس کے لیے رہتی اپو بھی اپنے بیٹے کے ساتھ دمام چلی گئی تھیں۔ وہ گھر کو تالا لگا کر یہاں آگئی تھی۔ اب اس کے گھر میں اس کے لیے کیا رکھا تھا سوائے تنہائی اور یادوں کے۔ وہ اسلام آباد رہتی یا لاہور میں اب فرق نہیں پڑتا تھا۔ دھوپ دونوں جگہ سخت تھی اور کوئی سایہ دیوار نہ تھا۔ اس کا باپ اس کا سائبان تھا جب سر کے اوپر سائبان نہ رہے، تو پیروں تلے زمین ہو یا نہیں سر کے اوپر آسمان ہو یا نہیں فرق نہیں پڑتا، اس کی کل کائنات اب اس کی بچی تھی۔

میں غمِ جہاں سے نڈھال ہوں کہ سراپا حزن و ملال ہوں

جو لکھے ہیں میرے نصیب میں وہ الم کسی کو خدا نہ دے

میرے لیے ان ہونی بات ہی ہے۔شاکڈ سے نکل کر وہ کچھ بولنے کے قابل ہوئی۔

اور آئندہ تم ایسا سوچنا بھی نہیں۔یہ بولتے ہوئے روشنی ذرا نہیں جھجکی۔

اور اگر سوچوں تو؟اگر وہ سوچتی اظفر ڈھیٹ ہے، تو واقعی ڈھیٹ ہی تھا، ابھی بھی ڈھٹائی کا اعلیٰ مظاہرہ کرنے سے باز نہیں آیا تھا۔

بلکہ سوچنا چھوڑو میں بھی اس بات پر قائم ہوں جو ابھی میں نے کہا سو تم صرف ہاں کردو۔اس نے حکم دیا۔

ہاں کردوں؟ ہاں کردوں؟ تمہاری بیوی ہوں تمہاری غلام نہیں سمجھے تم۔وہ صوفے سے کھڑی ہوئی اور اسے جواب دیتی ہوئی بیڈروم میں آگئی جہاں عائشہ سو رہی تھی۔

روشنی اگر تم نے مزید ضد کی، تو تم اپنے انجام کی خود ذمہ دار ہوگی۔ تمہیں اپنے شوہر کا وقار ذرا عزیز نہیں ہے ، میں در در کی ٹھوکریں کھاتا پھر رہا ہوں کہ کہیں سے پیسوں کا انتظام ہوجائے تو زندگی سکون میں آجائے۔ اسرار کے آدمی میرے پیچھے لگے ہوئے ہیں جہاں جاتا ہوں دھمکیاں دیتے ہیں، جان تک لینے کی باتیں کرتے ہیں تم کیا چاہتی ہو تمہاری بیٹی یتیم ہوجائے ، تم۔وہ اس کے پیچھے پیچھے بیڈروم میں بولتا ہوا آگیا۔

میری بیٹی؟ ہاں تم نے صحیح کہا میری بیٹی یہ میری ہی بیٹی ہے اس کا باپ اس کے لیے زندہ ہو کر بھی کون سا زندہ ہے؟ یتیم وہ بچے ہوتے ہیں جن کا باپ ان پر جان چھڑکتا ہو، ان سے کھیلتا ہو، انہیں اپنے ہونے کا احساس دلاتا ہو اور پھر وہ اس دنیا سے چلا جائے۔ وہ بچے یتیم نہیں ہوتے جن کا باپ زندہ ہوتے ہوئے بھی اپنی اولاد کو دیکھتا نہ ہو، میری بچی تمہارے لمس سے نا آشنا ہے، تمہاری آواز تمہارا وجود اس کے لیے اجنبی ہے کیوں کہ تم نے کبھی اسے یہ حساس دلایا ہی نہیں کے تم اس کے باپ ہو۔روشنی نے سخت لہجے مگر دھیمی آواز میں کہا۔

تو یہ سب میں کس کے لیے کر رہا ہوں ، تم لوگوں کے لیے بزنس کا سوچا تھا۔ اب اگر میری قسمت میں پیسا آنا نہیں ہے، تو میں کیا کر سکتا ہوں۔وہ جواباً حلق کے بل چیخا تھا۔

 

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۱

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!