عبادالرحمن

آہستہ بولو میری بیٹی سو رہی ہے اور تم سے میں نے دولت کے انبار لگانے کی ڈیمانڈ کبھی نہیں کی تھی، جو تھوڑے بہت پیسے اگر تم تھوڑی محنت کرنے سے لا سکتے تھے، تو اتنے پیسے تم اتنا لمبا ہاتھ مارنے پر بھی نہیں لا سکے۔روشنی نے دانت کچکچائے اور بیڈ سے اٹھ گئی۔

اب تم مجھے پھر ناکارہ ہونے کا طعنہ مت دینا۔ تم بس شرافت سے میری بات مان لو۔اس نے شہادت کی انگلی اٹھا کر جیسے اسے وارن کیا۔

میں نہیں مانوں گی تمہیں جو کرنا ہے کرلو۔وہ کمرے سے باہر آگئی۔ عائشہ کسمسا رہی تھی کہیں وہ اٹھ نہ جاتی۔

میرا عزم اتنا بلند ہے کہ پرائے شعلوں کا ڈر نہیں

مجھے خوف آتشِ گل سے ہے کہیں یہ چمن کو جلا نہ دے

نہیں میں تمہیں اب ایسا کوئی طعنہ نہیں دینے والی، کیوں کہ تم پر اس کا بھی کوئی اثر نہیں ہوگا۔وہ دوبارہ بیرونی کمرے میں آگئی۔ میز پر پڑا اس کا چائے کا کپ اس نے اٹھا لیا۔

روشنی! بات تو سنو۔

اظفر….تم بات سنو، وہ گھر میرے ابو جی کی نشانی ہے۔ اس میں میرے ماں باپ کی خوشبو بسی ہے، میں پیدا وہاں ہوئی، بڑی وہاں ہوئی ہوں، ہزار یادیں جڑی ہیں وہاں سے، ابو جی زندگی میں کبھی بھی یہ نہ چاہتے کہ وہ گھر بیچ دیا جائے تو میں ان کے مرنے کے بعد کیوں ایسا سوچوں؟روشنی نے سمجھایا۔ چائے ٹھنڈی ہو چکی تھی اس نے واپس ٹیبل پر رکھ دی۔

مرے گھر سے دور ہیں راحتیں، مجھے ڈھونڈتی ہیں مصیبتیں

مجھے خوف یہ کہ مرا پتا کوئی گردشوں کو بتا نہ دے

یہ سب خیالی باتیں ہوتی ہیں یادیں وادیں سب بس ذہن میں ہوتی ہیں۔ مرے ہو ئے لوگوں کا خیال ہے تمہیں زندوں کا نہیں؟وہ پھر تلخ کلامی پر اتر آیا تھا۔

تمہارا خیال ہے اس لیے اپنا سارا سونے کا زیور تمہیں دے چکی ہوں۔ ابو کے دیے ہوئے پیسے تمہیں دیتی آرہی ہوں اب گھر بھی بیچ دوں؟مجھے تمہارا اعتبار نہیں۔روشنی اس کے آگے آکر کھڑی ہوگئی۔

اب تمہارا اعتبار نہیں توڑوں گا یار اب ایسا نہیں ہوگا۔وہ دیوار میں نصب برتنوں والی الماری کے ساتھ لگ کر کھڑا ہوگیا۔

یہ گھر بیچ دو، تو ہمارے بہت سے مسائل حل ہوجائیں گے۔ پھر سے ہم خوش رہنے لگیں گے، ہماری بیٹی کا مستقبل بھی محفوظ ہوگا۔وہ اسے دیکھتی رہ گئی۔

 مجھے چھوڑ دے مرے حال پر، ترا کیا بھروسا اے چارہ گر

یہ تری نوازشِ مختصر ، مرا درد اور بڑھا نہ دے 

اور گھر کے بعد کیا بیچو گے ؟ مجھے بیچوگے یا اپنی بیٹی کو بیچو گے؟اس نے پوچھا۔

بکواس بند کرو اپنی۔وہ چلایا۔

بہت زبان چلانی آگئی ہے ۔تمہارا دماغ ٹھکانے لگانا پڑے گا۔ سارے بل سیدھے کر دوں گا تمہارے۔وہ وہیں الماری کھول کر کچھ ڈھونڈنے لگا۔

کیا کروگے تم ماروگے مجھے؟ مارو کتنا ماروگے ۔وہ اب چیخنا شروع ہوگئی تھی۔ اندر سے عائشہ کے رونے کی آواز آنے لگی۔ اس نے دھیان نہیں دیا۔ اسے اظفر پر ہمیشہ کی طرح بہت غصہ آرہا تھا۔ وہ ہی ازلی ڈھٹائی جو اس کے غصے کو ہوا دیتی تھی۔

ماروں گا نہیں جان سے مار دوں گا تاکہ میں بھی سکون میں آجاں۔وہ ابھی تک الماری میں کچھ ڈھونڈ رہا تھا۔

مار دو تم ….جان سے مارنا کسے کہتے ہیں اظفر؟ میں دوزخ میں ہی جی رہی ہوں۔ تم نے مجھے کون سا پھولوں کی سیج پر بٹھا کر رکھا ہے۔وہ لڑنا چاہتی تھی آج اتنا لڑنا چاہتی تھی جتنا کبھی نہیں لڑی تھی۔ اظفر کو احساس نہیں ہے میرے ابو جی ابھی ابھی اس دنیا سے گئے ہیں اور وہ چاہتا ہے گھر بیچ دوں، اپنی کمینگی دکھانے میں تھوڑا تو صبر کرتا۔ عائشہ کی رونے کی آوازیں بڑھتی جا رہی تھیں۔

یک دم کسی چیز کی تلاش میں مصروف عمل اظفر کا ہاتھ رک گیا۔جیسے اسے اس کی مطلوبہ چیزمل گئی ہو۔ وہ پلٹا اس کے ہاتھ میں جیلی کی کانچ کی بوتل تھی۔ یہی بوتل کچھ دن پہلے ہی ختم ہوئی تھی جو کہ روشنی نے دھو کر رکھ دی تھی، لیکن روشنی نے بوتل پر دھیان نہیں دیا۔ 

روشنی تم ابھی بول دو کہ گھر بیچ دوگی یہ ہی تمہارے حق میں بہتر ہوگا ورنہ ….“ اس نے بوتل کا ڈھکن کھولا، روشنی نے ابھی بھی بوتل پر توجہ نہیں دی تھی۔ عائشہ کے رونے کا شور بڑھتا جا رہا تھا۔

گھر کو بھول جا اظفر، بھول جا۔ تم سے شادی میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی۔وہ غم و غصے میں بولتی رہی، اس کا لہجے بھرا رہا تھا۔

روشنی یہ وقت ان باتوں کا نہیں ہے۔تم بات مان جاورنہ میں تمہیں۔وہ بوتل کو اونچا کرتا ہوا آگے بڑھا، لیکن اس نے بات کاٹ دی وہ کچھ سننے کو تیار نہیں تھی۔

میرے ابو تمہاری وجہ سے اس دنیا سے چلے گئے۔اس نے ہاتھ اٹھا کر کہا ۔عائشہ کے رونے کی آواز اور اونچی ہوگئی۔

تم نے سب چھین لیا ہے مجھ سے۔ میری ہنسی، میری خوشیاں، میرا باپ تک چھین لیا تم نے۔ تم انسان نہیں جانور ہو۔ تمہاری….تمہاری ہوس نہیں ختم ہو رہی۔ تم مجھے غم نہ دیتے، تو میرا باپ بھی آج….“ اظفر کا غصہ آسمانوں کو چھو رہاتھا روشنی سنتی کیوں نہیں ہے ۔ آج وہ واقعی اسے مار دینا چاہتا تھا۔ اس نے بوتل روشنی پر خالی کرنی ہی چاہی تھی کہ روشنی کا ہاتھ بوتل سے ٹکرایا اور اُس میں موجود تیزاب اس کے گردن سے ہوتے ہوئے سینے پر گرا۔ آگ سی تھی جو اس کے سینے پر گر رہی تھی، راکھ سی تھی جو وہ ہو رہی تھی۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۱

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!