عبادالرحمن

غرض یہ کہ اس نے اپنی بچی کو بچانے کے لیے جھوٹا بیان دے کراظفر کو آزاد کروا دیا اور اس طرح یہ کیس یہیں ختم ہوگیا۔ چند دن اس تھرڈ کلاس اسپتال میں تھرڈ کلاس ٹریٹمنٹ جھیلتے رہنے کے بعد وہ مولوی انکل اور خالہ جی کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے واپس اسلام آباد آگئی جہاں چند دن بعد اظفر کی طرف سے طلاق کے کاغذات موصول ہوئے اور اس طرح لاہور میں گزارے اس کی زندگی کے ڈیڑھ سالہ بھیانک باب کو اس نے ہمیشہ کے لیے بند کر دیا۔ بند تو کر دیا تھا،لیکن فراموش نا کر سکی۔

خالہ جی کے بہت اصرار کے باوجود اس نے عدت ان کے گھر کے بہ جائے اپنے گھر پوری کرنے کو ترجیح دی۔ وہ بہ ضد تھیں کہ یہاں اسے کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ الگ کمرا ہوگا اور اس طرح وہ عائشہ کی بھی دیکھ بھال کر لیں گی، لیکن وہ نہ مانی، اسے اپنے ابو جی کے گھر میں رہنا تھا حالاں کہ یہاں اب کچھ نہیں رکھا تھا۔ الٹا یہ گھر اسے اظفر سے ہونے والا آخری جھگڑا یاد دلاتا۔ پھر وہ حادثہ یاد آتا اور ہر زخم پھر سے تازہ ہوجاتے۔ اس سب میں سب سے اچھی بات صرف یہ تھی اس کی بیٹی اس کو واپس مل گئی تھی۔ اس کی کل کائنات اس کی متاع حیات، اس کی عائشہ، لیکن اس معاشرے میں ایک طلاق یافتہ وہ بھی جلی ہوئی عورت کس نگاہوں سے دیکھی جاتی ہے؟ اگر اسے پہلے علم نہیں بھی تھا تو اب اچھی طرح علم ہوگیا تھا۔

محلے کی وہ عورتیں جو پہلے اس کے گھر آتیں، تو اس کی باتوں سے لطف اندوز ہوتیں۔ ہمیشہ ہنس کر مسکرا کر ہی اس کے گھر سے جاتیں، آج جب وہ اس ملنے آتیں تو ان کی آنکھوں میں ترس، رحم، افسوس، خوف، طنز سب ملتا، لیکن خوشی و مسرت کہیں نہیں ملتی۔ وہ کبھی اس کے کمر کا ٹیڑھا پن دیکھتیں جو مسلسل تکلیف برداشت کرنے اور صحیح علاج نہ ہونے کی وجہ سے نمایاں ہونے لگا تھا اور کبھی اس کی گردن کے ابھرے ہوئے دھبے دیکھتیں۔

محلے کے وہ بچے جوروشنی باجی روشنی آپاکرتے نہیں تھکتے تھے اب اس کی گردن اور ٹھوڑی کی بگڑی ہوئی ہیئت دیکھ کر ڈر جاتے تھے۔ جلنے کی تکلیف کے بعد اس طرح کی تکلیف سہنا بھی ایک امتحان تھا اور روشنی کو اب امتحانات کی عادت ہوگئی تھی۔

یہاں آکر اس کا زیادہ تر علاج مولوی صاحب کرواتے رہے ۔ وہ جانتی تھی وہ بہت مال و دولت والے نہیں ہیں۔ بس مسجد کے مو¿ذن ہیں۔ اس کے بعد پوسٹ آفس کلرک کی جاب اور مدرسہ میں قرآن پڑھانا اور اس کمائی میں بھی وہ کتنے ہی لوگوں کی مدد کیا کرتے تھے۔ اب ہادی کی بھی نوکری ہوگئی ہوگی، تو وہ کچھ نہ کچھ بھیجتا ہوگا، لیکن بہرحال اسے ان پر بوجھ نہیں بننا چاہیے۔ وہ اکثر انہیں انکار کر دیتی کہ ڈاکٹر کے پاس نہیں جاں گی میں اب ٹھیک ہوں۔ باز دفع وہ اپنے اکیلے ہی پٹی کرتی اور جب کئی دن تک اسے نہیں کھولتی تو زخموں میں پیپ اور بدبو کا طوفان ہوتا تھا۔ اس کی جلن کئی کئی دن تک نہیں جاتی تھی۔ لوگ اسے سرجری کا مشورہ دیتے، لیکن اس کے لیے ڈھیر سارے پیسے چاہیے ہوتے ہیں جو اس کے پاس نہیں تھے۔ اس سے بہتر وہ اس پیپ اور بدبو کو برداشت کرنا سمجھ رہی تھی۔ اس کو سمجھ نہیں آتا تھا کہ ایسا کیا کرے کہ وہ اپنا خرچہ خود اٹھا سکے، وہ پڑھی لکھی تھی، لیکن جب کسی اسکول میں جاب کے لیے جاتی تو وہ اس کی بگڑی شکل اور جھکی ہوئی کمر دیکھ کر انکار کر دیتے۔

اس کے لیے اس سب کا سامنا کرنا ایک چیلنج تھا۔ سارا دن وہ لوگوں کے رویوں سے مرتی تھی اور گھر آکر اپنے جسم میں پلتے ناسوروں اور ذہن میں چپکے ہوئے یادوں کے سانپوں سے ڈسی جاتی تھی، وہ ذہنی و جسمانی طور پر ٹوٹ چکی تھی۔ اس کا سب کچھ تباہ ہوگیا تھا۔

اس دنیا میں عبادالرحمن کی چاہ نے اسے یہاں لا کھڑا کیا تھا۔ اس نے لوگوں میں اپنے شوہر میں اپنی ساس سسر اور اس اسپتال کے ڈاکٹر اور نرس میں عباد الرحمن کو ڈھونڈا تھا۔ بہت کریدا تھا، لیکن کوئی اس ڈیفی نیشن پر فٹ نہیں اُترا۔ اس کا سنہری مجسمہ ایک بار ٹوٹا تھا اور اس کے ساتھ وہ بھی ٹوٹ گئی تھی۔ اگر اس نے سوچ لیا ہوتا کہ ابعباد الرحمنجیسے لوگ نہیں بستے اگر مولوی انکل اور خالہ اس کے ساتھ نہ ہوتے ، ان کی صورت ،میں اس کی امید زندہ تھی، عباد الرحمن ہوتے ہیں، یہ آس زندہ تھی۔

جب کبھی وہ سوچتی کہ مجھے مر ہی جانا چاہیے، تو اسے اپنی بیٹی کا خیال آتا اور پھر وہ ایک بار پھر سے جینے لگتی اور صرف اس ہی خیال کو زندہ رکھنے کے لیے عدت کی مدت مکمل کرنے کے بعد اس نے وہ فیصلہ کیا جس کے بارے میں وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی جو اس کے اور اظفر کے بیچ فساد کی جڑ بنا تھا۔ اس نے مولوی عبدالقدیر سے کہا کہ وہ اپنا گھر بیچنا چاہتی ہے تاکہ اپنا علاج کروا سکے اور آگے کے بارے کچھ سوچ سکے۔

اس کی بات سن کر پہلے وہ خاموش ہوگئے پھر اسے سمجھایا کہ اچھی طرح سوچ لے، لیکن وہ اس ہی بات پر قائم رہی کے وہ اب کسی پر بوجھ نہیں بننا چاہتی تھی۔ اتنے بڑے گھر کا وہ کیا کرے گی اور وہ دوسروں پر بوجھ بن بن کر تھک گئی ہے۔ مولوی صاحب اس کے اس طرح کہنے پر ناراض بھی ہوئے لیکن جب خالہ جی کے سامنے روشنی نے رونا دھونا شروع کیا، تو وہ اس شرط پر مان گئے کہ وہ ان کے گھر رہے گی کہیں اور نہیں۔ تھوڑے سے تامل کے بعد روشنی راضی ہوگئی اور پھر مولوی صاحب نے اس گھر کے لیے خریدار ڈھونڈ کر گھر بیچنے کا انتظام کر دیا۔

پارک میں دور روشنی میں کہیں دو تین سالہ بچی اپنے امی ابو کے ساتھ ٹہل رہی تھی، باتیں کررہی تھی ہنس رہی تھی۔

روشنی کو عائشہ یاد آئی جس کی وجہ سے وہ جینا چاہتی تھی، چند دن اور چند سال اور….

وہ جلدی جلدی برگر ختم کرنے لگی کہ کہیں اس کے پیچھے خالہ جی عائشہ کو گھر واپس چھوڑنے نہ آگئی ہوں ۔ وہ اکثر شام کو اسے اپنے ساتھ لے جاتی تھیں۔ 

وہ برگر ختم کر کے اٹھ کھڑی ہوئی ، شال کو پھر اچھی طرح سے اوپر سے نیچے تک لپیٹا کہ کہیں اس کا کوئی عیب دوسروں پر نمایاں نہ ہوجائے اور تاریک راستوں سے ہوتی ہوئی اپنے گھر تک آگئی۔ کڑی پتے کے درخت کی خوشبو نے اُس کا استقبال کیا وہ کچھ دیر وہیں کھڑی اس خوشبو کو محسوس کرتی رہی، پھر گھر کے اندر داخل ہوگئی۔ اس نے ایک نظر صحن پر ڈالی اور اندر آکر شال اتار دی۔

پھر واپس کمرے کے دروازے پر آئی اور کھڑی ہو کر باہر صحن کو دیکھتی رہی۔ محلے کے بچے، امرود کا درخت ، سہیلیوں کا شور سب کچھ نگاہوں کے سامنے گھوم گیا۔ اس نے پیچھے مڑ کر کمرے کے اندر جھانکا یہ ابو جی کا کمرا تھا، سامنے اُن کی آرام کرسی پڑی تھی۔ اُس کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں بھینچ لیا ہو، ایک…. دو…. تین…. ٹپ…. ٹپ…. ٹپ اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔

پھر وہ آنسو صاف کر کے صحن میں آگئی اور پتوں اور مٹی سے بھرے فرش کو صاف کرنے لگی۔ اس نے اس گھر کا ایک ایک کونہ صاف کیا دھویا شیشے کی طرح چمکادیا جیسے وہ پہلے ہر روز کیا کرتی تھی لیکن اب روز نہیں کر پائے گی۔

کیوں کہ آج اس کی اس گھر میں آخری رات تھی۔

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۱

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!