عبادالرحمن

مائدہ پلیز! بات تو سنو۔سعد نے روکا۔ وہ اس کا کلاس فیلو نہیں تھا، لیکن یونیورسٹی کے ایک فنکشن میں دونوں کی پہلی بار بات ہوئی تھی۔ مائدہ کے لیے کسی بھی لڑکے سے بات کرنا عام سی بات تھی کیوں کہ وہ ایک پر اعتماد لڑکی تھی۔ ہر ایک سے چاہے لڑکا ہو یا لڑکی وہ اِسی انداز میں بات کیا کرتی تھی، لیکن سعد خوب صورتی کا مداح اس کی پر اعتمادی اور خوش اخلاقی کو کچھ اور ہی رنگ دے بیٹھا۔ 

ہاں بولو پر جلدی بولو۔اس نے عجلت میں کہا۔

تم مجھے ایسے اگنور نہ کرو۔سعد بول رہا تھا کہ یسریٰ نے قطع کلامی کی۔

میں جا رہی ہوں مائدہ،تم آجانا۔اس نے اسے گھورا، لیکن وہ مزید رکی نہیں چلی گئی۔

میں تمہاری بے اعتنائی برداشت نہیں کر سکتا۔ پلیز مائدہ آئی رئیلی لو یو۔اس کے جاتے ہی سعد نے کھل کر کہا۔

اوہ پلیز ! میرے پاس ان فالتو باتوں کے لیے وقت نہیں ہے۔مائدہ نے اس کی وہی پرانی رٹ سن کر فوراً اسے ٹوکا۔

میری فیلنگز کو تم بکواس تو نا کہو۔اسے تکلیف ہوئی۔

میں تمہاری فیلنگز کو بکواس نہیں کہہ رہی بلکہ میں قدر کرتی ہوں۔اس بار اس نے قدرے نرمی سے کہا۔

تمہاری ان باتوں کو بکواس کہہ رہی ہوں۔ بھئی مجھے تو ہر مہینے ہی کوئی ایسی آفر آتی ہے۔ ایسی باتیں کر رہا ہوتا ہے، تو کیا سب کو ہاں کہتی پھروں اور دوسری بات یہ کہ میری منگنی ہوچکی ہے خاندان میں اور ہم ایک دوسرے کو بہت چاہتے ہیں۔ اس نے محض اسے ٹالنے کے لیے جھوٹ کہا۔ اسی دوران کوئی لڑکا ان کے ساتھ آکر کھڑا ہوگیا۔ مائدہ اسے دیکھنے لگی عجیب سا حلیہ تھا اُس کا۔ خاص طور پر اس کا پنک اینڈ پرپل کیپ گریبان کھلا ہوا ، کلائیوں میں رنگ برنگے بینڈز ، ان کی یونیورسٹی میں کوئی اس طرح کی فنی اور شوخ چیزیں پہنا ہوا اسے نہیں دکھا تھا۔ شاید وہ یہاں کا نہیں تھا، اسے تعجب ہوا۔

سعد۔اس نے آکر سعد کو پکارا۔

 آجا یار چھوڑ اسے آ چلیں۔اس نے سعد سے کہا جیسے اسے پہلے تمام باتوں کا علم ہو۔ مائدہ کو تپ چڑھ گئی لیکن وہ چپ رہی۔

مائدہ میں تمہیں کسی اور کا ہونے نہیں دوں گا۔اس نے یہ کہہ کر مائدہ کو انگلی دکھاتے ہوئے کہا۔

پلیز سعد ! مجھے سہیلیوں کے پاس جانا ہے، وہ میرا انتظار کررہی ہیں۔ میرا وقت برباد نہ کرو۔

چل نا یار۔اس لڑکے نے سعد کا بازو کھینچا۔ 

مائدہ وہاں سے جانے لگی اور پھر پیچھے مڑ کر بولی۔

اور آئندہ میرا راستہ روکنے کی کوشش مت کرنا ورنہ ایچ او ڈی کو کمپلین کر دوں گی۔

اس نے کینٹین کا رخ کیا۔ اس دوران ہی موبائل کی بیل بجی اس نے فون دیکھا۔ڈیڈی کالنگلکھا تھا۔

اسے مزید غصہ آیا۔

کیا ہے ڈیڈی ہر ایک گھنٹے بعد کیوں کال کرتے ہیں۔اس نے فون اٹھاتے ہی روکھے انداز سے کہا۔

بیٹا یہ بتانے کے لیے فون کیا تھا کہ آپ کے اکانٹ میں پیسے ٹرانسفر کر دیے ہیں۔انہوں نے برا نا مانتے ہوئے کہا تھا ۔

اوکے تھینکس پر پلیز اب آپ مجھے کال نہ کیجیے گا۔ سب فرینڈز ساتھ ہوتی ہیں اور آپ کال کرتے رہتے ہیں بہت بے ڈھنگا لگتا ہے مجھے۔اس نے اسی ہی لہجے میں کہا۔

بیٹا شہر سے باہر ہوں تمہاری فکر ہوتی ہے۔انہوں نے کہا۔

اتنی فکر اگر آپ مام کی کر لیتے، تو وہ آج زندہ ہوتیں۔ مجھ پر مہربان نہ ہوا کریں زیادہ۔اس نے تڑخ سے جواب دیا، موم کی بنی ناک غصے سے لال ہوگئی۔

بیٹا تم میری کل متاع ہو اب۔وہ بولے۔

میں جانتی ہوں، ڈیڈی اب آپ مجھے ڈسٹرب مت کریں۔اس نے کہا اور فون بند کر دیا۔

یہ یونیورسٹی کی سب سے خوب صورت اور پرفیکٹ لڑکی کا ایک بدصورت اور امپیرفیکٹ پہلو تھا۔ 

بلڈ ریڈ اور گولڈن گھیر دار فراک پہنے، اپنے تمام لمبے ریشمی سیاہ بالوں کو بائیں کندھے اور سینے پر سمیٹے، سرخ رنگ کے لحاظ سے ہلکا پھلکا میک اپ اور جیولری سے خود کو آراستہ کیے وہ کسی مغلیہ شہزادی کی مانند لگ رہی تھی۔ وہ ایسے مشرقی لباس کم ہی پہنا کرتی تھی، لیکن جب پہنتی تھی توعام دنوں سے زیادہ حسین لگتی اور غیر معمولی تعریف و ستائش بھی پاتی۔ آج اس کا خاص دن تھا، اس کے سب ہی کلاس فیلوز اس کی خوشی میں شریک تھے، کچھ آگئے تھے اور کچھ کو ابھی آنا تھا۔ آخری کلاس اٹینڈ کرنے کے بعد ان کا ارادہ تھا سینٹایورس ریستوران جا کر مائدہ کی برتھ ڈے منائیں گے۔

اتنی صبح کیوں بلا لیا تم نے سب کو؟ کلاس تو 9 بجے ہے نا، پھر دوپہر تک ہی جاتے۔وہ کامن روم میں تھیں۔ اس کی دوست شمائلہ نے بہ مشکل جمائی روکتے ہوئے جملہ مکمل کیا۔

کلاس نو بجے ہے پر میرا دن تو شروع ہو چکا ہے نا گھر پر بیٹھ کر کیا کرتی۔ اس لیے تم سب کو جلدی بلا لیا ہلہ گلہ کرتے ہیں۔اس نے چہکتے ہوئے کہا۔ وہ واقعی موم کی گڑیا کی طرح لگ رہی تھی اس پر سرخ لباس الگ ہی قیامت ڈھا رہا تھا۔ 

اچھا چلو پھر تم ناشتا کرواتمہاری وجہ سے بھوکی ہی آگئی ہوں۔اس نے ایک اور جمائی لی۔

اچھا جی ڈن، کینٹین ابھی بند ہے، تو ہم باہر چلیں ؟

کیا باہر؟اس کی آنکھیں کھل گئیں۔

نو وے، تم یسریٰ کو ساتھ لے جاناشتا لے آپلیز، میں بالکل بھی چلنے کے موڈ میں نہیں۔وہ مزید اطمینان سے کمر ٹکا کر بیٹھ گئی۔

چلو نا یار موسم بھی زبردست ہو رہا ہے۔اس نے اسرار نہیں کیا۔

نہیں بھئی۔ آئی ایم سوری۔اس نے صاف انکار کیا۔

اچھا بابا چلو شمائلہ ہم چلتے ہیں۔اس نے اٹھتے ہوئے کہا۔

کار میں نہ؟شمائلہ بھی سست ہو رہی تھی۔

نہیں اتنا اچھا موسم ہو رہا ہے، کوئی احمق ہی کار میں گھومے گا، سامنے تو ہے پتا بھی نہیں چلے گا۔آج اس کا موڈ زیادہ ہی اچھا تھا ورنہ موسم اتنا اچھا نہیں تھا جتنا اس نے گمان کر لیا تھا۔

اچھا بھئی، چلو۔وہ اٹھ کھڑی ہوئیں۔

مائدہ کار میں چلو نا۔وہ کار پارکنگ کے قریب تھیں یسریٰ نے دوبارہ کہا۔

یار سامنے تو جانا ہے آجا نا اچھا ہے واک کرو تھوڑا وزن کم ہوگا۔اس نے شرارت سے کہا۔

یسریٰ نے منہ بنایا وہ مین گیٹ سے باہر آگئیں۔

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۱

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!