عبادالرحمن

میں نے اس دن کے بعد سے ان کی کوئی خبر نہیں لی۔ اسے اس لیے چھوڑ دیا کہ میں اپنے باپ دادا کی جائیداد سے محروم نہ رہ جاں۔ میں خود غرض بن گیا تھا۔ پتا نہیں اب کہاں ہوگی روشنی اور عائشہ۔ اب روز ان کا خیال آتا ہے۔ پل پل پچھتاوے کی موت مرتا ہوں۔ سوچتا ہوں وہ زندگی میں ایک بار مل جائے تو میں اس سے معافی مانگ لوں۔ اس کے قدموں میں گر جاں۔ پتا نہیں کس حال میں ہوں گی وہ دونوں۔

وہ بول رہا تھا، اجالا نے اسے دیکھا۔

وہ دونوں بہت خوش ہیں انکل۔اظفر نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ وہاں ایک مسکراہٹ تھی۔

ک ،ک کیا آپ جانتی ہیں انھیں؟وہ حیران ہوا۔

جی….میں آپ کو ان سے ملوا سکتی ہوں۔ میں جانتی ہوں روشنی کہاں ہیں۔پتا نہیں کیا سوچ کر اُجالا نے اتنا بڑا فیصلہ کیا۔

کیا؟ کیسے؟وہ پوچھنے لگا۔

بس آپ ملنا چاہتے ہیں نا، میں ملوا دوں گی ۔آپ آنسو صاف کیجیے میں آئی ایک منٹ۔

وہ یہ کہتے ہوئے فون اٹھا کر باہر آگئی۔

اُجالا نے روشنی کو کال کی۔

ماما آپ کہاں ہیں؟اس نے روشنی کے فون اٹھاتے ہی کہا۔

گھر پر ہوں میری جان۔

اچھا آپ مجھے اسپتال لینے آجائیں، آپ خود آئیے گا۔ آپ کو کسی سے ملوانا بھی ہے۔اس نے تاکید کی۔

اچھا بابا میں آتی ہوں تم انتظار کرو۔انہوں نے کہہ کر فون رکھ دیا۔

اُجالا اندر آگئی اور بیٹھ کر کچھ کام کرنے لگی۔

اظفر کی بے چینی بڑھنے لگی۔

اسے لگا اُجالامذاق کر رہی ہے۔

وہ آتی ہوں گی۔اس نے مسکرا کر کہا۔

تھوڑی دیر بعد اُس کا فون بجا اس نے پک کیا۔

آجاباہر کھڑی ہوں۔روشنی نے کہا۔

آپ کو ملوانا بھی تو تھا کسی سے، آپ اندر آجائیں نا۔

کس سے ملوانا ہے ؟میں نے پارکنگ نہیں کی بیٹا بہت بڑا یو ٹرن لینا پڑے گا تم آجا۔روشنی نے کہا۔

اچھا رکیں میں ہی جاتی ہوں۔اس نے جلدی سے کہا۔

ر….روشنی؟اظفر کی آواز کپکپائی۔

جی، وہ باہر ہیں۔ ہمارا ویٹ کر رہی ہیں ہم وہیں چلتے ہیں۔اس نے مسکرا کر کہا۔

اظفر کو ابھی بھی یقین نہیں آرہا تھا۔ ستائیس سال گزر جانے کے بعد پہلی بار اس نے اپنا راز کسی کے آگے فاش کیا اور خواہش کی کہ وہ روشنی سے ملنا چاہتا ہے اور یک دم یہ خواہش پوری بھی ہونے جا رہی تھی۔

اسے سب خواب لگا، دھوکا لگا۔

وہ کھڑا ہوگیا اور اجالا کے پیچھے پیچھے چلتا ہوا باہر آگیا۔

اُجالا نے اسپتال کے گیٹ سے نکل کر اِدھر اُدھر نظر گھمائی روشنی وہاں نہ تھی۔ اس نے سامنے دیکھا، تو روشنی سڑک کے دوسری پار کھڑی گاڑی سے باہر نکلی اس کا ویٹ کر رہی تھی۔ اظفر اس کے پیچھے کھڑا تھا، اس نے اظفر کے پاس آکر اس پار کھڑی روشنی کی طرف اشارہ کیا، اظفرنے اس کے اشارے کی طرف دیکھا اور غور کرنے لگا وہ واقعی روشنی ہی تھی۔ سیاہ چادر اوڑھے ہوئے۔ اسے قد سے اور دور سے دیکھے جانے والے دھندلے خد وخال سے وہ روشنی ہی لگی تھی۔

ماما….“وہ چلائی پھر اس نے ہاتھ ہلایا۔

روشنی نے بھی مسکرا کر ہاتھ ہلایا اس نے پیچھے کھڑے مرد پر غور نہیں کیا تھا۔ 

اظفر اس کے لفظ ماما پر اسے دیکھنے لگا۔ وہ حیرت کی کیفیت میں کبھی اجالا کو دیکھتا کبھی روشنی کو۔ 

عا….عائشہ۔اظفر کی زبان سے اٹکا اٹکا نکلا۔

عائشہ نہیں…. اجالا۔ روشنی اور عبدالہادی کی اجالا۔اس نے پلٹ کر اسے دیکھا پھر مسکرا کر کہا۔

اظفر کی حیرت سوا تھی، اس کے ذہن میں سب واقعات دوڑنے لگے۔ اگر واقعی یہ سچ تھا کے اجالا اس کی بیٹی ہے تو….اظفر جیسے احساس شرمندگی زمین میں گڑنے لگا۔ اس نے روشنی کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی اور اس کی بیٹی اس سے کوئی شکایت کیے بغیر سب کچھ جانتے ہوئے بھی مائدہ کا علاج کر رہی تھی۔ اسے صرف جسمانی صحت ہی نہیں ذہنی طور پر بھی سہارا دیتی تھی۔ اظفر کو تسلی دیتی تھی۔وہ حیران کھڑا تھا کہ اجالا آج اس کا درد سن رہی تھی پھر بھی منہ سے کوئی گلہ نہ کیا، اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ کوئی اتنا بھی اعلیٰ ظرف ہو سکتا۔

اچھا آپ رکیں میں ماما کو یہاں لاتی ہوں۔اس نے اسے کہا وہ چونک گیا۔

وہ اتنی اکسائیٹڈتھی کہ اس کا جواب سنے بغیر ہی آگے بڑھی۔ جلد بازی میں سڑک کراس کرنا چاہا۔ دائیں دیکھا نہ بائیں اور آگے بڑھ گئی۔ اس نے دائیں جانب سے آتی گاڑی بھی نہ دیکھی اور ابھی سڑک کنارے پہنچی ہی تھی کہ اس کو ایک زور دھکا لگا اور وہ دور جا گری۔

اجالا۔اسے ماما کی چیختی ہوئی آواز سنائی دی تھی۔

گاڑی کے پہیوں کی چنگھاڑتی ہوئی آواز نے آس پاس کے درختوں پر بیٹھے پرندوں میں انتشار پھیلا یا تھا اور لوگوں کے ہجوم پر سکوت طاری کر دیا تھا۔ کچھ لمحوں تک فضا میں خاموشی کا غلبہ رہا سوائے پرندوں کی پھرپھراہٹ کے کچھ سنائی نہیں دیتا تھا۔ چند لمحے بیت جانے کے بعد سکوت ٹوٹا اور لوگوں کے ہجوم میں سے چہ میگوئیاں سنائی دینے لگیں ان کی سوالیہ نظریں کبھی جائے وقوعہ پر اظفر کو دیکھتیں جو زمین پر پڑا تھا اور کبھی اجالا کو جو اس کے پاس حیران کھڑی تھی۔ پھر اجالا بیٹھی اور اس نے اظفر کا سر اپنی گود میں رکھا ، لوگوں کے ہجوم میں حرکت ہوئی اور روشنی سڑک پار کر کے مجمعے کو چیرتی ہوئی جائے وقوعہ تک آئی۔ اس کی نگاہوں نے اظفر کو دیکھا جو خون میں لت پت آخری سانسیں لیتا ہوا خالی نگاہوں سے کبھی اجالا کو دیکھتا جس نے اس کا لہولہان سر اپنی گود میں رکھا ہوا تھا اور کبھی روشنی کو دیکھتا جو ابھی ابھی اس تک پہنچی تھی۔ اس کی نگاہیں خالی نہ تھیں، کیا کچھ نہ تھا ان آنکھوں میں…. ان آنکھوں میں ندامت، شرمندگی، اضطراب، دکھ، کرب، ہار سب کچھ تھا ، لیکن اظفر کے ہونٹوں کی مسکراہٹ سے مسرت، خوشی، جیت کا احساس، کچھ پانے کی خوشی عیاں ہو رہی تھی۔ اُجالا کبھی اظفر کو دیکھتی اور کبھی روشنی کو جو اس کے پاس آکر کھڑی ہوگئی تھی۔ اجالا کی آنکھوں سے آنسو اس طرح بہ رہے تھے جیسے کہ اظفر کے سر سے خون…. اظفر کے زخم درد برداشت نہ کر سکے، نہ ہی اس کی روح اس کا غم اور خوشی برداشت کر سکی اور اس کے منہ سے آخری ہچکی خارج ہوئی۔

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۱

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!