عبادالرحمن

عباد الرحمن….یعنی رحمن کے بندے۔

مولوی انکل کی آواز کمرے میں نصب لاڈ اسپیکر سے گونج رہی تھی۔ وہ مولوی عبدالقدیر کے گھر کا ایک کشادہ سا کمرا تھا جو لگ بھگ پچیس تیس عورتوں سے بھرا ہوا تھا۔ اس طرح کے درس کا انتظام ان کے گھر ہر ماہ ہوا کرتاتھا۔ وقت پڑنے پر یہی کمرا مہمان خانہ بن جاتا۔روشنی کے بچپن میں یہی کمرا اُس کا مدرسہ بھی تھا۔

مولوی صاحب کی بیگم محلے کی بچیوں کو قرآن پڑھاتی تھیں۔ روشنی نے بھی ان ہی سے پڑھا اور پھر سلائی کڑھائی سیکھی۔ وہ ان کی لاڈلی طالبہ تھی، شوخ و چنچل اور باتونی سی۔ ان کے گھر میں اس کی باتوں سے رونق لگ جایا کرتی تھی۔ افراز صاحب مولوی عبدالقدیر کے گہرے رفیق تھے۔ اُس کا فائدہ روشنی نے خوب اٹھایا تھا، سارا سارا دن یہاں گزارتی اور ان کے گھر کھاتی پیتی تھی۔ مولوی صاحب کی بیگم کا بھی اس سے دل بہل جاتا تھا۔ ان کا بس ایک ہی بیٹا تھا اس لیے وہ روشنی کو بیٹیوں سے بڑھ کر چاہتی تھیں۔ پھر چند سال پہلے جب روشنی کی امی کا انتقال ہوا تو وہ مزید اس کے لاڈ اٹھانے لگی تھیں کہ وہ اکیلا پن نہ محسوس کرے۔ پہلے روشنی انہیں استانی جی کہا کرتی تھی اور اب ان کی ہی خواہش پر خالہ جی کہا کرتی تھی۔ خالہ بہت اچھی اوربہت محبت کرنے والی تھیں۔ اس کی اس گھر سے ،اس کمرے سے ذہنی و قلبی وابستگی تھی۔ اسے بچپن کے قصے سوچ سوچ کر ہنسی آتی تھی۔

ایک دفعہ اس نے ان کے گھر پر کانچ کے پورے نو گلاس حادثاتی طور پر توڑے تھے جن میں سے ایک اس نے جان بوجھ کر توڑا تھا اور یہ بات سوائے اس کے اور عبدالہادی کے کسی کو نہیں معلوم تھی۔ ہوا یوں کہ روشنی لیفٹ ہینڈر یعنی بائیں ہاتھ سے کام کرنے والی تھی اور خالہ کو یہ بات پسند نہ تھی۔ لکھنے تک تو ٹھیک تھا، لیکن وہ کھاتی پیتی بھی الٹے ہاتھ سے تھی اور کبھی کبھار بے دھیانی میں ہاتھ بھی الٹے ہاتھ سے ملا لیتی تھی۔ وہ بہت کوشش کرتیں کہ اس کی اس عادت کو صحیح کریں لیکن روشنی عادت سے مجبور تھی۔ ایک دن انہوں نے اس بات پر اس کی خوب پٹائی کی تھی۔ وہ اکثر سمجھاتیں کہ یہ سنت کے خلاف ہے۔ جو کام تم کر سکتی ہو وہ تو سیدھے ہاتھ سے کرنا چاہیے۔ پھر ایک مرتبہ جس وقت روشنی سات سال کی تھی انہوں نے اسے اور عبدالہادی کو شربت کے گلاسوں سے بھری ایک ایک ٹرے تھمائی اور باہر مولوی صاحب کے دوستوں کو پیش کرنے کے لیے کہا جو بیٹھک میں بیٹھے تھے۔ پھر تاکید کی کہ سیدھے ہاتھ سے گلاس ان کے دوستوں کو دے ورنہ انہیں ناگوار گزرے گا اور ہادی کو ہدایت کی کہ اسے دیکھتا رہے کہ یہ الٹا ہاتھ نا استعمال کرے۔ جب وہ بیٹھک میں آگئے اور روشنی نے سیدھے ہاتھ سے ایک صاحب کو گلاس تھمایا تو وہ ان کے ہاتھ میں جانے سے پہلے ہی روشنی کے ہاتھ سے گر گیا۔ یہ روشنی نے جان بوجھ کے کیا تھا تاکہ خالہ آئندہ اسے سیدھا ہاتھ استعمال کرنے کا نہ کہیں۔ عبدالہادی نے یہ بات نوٹ کرلی تھی۔ مولوی صاحب ایک دم پریشان ہوگئے۔ وہ جیسے ہی آگے آئے اُسی دوران روشنی سے پوری ٹرے ہی ایک طرف لڑھک گئی۔چٹاخ…. چٹاخ…. چٹاخ…. چٹاخ…. چٹاخایک کے بعد ایک ایک کرکے سارے گلاس گر گئے اور خود کو عقل مند بی سمجھنے والی روشنی اتنا گھبرائی کے بھاگی بھاگی اندر آئی اور خالہ جی کی گود میں آکر ہی دم لیا۔ اسے یہ واقعہ سوچ کر آج بھی ہنسی آتی تھی۔ یہ وہ ہی کمرا تھا جہاں یہ سب ہوا تھا۔

یعنی رحمن کے بندے ! سورہ فرقان کی ان چند آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ان بندوں کے اوصاف بیان کیے ہیں جو اسے بہت ہی پسند اور محبوب ہیں۔مولوی انکل کی آواز نے اس کے خیالات کے تسلسل کو توڑا۔ان کی آواز کا رعب ہی الگ تھا۔

روشنی سوچنے لگی کہ انکل کی آواز میں نعت کتنی حسین لگتی ہوگی ۔

رحمن! اللہ تعالیٰ کا نہایت پیارا نام ہے۔وہ بول رہے تھے۔

بچپن میں بس تلاوت ہی سنی ہے ان کی، وہ بھی کتنی اچھی ہوتی تھی۔اس کی سوچ کا پرندہ پھر پھڑپھڑانے لگا۔

اس لیے اللہ نے یہاں رحمن کے بندے کہہ کر ان محبوب بندوں کا ذکر کیا ہے۔ رحمن لفظ میں اللہ کی جو رحمت عیاں ہوتی ہے، وہ رحمت کے سمندر کے مانند ٹھاٹھیں مارتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ لفظ رحمن میں بہت وسعت بہت تپاک ہے، جوش و خروش اور ہیجان ہے۔مولوی انکل نے درس کے سلسلے کو آگے بڑھایا۔

آواز تو اظفر کی بھی کتنی خوب صورت ہے، دل میں بسنے والی، حسین آواز۔سوچ کے پرندے نے پھر پر تولنے شروع کر دیے تھے۔

پہلی صفت !رحمن کے بندے وہ ہوتے ہیں جو آہستگی سے زمین پر چلتے ہیں۔(الفرقان ۶۳) یعنی ان کی چال ہی سے عاجزی نمایاں ہوتی ہے ۔مولوی عبدالقدیر کی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی۔

اظفر بھی تو کتنی عاجزی سے چلتا ہے۔ اس کی چال میں کتنا اعتماد ہوتا ہے۔ بالکل متوسط انداز ہے چلنے کا، لڑکیاں کیسے دیکھتی تھیں اسے جب وہ ان کے پاس سے گزرتا تھا اور وہ….وہ بس مجھے دیکھتا تھا، اللہ کتنے مہربان ہیں نہ کہ انہوں نے مجھے اظفر کا منظورِ نظر بنا دیا ہے۔کتنا چاہتا ہے اظفر مجھے۔پرندے نے لمبی اڑان بھری تھی۔

اور جب ان سے جاہل مخاطب ہوتے ہیں تو وہ سلام کہہ دیتے ہیں۔ (الفرقان۶۳) ”یعنی جب ان سے ایسے لوگ جو کہ کم علم ہوں یا جاہل ہوں وہ مخاطب ہوتے ہیں یا ان سے الجھنا چاہتے ہیں، تو عباد الرحمن ان سے الجھتے نہیں ہیں بلکہ سلامتی والی بات کہہ کر، اچھی بات کہہ کر ان سے بات کرتے ہیں۔ پھر بھی نہ مانیں تو خاموشی سے ان سے علیحدہ ہوجاتے ہیں۔ ان ہی کی طرح سرکش بن کر گفت گو کرنے سے پرہیز کرتے ہیں اور حقیقتاً یہ چیز انسان کی شخصیت کی پختگی کی بہت بڑی علامت ہے۔ بے کار کی بے جا بحث میں پڑنا ایک اچھے انسان کی نشانی ہوتی ہے نہ ہی اچھے مسلمان کی۔انہوں نے دوسری صفت بیان کی۔

لہجہ تو کتنا اچھا ہے اظفر کا۔میں نے یونیورسٹی کے دو سال میں اسے کسی سے بحث کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ وہ جو اس دن علی نے اس سے جھگڑا کیا تھا۔ تب بھی اظفر نے کس قدر نرمی سے اسے سمجھایا تھا۔ علی فوراً ہی مان گیا تھا، اظفر کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے کسی کو بھی منانا، کسی کو بھی راضی کر لینا، باتوں میں جادو ہوتا ہے اس کی۔پرندے نے ہوا میں پر پھیلا لیے تھے، مزید اونچائی اس کا مقصد تھا ۔

روشنی کے کانوں سے مولوی انکل کی آواز دور ہوگئی تھی۔ اس کی آنکھوں میں اظفر سے پہلی ملاقات اور کانوں میں اس کی دل سوز آواز گونجنے لگی تھی۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۱

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!